Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

یہاں استعفیٰ دیا نہیں لیا جاتا ہے

پاکستان میں جب کوئی جماعت حزبِ اختلاف ہوتی ہے تو اسے فوراً سیاسی
اخلاقیات کا بھولا ہوا سبق یاد آنے لگتا ہے اور وہ کرپشن، نااہلی اور بد عنوانی کے خلاف سینہ سپر ہو جاتی ہے۔ حزبِ اختلاف بات بات پر صدر سے تھانے دار تک ہر ایک سے استعفی مانگتی پھرتی ہے اور جب خود اقتدار میں آتی ہے تو سیاسی اخلاقیات بھول بھال کر ہر بد انتظامی اور کرپشن کے بارے میں وہی تاویلات پیش کرنا شروع کر دیتی ہے جو اس کی پیشرو حکومت پیش کرتی تھی اور پیشرو حکومت حزبِ اختلاف میں آ کر اسی سیاسی اخلاقیات کے منبر پر بیٹھ جاتی ہے جو گذشتہ حزبِ اختلاف کے حزبِ اقتدار بننے سے خالی ہوا تھا۔

یہ اخلاقی و تاویلاتی میوزیکل چیئر پچھلے 70 برس سے جاری ہے۔ ایسا بہت کم ہوا ہے کہ کسی منتخب یا سرکاری عہدیدار نے الزامات ثابت ہونے سے پہلے اپنے ضمیر کی آواز پر استعفی دیا ہوتا آنکہ پشت پر قانونی و سیاسی لات نہ پڑے۔ اگر بہت دور چلے گئے تو بات بھی بہت دور نکل جائے گی۔ فوری یادداشت کا سہارا لیا جائے تو سابق وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو کا دور یاد آتا ہے جب وزیرِ مواصلات پرنس محی الدین، وزیرِ بلدیات انور عزیز چوہدری اور پیداوار کے وزیرِ مملکت اسلام الدین شیخ کو بدعنوانی، غفلت یا خورد برد کے الزامات لگتے ہی وزیرِ اعظم نے خود برطرف کیا۔ وہ الگ بات کہ چھان بین کے نتیجے میں بعد ازاں صرف اسلام الدین شیخ پر ہی باضابطہ فردِ جرم عائد اور ثابت ہوئی مگر جونیجو کی اصول پسندی خود ان کے کسی کام نہ آ سکی۔
سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ نے سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کی پاداش میں چلتا کیا۔ مگر سنہ 2010 میں خود یوسف رضا گیلانی کو اپنے تین وزرا بدعنوانی یا ڈسپلن کی خلاف ورزی پر برطرف کرنا پڑے۔ وزیرِ مملکت برائے دفاعی پیداوار عبدالقیوم جتوئی نے اپنی ہی حکومت پر کرپشن اور پھر اس کرپشن میں حصہ داری نہ ملنے کا شکوہ کیا لہذا انھیں جانا ہی تھا۔ وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی اعظم سواتی نے اپنے ہی ہم کابینہ وزیرِ مذہبی امور حامد سعید کاظمی پر حاجیوں کو لوٹنے اور حج کوٹے کی فروخت کا الزام لگایا تو یوسف رضا گیلانی نے دونوں وزرا کو کرپشن کے الزام میں برطرف کر دیا۔

اعظم سواتی جمیعت علماِ اسلام کے کوٹے پر وزیر تھے لہذا ان کی برطرفی پر مولانا فضل الرحمان احتجاجاً حکومت سے الگ ہو گئے۔ حامد سعید کاظمی کو کرپشن ثابت ہونے پر جیل جانا پڑا جہاں سے وہ ابھی پچھلے ماہ ہی رہا ہوئے ہیں۔
جہاں تک شریف دور کا معاملہ ہے توسنہ 2014 میں لاہور کے ماڈل ٹاؤن میں پولیس کے ہاتھوں پاکستان عوامی تحریک کے دس حامیوں کی ہلاکت کے بعد غم و غصہ روکنے کے لیے وزیرِ اعلی شہباز شریف نے کچھ عرصے کے لیے وزیرِ قانون رانا ثنا اللہ سے قلمدان واپس لے لیا اور پھر موقع محل دیکھ کر واپس بھی کر دیا۔

جب وزیرِ تعلیم و سیاحت و امورِ نوجوانان رانا مشہود احمد خان کی ایک وڈیو سامنے آئی جس میں وہ رشوت لے رہے ہیں اور اسی دوران 20 ارب روپے کے ایک سکینڈل میں ملوث ہونے کے شبہے میں نیب نے رانا صاحب کے خلاف چھان بین شروع کردی تو وزیرِ اعلی شہباز شریف اور پارٹی کے 'اخلاقی دباؤ' کا احترام کرتے ہوئے رانا مشہود نے امورِ نوجوانان اور سیاحت کا قلمدان تو چھوڑ دیا مگر تعلیم کی وزارت پھر بھی رکھی۔ کچھ عرصے بعد رانا صاحب کو چھان بین کے نتیجے میں کلین چٹ مل گئی اورایک بار پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔ سنہ 2015 میں قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق کو جب تک الیکشن کمیشن نے انتخابی بے قاعدگیوں کے الزامات کے نتیجے میں نشست سے محروم نہیں کر دیا تب تک انھوں نے بھی اخلاقاً پہل نہیں کی۔ اس کے بعد بھاری اکثریت سے دوبارہ انتخاب جیت کر دوبارہ اسپیکر کی کرسی سنبھال لی اور دوبارہ عمران خان کو غصہ دلایا۔

جب بھی ملک میں دہشت گردی کی بڑی واردات کے بعد حزبِ اختلاف سدا بہار وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی کے استعفیٰ کا مطالبہ کرتی ہے تو چوہدری صاحب اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں اتنے جوابی وار کرتے ہیں کہ حزبِ اختلاف اگلے ایک ہفتے تک اپنے زخم سہلاتی رہتی ہے۔ چوہدری صاحب نے تو امن و امان کی ابتری اور کوئٹہ سول سپتال میں 50 سے زائد وکلا کی ہلاکت کے اسباب کی چھان بین کے لیے قائم سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسی کمیشن کی سفارشات کو 'لیرو لیر' کر دیا تو حزبِ اختلاف کیا بیچتی ہے۔ سنا ہے ایک آدھ بار چوہدری صاحب نے وزیرِ اعظم نواز شریف کو استعفیٰ دینے کی بھی پیش کش کی مگر میاں صاحب نے ان کی یہ درخواست سختی سے مسترد کر دی۔ میاں صاحب گرم و سرد چشیدہ ہیں اور خوب جانتے ہیں کہ کابینہ میں اس طرح کی بدعت اگر شروع ہو گئی تو بات جانے کہاں تک پہنچے۔

خیبر پختونخوا میں تحریکِ انصاف کی صوبائی حکومت نے نومبر سنہ 2013 میں گڈ گورننس اور شفاف سیاست کی خاطر دو صوبائی وزرا کو بدعنوانی اور ہیرا پھیری کے الزام میں کابینہ سے چلتا کر دیا مگر دونوں کا تعلق اتفاق سے اتحادی جماعت قومی وطن پارٹی سے تھا۔ خود پی ٹی آئی کے وزیرِ مواصلات یوسف ایوب تب تک برطرف نہیں ہوئے جب تک وہ جعلی ڈگری کیس میں سپریم کورٹ میں آخری اپیل نہیں ہار گئے۔ البتہ خود تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان انتخابی دھاندلی چھان بین کمیشن میں سنہ 2013 کے انتخابات میں 35 پنکچر کیس ہارنے کے باوجود قومی اسمبلی کی نشست پر نئے عزم اور دلائل کے ساتھ براجمان رہے اور تقریریاتی کنٹینر بھی ساتھ میں رکھا۔

جعلی ڈگری سے یاد آیا کہ جب سنہ 2008 میں مظفر گڑھ سے رکنِ قومی اسمبلی بننے والے جمشید دستی کو جعلی ڈگری رکھنے کی پاداش میں نا اہل قرار دے کر نشست سے محروم کر دیا گیا تو ضمنی انتخاب میں وہ پہلے سے بھی زیادہ ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی موجودہ نو سالہ حکومت کے دوران جہاں بہت کچھ ہوا وہاں یہ بھی ہوا کہ ایک وزیرِ باتدبیر شرجیل انعام میمن جب اپنے خلاف بدعنوانی کے مقدمات سے گھبرا کر دوبئی ہجرت کر گئے تو وزارتی قلمدان بھی ساتھ لے گئے اور کئی ہفتوں بعد واپس کرنے پر رضامند ہوئے۔ پچھلے ماہ جب وہ اپنے خلاف 'جھوٹے مقدمات' کا سامنا کرنے کے لیے ہائی کورٹ کی پیشگی ضمانت سے مسلح ہو کر اسلام آباد اترے اور پھر فاتحانہ حیدر آباد لوٹے تو جیالوں نے صوبے کی تعمیر و ترقی کے لیے شرجیل میمن کی بے لوث خدمات پر گولڈن تاجپوشی کی۔ 

مگر ایسا نہیں کہ کوئی ضمیر کی آواز ہی نہیں سنتا۔ سنہ 1983 میں جب ضیا حکومت کے وزیرِ بلدیات سید فخر امام ضیا حکومت کے ہی ایک حامی یوسف رضا گیلانی سے ڈسٹرکٹ کونسل ملتان کی چیئر مین شپ کا انتخاب ہار گئے تو انھوں نے وفاقی وزارت سے استعفی دے دیا۔ فخر امام کے اس قدم کو سب ہی نے سراہا اور بعد ازاں غیر جماعتی قومی اسمبلی کے پہلے سپیکر منتخب ہوئے۔ اسی طرح اگست سنہ 2007 میں جنرل پرویز مشرف کی جانب سے یہ عندیہ ملنے پر کہ وہ دوسرا صدارتی انتخاب بھی وردی میں لڑیں گے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیرِ مملکت اسحاق خاکوانی نے اپنے ضمیر کی سنتے ہوئے وزارت سے استعفی دے دیا۔ عدلیہ میں ایسے کئی جج ہیں جنھوں نے ضیا الحق اور پرویز مشرف کے عبوری آئینی حکم ناموں کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا اور گھر بیٹھ گئے۔ مگر اب تک ایک ہی ایسی مثال سامنے آئی ہے کہ اعلیٰ عدالت کے کسی جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کرپشن کا ریفرنس دائر ہو اور وہ سماعت شروع ہونے سے پہلے ہی اپنا عہدہ چھوڑ دے۔

یہ واقعہ اس سال فروری میں پیش آیا جب لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مظہر اقبال سندھو نے سماعت کا سامنا کرنے سے پہلے ہی جج کی کرسی سے استعفی دے دیا۔ جہاں تک فوج کا معاملہ ہے تو میجر جنرل سکندر مرزا نے عہدہِ صدارت سے تب رضاکارانہ استعفی دیا جب جنرل ایوب خان کے ساتھی جنرلوں نے ان کے سامنے ایک ٹائپ شدہ کاغذ اور اس پر ایک پستول بھی بطور پیپر ویٹ رکھ دیا۔
ایوب خان نے بھی 25 مارچ 1969 کو عہدۂ صدارت رضاکارانہ طور پر چھوڑا جب ان کے سپہ سالار جنرل یحییٰ خان نے آہستگی سے کہا 'سر ہم آپ کو بہت مس کریں گے۔' انہی یحییٰ خان نے 20 دسمبر سنہ 1971 کو ملک ٹوٹنے کے چار دن بعد اپنی مرضی سے استعفی دیا کیونکہ انھیں بتا دیا گیا تھا کہ بطور صدر اپنی مرضی استعمال کرنے کا یہ آخری موقع ہے۔

18 اگست سنہ 2008 دو ہزار آٹھ کو جنرل پرویز مشرف نے بھی پارلیمنٹ کی جانب سے مواخذہ شروع ہونے سے پہلے پہلے رضاکارانہ طور پر استعفی دے دیا اور گارڈ آف آنر کا معائنہ کرنے کے بعد مطمئن رخصت ہوئے حالانکہ انھوں نے اپنے پیشرو رفیق تارڑ کو یہ اعزاز نہیں بخشا تھا۔ فوج میں صرف ایک مثال ایسی ہے جب بری فوج کے ایک سربراہ نے دھڑن تختہ کیے بغیر اپنے عہدے سے قبل از اختتامِ مدت استعفی دیا ہو۔ وہ تھے جنرل جہانگیر کرامت ۔ جب ان کی نواز شریف کی دوسری حکومت سے نہیں بنی تو پنجہ آزمائی کے بجائے کنارہ کش ہو گئے۔ اگر یہ واقعہ نہ ہوتا تو شاید 12 اکتوبر سنہ 1999 بھی نہ ہوتا۔

اگست سنہ 2008 دو ہزار آٹھ کو جنرل پرویز مشرف نے بھی پارلیمنٹ کی جانب سے مواخذہ شروع ہونے سے پہلے پہلے رضاکارانہ طور پر استعفی دے دیا
جہاں تک کرپشن کا معاملہ ہے تو فوج میں کسی نے ازخود استعفی نہیں دیا جب تک برطرف نہیں کیا گیا یا آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ نہیں چلا۔ بھلے وہ این ایل سی سکینڈل میں ماخوز لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل مظفر اور میجر جنرل خالد طاہر اختر ہوں یا ایف سی بلوچستان کے سابق کمانڈنٹ لیفٹیننٹ جنرل عبید اللہ خٹک، میجر جنرل اعجاز شاہد بریگیڈئیر اسد شہزاد، سیف اللہ، عامر اور کرنل حیدر ہوں یا پھر بحریہ کے سابق سربراہ ایڈ مرل منصور الحق ہوں جو گرفتاری کے بعد پلی بارگین کے تحت 7.5 ملین ڈالر نیب میں جمع کرا کے بری ہوئے۔

واپڈا اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل زاہد علی اکبر نے گذشتہ برس خود پاکستان آ کر پلی بارگین کے تحت کرپشن کا اعتراف کرتے ہوئے 200 ملین روپے واپس کر کے کلین چٹ حاصل کر لی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان جیسی ترقی پذیر جمہوریتوں میں گڈ گورننس ہر شخص اور ادارہ چاہتا ہے مگر ضمیر کی گورنننس کا عادی ہونے کی عادت پڑتے پڑتے ہی پڑے گی۔ تب تک اپنے علاوہ سب کا احتساب جاری رہے گا۔

وسعت اللہ خان
تجزیہ کار

Post a Comment

0 Comments