Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

پارلیمنٹ بھی تو گڑ کھانا چھوڑے

پاکستان میں جو بھی شخص ذرا سا بھی اہم ہے وہ یہ یاد دلانا نہیں بھولتا کہ جب تک ادارے مستحکم نہیں ہوں گے اور اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام نہیں کریں گے تب تک نہ جمہوری روایات مضبوط ہو پائیں گی، نہ ہی گڈ گورننس کا خواب پورا ہوگا۔ یہ بات اتنی بار دھرائی جا چکی ہے کہ اب تو اپنی وقعت کھو کے کلیشے کی حد میں داخل ہو چکی ہے۔
مگر یہ کوئی نہیں بتاتا کہ پہل کون کرے گا ؟ 
مثلاً یہ سنتے سنتے کان پک چکے کہ پارلیمنٹ سب سے بالا آئینی ادارہ اور جمہوری طاقت و اختیار کا سرچشمہ ہے۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ تمام حقیقی فیصلے پارلیمنٹ کے اندر ہوں۔ پارلیمنٹ نہ صرف عوام دوست قانون سازی کرے بلکہ دیگر آئینی اداروں کی رہنمائی کرے اور ان کی کار کردگی پر بھی نگاہ رکھے۔
مگر کتنے پارلیمنٹیریئن یہ دکھڑا رونے کے سوا کچھ اور کر رہے ہیں کہ پارلیمنٹ کی کوئی نہیں سنتا ؟
اہم معاملات پر بحث کے دوران ایوان کی آدھی سیٹیں کیوں خالی رہتی ہیں؟ 50 فیصد پارلیمنٹیریئنز ایسے کیوں ہیں جنھوں نے پچھلے ڈھائی برس میں صرف ڈیسک بجانے کا کام کیا ہے۔ آج تک کھڑے ہو کر نہ کوئی سوال پوچھا اور نہ کسی بحث کے دوران اپنی رائے مربوط انداز میں ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ بیک بنچرز ہونے کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ مباحث پر دھیان دینے کے بجائے ایک دوسرے سے نجی گفتگو کرتے رہیں، وٹس ایپ اور ٹویٹس میں گم رہیں یا پھر کبھی کبھار ایک آدھ جملہ اچھال کر یہ جتانے کی کوشش کریں کہ میں بھی یہاں موجود ہوں۔ ایک پارلیمینٹیریئن کو تو کسی اچھے وکیل سے بھی زیادہ مصروف ہونا چاہیے۔ اگلے دن کے مباحثے کی تیاری میں، کارروائی کے دوران نوٹس لینے میں اور ہر مسودہِ قانون کی ایک ایک شق پڑھنے اور سمجھنے میں اور پھر اس مسودے پر اپنا نقطۂ نظر بیان کرنے میں۔

مگر کیا یہ سب ہمارے ہاں ہوتا ہے اور کتنا ہوتا ہے؟

پارلیمنٹ میں بہت سی سٹینڈنگ کمیٹیاں بھی بنائی جاتی ہیں۔ ان میں سے کچھ کمیٹیوں کی کارکردگی یقیناً بہت بہتر ہے لیکن بیشتر کا مصرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی رکنیت انفرادی پارلیمانی بائیو ڈیٹا میں مور کے ایک اضافی پر کے طور پر کام آئے۔ پارلیمنٹ ہاؤس میں لائبریری نام کی بھی ایک شے پائی جاتی ہے۔ ذرا اس کا انٹری رجسٹر ہی اٹھا کے دیکھ لیں۔ آپ کو لگ پتہ جائے گا کہ صرف پانچ چھ پارلیمینٹریئنز لائبریری سے مستقل استفادہ کیوں کرتے ہیں اور باقی کیفے ٹیریا، پارلیمنٹ لاجز یا اپنے اسلام آبادی اوطاقوں میں سوائے گفتگو کرنے اور سننے کے اور کیا کرتے ہیں؟

انھوں نے آخری کتاب کب اور کون سی پڑھی تھی؟ کس دن اپنی خبر کے علاوہ باقی اخبار بھی پورا پڑھا تھا؟ کتنے پارلیمنٹیریئنز ہیں جن کے نام سے کبھی کسی اخبار یا رسالے میں مضمون یا تجزیہ شائع ہوا؟ کتنے پارلیمنٹیریئنز ہوں گے جنھوں نے اپنی عوامی یا پارلیمانی تقریر کے نوٹس اپنے ہاتھوں سے تیار کیے ہوں؟ کتنے پارلیمنٹیریئنز ہیں جو ٹی وی چینلز کے مباحثوں یا پریس کانفرنسوں کی آرام دہ عادت کے مدار سے باہر نکل کے یا اپنے حلقے میں کسی نئی پکی گلی کے سنگِ افتتاح کی نقاب کشائی کے موقع پر جمع ہونے والے مجمع پر ترقیاتی احسان جتانے کے علاوہ کسی تھنک ٹینک، یونیورسٹی کے فورم یا کسی مقامی و بین الاقوامی سیمینار میں شرکت کرنے اور کسی نئی بات یا آئیڈیے سے مسلح خطاب کے لیے بھی بےتاب رہتے ہوں؟

حزبِ اختلاف کسی بھی پارلیمنٹ کے جسم میں رواں خون جیسی ہوتی ہے۔ اگر حزبِ اقتدار عوامی اہمیت کے کسی معاملے کو نظرانداز کرنے کی کوشش کرے بھی تو ایک زندہ، آگاہ اور دلائل سے مسلح حزبِ اختلاف مسئلے کو ہزار واٹ کے بلب کی طرح روشن رکھتی ہے۔ ایک فعال حزبِ اختلاف پارلیمنٹ کا انجن ہوتی ہے۔ ایسا انجن جو صرف شور ہی نہیں مچاتا بلکہ پارلیمانی جہاز کو آگے بھی بڑھاتا ہے۔ مگر عملی تصویر یہ ابھر رہی ہے گویا حزبِ اختلاف محض اختلاف کرنے اور فقرے بازی کے مقابلے میں حصہ لینے کا نام ہے۔ اچھی جمہوریتوں میں حزبِ اختلاف پارلیمنٹ کی غیر رسمی کسٹوڈین ہوتی ہے لیکن یہاں تو حزبِ اختلاف کے ہی کچھ دوست یہ کہنے سے بھی نہیں چوکتے کہ پارلیمنٹ میں جانے کا مطلب محض وقت ضائع کرنا ہے۔

اگر واقعی ایسا ہی ہے تو پھر انھوں نے منتخب ہو کر عوام کا ووٹ ضائع کرنا کیوں پسند کیا؟ انھیں یہ اعلان کرنے سے کس نے روکا ہے کہ چونکہ میں پارلیمانی کارروائی میں حصہ لینے کو تضیحِ اوقات سمجھتا ہوں لہذا رضاکارانہ طور پر بطور پارلیمنٹیریئن اپنی تنخواہ اور مراعات سے بھی دستبردار ہو رہا ہوں۔
اگر پارلیمنٹ کے ہوتے ہوئے معاملات جلسوں، ناکہ بندیوں، دھرنوں اور ایک دوسرے کو عدالتوں میں گھسیٹنے اور پارلیمانی ڈبیٹ کے بجائے بازاری گفتگو سے ہی طے ہونے ہیں تو پھر پارلیمنٹ نام کے سب سے مہنگے ڈبیٹنگ کلب کو جمنازیم، سپیشل بچوں کے سکول، کمیونٹی ہال یا ایک جدید ہسپتال میں بدلنے کا نیک کام کیوں نہ کیا جائے۔ کم ازکم کسی ایک مستحق طبقے کو تو کوئی فائدہ پہنچے۔ پارلیمنٹ کو یقیناً دیگر اداروں کی کارکردگی پر نظر رکھنے کا پورا پورا آئینی استحقاق ہے، مگر دوسروں کا گڑ چھڑوانے سے پہلے خود تو گڑ کھانا چھوڑیے۔

وسعت اللہ خان
تجزیہ کار

Post a Comment

0 Comments