Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

کشمیر ڈائری : جسم میں چھرے، زندگی میں گہری مایوسی

’بہت مایوسی ہے، میرے دو بچے ہیں بیوی ہے، کمانے والا تو میں ہی تھا۔ جب
میں ہی بیمار پڑ گیا تو اب کیا کریں؟ مشکلیں بہت ہیں، اب بچوں کو دیکھ کر جی رہا ہوں ورنہ بہت پرابلم ہو رہی ہے۔‘ کریم آباد گاؤں کے 24 سالہ منظور احمد ان ہزاروں لوگوں میں شامل ہیں جنھیں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں گذشتہ مہینوں کی شورش کے دوران پیلیٹس (چھرے) لگے ہیں۔ منظور احمد کے پیٹ میں گولی بھی لگی تھی جسے آپریشن کے بعد نکال دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے سارے جسم اور آنکھ میں بھی چھرے لگے تھے۔

دھیرے دھیرے بولتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ ’آپریشن کو تقریبآ دو مہینے ہو چکے ہیں مگر اب بھی میں کام نہیں کر پا رہا ہوں۔ چلنے میں بہت زیادہ دقت ہو رہی ہے۔ اب آگے دیکھیے خدا کیا کرے گا۔‘ کریم آباد گاؤں کو جنوبی کشمیر کا ایک حساس گاؤں تصور کیا جاتا ہے۔ جولائی میں شدت پسند تنظیم حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد ہونے والے مظاہروں اور احتجاج میں اس گاؤں کے دو سو ‎سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ان میں بہت سے نوجوانوں کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدل گئی ہے۔ عباس انصاری 12 ویں درجے کے طالب علم ہیں۔ ان کی بھی آنکھ میں چھرے لگے ہیں جس کے بعد ان کی پڑھائی رک گئی ہے۔
’میری زندگی پر بہت برا اثر پڑا ہے۔ میں کچھ کام نہیں کر سکتا، اس سال امتحان نہیں دیا، اب گھر میں بیٹھا رہتا ہوں۔‘ چھروں سے ہزاروں لوگ زخمی ہوئے ان میں بہت سے سکول کے طالب علم تھے جو مظاہروں اور احتجاجوں کے دوران فائرنگ کی زد میں آئے۔ عباس کی طرح آصف ریاض بھٹ بھی 12 ویں جماعت کے طالب علم ہیں۔ ان کی آنکھوں میں بھی چھرے لگے ہیں جس کے بعد اب وہ ایک موٹا چشمہ لگاتے ہیں اور بہت سنبھل کر چلتے ہیں۔ ’پہلے میں کرکٹ کھیلتا تھا، فٹ بال کھیلتا تھا، گاڑی چلاتا تھا پر اب شام کے وقت کچھ دکھائی نہیں دیتا اور صبح کے وقت بھی بہت کم دکھائی دیتا ہے۔ دوسروں کی مدد لینا پڑتی ہے۔‘

آصف بہت سنبھل کر بولتے ہیں۔ ان کے ساتھی بتاتے ہیں کہ پہلے وہ بہت تیز اور پھرتیلا لڑکا تھا لیکن اب سب کچھ بدل چکا ہے۔ جنوبی کشمیر کے اس گاؤں میں ہر طرف مایوسی پھیلی ہوئی ہے۔ غلام رسول پنڈت اسی گاؤں کے باشندے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس گاؤں کا ہر گھر متاثرہ ہے۔ بہت سے لڑکے جیلوں میں بند ہیں۔
’اس گاؤں کے بہت سے لڑکے پہلے شہید ہو چکے ہیں۔ ان کے گھر والے بھی دکھی ہیں۔‘ غلام رسول کا ایک نوجوان بیٹا چند مہینے قبل سکیورٹی فورسز سے تصادم میں مارا گیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’انڈیا کی حکومت مخلص نہیں ہے۔ کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اسے حل کرنا چاہیے۔‘ پانچ مہینے بعد کشمیر میں زندگی رفتہ رفتہ معمول پر آ نے لگی ہے لیکن جن لوگوں کو چھرے لگے ہیں اور جو مستقل طور پر معزور ہو گئے ہیں ان کی زندگی اب ہمیشہ کے لیے بدل چکی ہے۔

شکیل اختر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پلوامہ

Post a Comment

0 Comments