Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

بیسویں صدی کا اہم واقعہ اسپین کی خانہ جنگی

20ویں صدی میں ایک ایسی خانہ جنگی ہوئی جس کے نتیجے میں ایک آمر برسراقتدار آیا جو 36 سال تک حکومت کرتا رہا۔ یہ سپین کی خانہ جنگی تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اِس خانہ جنگی کے نتیجے میں قوم پرست برسرِ اقتدار آئے جن کی قیادت جنرل فرانکو کے ہاتھ میں تھی۔ لیکن یہ کس قسم کا قوم پرست تھا۔ جس نے جمہوریت کی بجائے آمریت کا پرچم اٹھایا ہوا تھا۔ قوم پرستوں کی لڑائی ری پبلکنز کے ساتھ ہوئی جو بائیں بازوں کی طرف جھکائو رکھتے تھے۔ عام طورپر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ جمہوریت اورفاشزم کے حامیوں کے درمیان لڑائی تھی جس میں قوم پرست ظفریاب ہوئے۔ یہ خانہ جنگی17جولائی 1936ء کو شروع ہوئی اور یکم اپریل1939ء کو ختم ہوئی۔ اُس وقت جرمنی میں اڈولف ہٹلر اور اٹلی میں مسولینی کی حکومت تھی۔

کہا جاتا ہے کہ اس خانہ جنگی میں جرمنی اور اٹلی نے سپین کے قوم پرستوں کی بھر پور مدد کی تھی۔ یہ جنگ سپین کی مسلح افواج کے جرنیلوں کے ایک گروپ نے شروع کی۔ ابتدائی طور پر اِس کی قیادت جوز سنجارو نے کی۔ یہ جنگ سکینڈ سپینش ری پبلک کی بائیں بازو کی منتخب حکومت کے خلاف تھی۔ اُس وقت اِس حکومت کی قیادت مینوئل اذاتا کر رہے تھے۔ قوم پرستوں کو کئی قدامت پسند گروپوں کی حمایت حاصل تھی۔ سنجارو کی جہاز کے ایک حادثے میں موت واقع ہو گئی جب وہ پرتگال سے جلاوطنی کے بعد واپس آ رہا تھا۔ اِس کے نتیجے میں فرانکو قوم پرستوں کا لیڈر بن کر ابھرا۔ اِس بغاوت کی پمپلونا‘ برگوو‘ زارا گوذا‘ وِلیڈ اولڈ‘ کاڈذ‘ کاردوبہ اور سیولی نے حمایت کی۔
یہاں فوجی اڈے قائم کیے گئے تھے۔ تاہم کچھ اہم شہروں میں جن میں میڈرڈ‘ بارسلونا‘ ویلسنویا اور بیائو میں قوم پرست اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہے اور یہ شہر بدستور حکومت کے کنٹرول میں رہے۔ اِس طرح سپین سیاسی اور فوجی لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ قوم پرست اور ری پبلکنز ملک پر کنٹرول کے لیے لڑتے رہے۔ قوم پرستوں کو نازی جرمنی اور فاشسٹ اٹلی کی طرف سے سپاہی اور اسلحہ ملتا رہا۔ دوسری طرف سوویت یونین اورسوشلسٹ میکسیکو نے ری پبلکنز کو امداد کی پیش کش کی۔ برطانیہ اور فرانس نے مداخلت نہیں کی اور خاموش رہے۔ قوم پرستوں نے جنوبی اور مغربی سپین میں اپنے ٹھکانوں سے پیش قدمی کی اور 1937میں سپین کے شمال میں ساحلی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ جنگ کے اختتام پر قوم پرست فاتح بن کے اُبھرے۔ اِس دوران کٹیالونیا کے کئی حصوں پر قوم پرست قابض ہو چکے تھے۔

سپین کے ہزاروں لوگ جن کا تعلق بائیں بازو سے تھا‘ جلا وطن ہو گئے۔ جن میں سے کئی ایک نے جنوبی فرانس میں مہاجر کیمپوں میں پناہ لے لی۔ شکست خوردہ ری پبلکنز کو فتح کے نشے میں چور قوم پرستوں نے انتقام کا نشانہ بنایا۔ جنگ کے بعد فرانکو کی آمریت قائم ہو گئی۔ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی تمام جماعتوں نے فرانکو حکومت کا ساتھ دیا۔ اِس خانہ جنگی میں قوم پرستوں کی مدد کے لیے 16 ہزارجرمن شہریوں نے حصہ لیا جن میں سے قریباً 360 کے قریب ہلاک ہوئے۔ جرمنی نے قوم پرستوں کو قریباً چار کروڑ30 لاکھ پونڈ کی امداد دی۔ ہٹلر کی حوصلہ افزائی کے بعد فرانکو کی درخواست پر مسولینی نے بھی اِس جنگ میں حصہ لیا۔ پرتگال نے بھی جی کھول کر قوم پرستوں کی مدد کی اور اُس نے فرانکو کی فوجوں کو گولہ بارود اور دوسرا جنگی سازو سامان بھیجا۔ برطانیہ کی قدامت پسند حکومت غیر جانبدار رہی لیکن قوم پرستوں کی حمایت پر لیبر پارٹی دو حِصوں میں تقسیم ہو گئی۔

کیتھولک فرقے کے لوگ قوم پرستوں کی حمایت کر رہے تھے۔ روس میں اُس وقت جوزف سٹالن حکومت کر رہا تھا۔ اگرچہ اُس نے عدم مداخلت کے سمجھوتے پر دستخط کیے تھے لیکن اس نے ری پبلکنز کی حمایت کی اور اس کی وجہ بھی عیاں تھی۔ ری پبلکنز کی جھکائو بائیں بازوں کی طرف تھا۔ اُس نے کئی جہاز ری پبلکنز کو دیے۔ اِس کے علاہ کئی سو ٹینک بھی دیے ۔ سٹالن کی حمایت کے باوجود ری پبلکنز کو معیاری اسلحے کی ترسیل مکمل طور پر جاری نہ رہ سکی۔ سوویت یونین نے 2000 کے قریب مشیر سپین بھیجے۔ اِس خانہ جنگی میں پانچ لاکھ افراد لقمہ اجل ہوئے۔ اِس خانہ جنگی کے اسباب کیا تھے؟ اِس کے لیے ہمیں 1931 کے انتخابات کی طرف جانا ہو گا۔1931ء میں سپین کے بادشاہ الفانسو نے انتخابات کرائے تا کہ یہ علم ہو سکے کہ سپین کا حکومتی نظام کیا ہونا چاہیے؟ ووٹروں کی بھاری تعداد نے ملوکیت کے خاتمے اورایک لبرل حکومت کے حق میں ووٹ دیا۔ الفانسو جلا وطن ہو گیا اوردرمیانے درجے پر مشتمل مڈل کلاس لبرل عناصر اور اعتدال پسند سوشلسٹوں نے حکومت قائم کر لی۔ 

ری پبلکنزکے پہلے دو سالوں میں لیبر اور بائیں بازو کے منظم انقلابیوں نے وسیع پیمانے پر اصلاحات کیں۔ کٹیالونیا کے آزاد خیال اورباسک صوبوں نے حقیقی خود مختار حاصل کر لی۔ چرچ اور ایک بڑے فوجی گروہ نے ری پبلکنز کی مخالفت کی اور1933 میں قدامت پسندوں نے انتخابات کے بعد دوبارہ حکومت کا انتظام سنبھال لیا۔ اِس کے جواب یں سوشلسٹوں نے کئی اضلاع میں انقلاب برپا کر دیا اور کٹیالون قوم پرستوں نے بارسلونا میں بغاوت کر دی۔ جنرل فرانکو نے قدامت پسند حکومت کی طرف سے نام نہاد انقلابِ اکتوبر کو کچل ڈالا۔ اُسے 1935ء میں آرمی چیف مقرر کر دیا گیا۔ فروری 1936ء میں ’’پاپولر فرنٹ‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔ یہ بائیں بازو کے لوگوں کا اتحاد تھا جو اقتدار میں آ گیا اور سخت ملوکیت کے حامی فرانکو کو افریقہ کے جزیروں میں بھیج دیا گیا۔

17 جولائی 1936ء کو سپین کی خانہ جنگی کا آغاز ہو گیا۔ فرانکو نے سپین کی فاشسٹ پارٹی کے زیر سایہ قوم پرستوں کو متحد کیا جبکہ ری پبلکنز کمیونسٹوں کے زیرِ اثر آ گئے۔ یہاں اِس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ جرمنی کی نازی پارٹی ایک طرف تو جرمن قوم پرستی کی علمبردار تھی لیکن دوسری طرف فسطائیت کی حامی تھی۔ ہٹلر کا عقیدہ تھا کہ آریہ نسل سب سے برتر ہے اور جرمن قوم عظیم ترین قوم ہے اوراِس کا لیڈر اڈولف ہٹلر سب سے بڑا لیڈر ہے۔ ہٹلرپوری دنیا کو فتح کرنے کا خواب دیکھ رہا تھا۔ یہی حال مسولینی کا تھا۔ حالانکہ مسولینی ایک زمانے میں سوشلسٹ تھا اور ایک سوشلسٹ اخبار کا ایڈیٹر بھی تھا۔ وہ اٹلی کے معروف سوشلسٹ لیڈر انتونیوگرامچی کا ساتھی بھی رہا تھا لیکن بعد میں اس کی کایا کلپ ہو گئی اور وہ فسطائی نظریات کا حامی ہو گیا ۔ فاشزم کے علمبردار ایک طرف جمہوریت کے مخالف ہوتے ہیں اور اُس کے ساتھ ساتھ یہ لوگ کمیونزم سے بھی نفرت کرتے ہیں۔ فاشزم میں عوام کو نہیں بلکہ خواص کو اہمیت دی جاتی ہے۔

 بہرحال نظریاتی تضادات اپنی جگہ قائم رہے۔ فرانکو بھی فاشزم سے متاثر تھا اور ہٹلر اورمسولینی اِس کے ہیرو تھے۔ ہم اپنے قارئین کو بتاتے چلیں کہ امریکی ناول نگار ارنسٹ ہیمینگوے نے 1940ء میں سپین کی خانہ جنگی پر ایک معرکتہ آلارا ناول بھی تحریر کیا تھا جس کی مقبولیت آج تک برقرار ہے۔ اِس ناول کا نام ہے’’فار ہُوم دی بیل ٹالز(For whom the bell tolls)۔ اِس ناول پر اِسی نام سے فلم بھی بنائی گئی۔ جو 1943ء میں ریلیز ہوئی۔ اِس فلم نے ریکارڈ بزنس کیا تھا۔ اس دور میں اِس کی کمائی 7.1 ملین ڈالر تھی اِس فلم کو نو اکیڈمی ایوارڈز کے لیے نامزد کیا گیا جبکہ اِس نے ایک اکیڈمی ایوارڈ جیتا۔ اِس فلم میں گیری کُوپر اور ان گرڈبر جمین نے یادگار اداکاری کی تھی۔ گیری کوپر نے اِس فلم میں ایک نوجوان امریکی رابرٹ جورڈن کا کردار ادا کیا تھا جو ری پبلکن گوریلا یونٹ کے ساتھ ہے اور جو فرانکو کی فوجوں کے خلاف لڑتا ہے، کیونکہ وہ فسطائیت کے خلاف ہے۔ ناول کی طرح یہ فلم بھی کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے۔  

عبدالحفیظ ظفر

 

Post a Comment

0 Comments