Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

سوویت یونین راتوں رات کیوں بکھر گیا ؟

15 مختلف جمہوریتوں پر مشتمل سوویت یونین راتوں رات ٹوٹ گیا تھا اور یہ
بکھراؤ اتنا بڑا تھا کہ 25 برسوں کے بعد آج بھی اس کے جھٹکے محسوس کیے جا رہے ہیں۔ 20 ویں صدی میں تاریخ، معیشت، نظریات اور ٹیکنالوجی کو متاثر کرنے والا سوویت یونین جس طرح سے اچانک ایک رات میں ہی ٹکڑے ٹکڑے ہوا، یہ غور طلب ہے۔ سنہ 1917 میں کمیونسٹ انقلاب سے پیدا ہونے والے سوویت یونین میں کم از کم 100 قومیتوں کے لوگ رہتے تھے اور ان کے پاس زمین کا چھٹا حصہ تھا۔ ایک ایسی سلطنت جس نے ہٹلر کو شکست دی، جو امریکہ کے ساتھ سرد جنگ میں مبتلا رہا اور جوہری طاقت کی دوڑ میں بھی شامل رہا۔

اس نے ویتنام اور کیوبا کے انقلابات میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ سویت یونین نے ہی خلا میں پہلا سیٹلائٹ بھیجا اور پہلا انسان بھی۔ ایک وقت تھا کہ جب سوویت یونین کھیل، رقص، فلم، ادب، فنون لطیفہ اور سائنس کے میدان میں بھی آگے آگے تھا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر اور سوویت پالیسیوں کے ماہر آرچی براؤن کہتے ہیں: 'جس تیزی سے سوویت یونین ٹوٹا، وہ بھی ایک ہی رات میں، وہ سبھی کے لیے حیران کن تھا۔' براؤن سمیت کئی دیگر ماہرین سوویت یونین کے ٹوٹنے کی کئی وجوہات بیان کرتے ہیں۔ یہ 1991 میں کرسمس کی رات ہوا تھا۔

1۔ آمریت
سوویت یونین کا وجود سنہ 1917 میں بالشویک انقلاب کے ذریعے ہوا تھا۔ اور زار نکولس دوم کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے بعد روسی سلطنت کو ختم کر دیا گیا تھا۔ سنہ 1922 میں لینن کی قیادت میں دور دراز کی ریاستوں کو روس میں شامل کیا گیا اور سرکاری طور پر يو ایس ایس آر کا قیام ہوا۔ اس کے سربراہ تھے ولادی میر لینن۔ ظاہر تھا کہ ایسے پیچیدہ اور متنوع ملک پر کنٹرول حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ زار کی آمریت سے الگ ہو کر سوویت یونین نے جمہوریت بننے کی کوشش کی لیکن آخر میں آمریت ہی قائم ہوئی جس میں سب سے اہم آمر سٹالن تھے۔ کچھ وقت کے بعد پارلیمان کا قیام بھی عمل میں آيا جسے سپریمو سوویت کہا گیا لیکن سارے فیصلے کمیونسٹ پارٹی ہی کرتی تھی۔ ملک کے اہم انتخاب سے لے کر حکومت کا ہر فیصلہ پارٹی کی ایک چھوٹی سی کمیٹی کرتی تھی، جسے پولٹ بیورو کہا جاتا تھا۔ سٹالن کے وقت سے ہی سیاست، معیشت اور عام زندگی پر پارٹی کا کنٹرول ہوتا چلا گیا۔ مخالفین کو گلگ بھیجا جانے لگا۔ گلگ وہی مقام ہے جہاں لوگوں کو اذیتیں دی جاتیں تھیں وہاں لاکھوں لوگ مارے گئے۔

2۔ سخت ترین نوکر شاہی
آمریت اور سینٹرل حکومت کی وجہ سے سوویت یونین میں ایک جامع بیور و کریسی بھی وجود میں آئی جس کا کنٹرول معاشرے کے ہر کونے میں بڑھتا چلا گیا۔ یعنی کہ آپ کو ہر چیز کے لیے کاغذ، سٹامپ اور شناخت کے عمل سے گزرنا ہوتا تھا۔ آکسفورڈ کے پروفیسر آرچی براؤن کہتے ہیں اس بیوروکریسی نے ہی سوویت یونین کو ایک مشکل ملک بنا دیا تھا۔

3۔ ناکام معیشت
سوویت یونین کی معیشت کارل مارکس کے معاشی اصولوں پر مبنی تھی۔ یہ اقتصادی نظام پنج سالہ منصوبوں کی بنیاد پر نافذ کیے جاتے تھے۔ سوویت یونین کی زیادہ تر آبادی کو صنعت اور زراعت کے کام میں لگایا گیا تھا۔ اور 1980 کی دہائی میں سوویت یونین کا جی ڈی پی، امریکہ سے نصف رہ گیا۔

4۔ بہترین تعلیم و تربیت
سوویت یونین میں تعلیم و تربیت کا نظام بہت اچھا تھا اور لاکھوں لوگ تعلیم یافتہ ہوئے۔ آہستہ آہستہ باہر سے وابستگی پر لگنے والی پابندیاں کم ہونے لگی اور لوگوں کی دنیا کے بارے میں معلومات بڑھنے لگی۔ آہستہ آہستہ یہ ہوا کہ پڑھے لکھے لوگوں کے سماجی گروپ بننے لگے جو وقت کے ساتھ ہی متاثر کن ہوتے چلے گئے۔ وہ گورباچوف کی ان اقتصادی اصلاحات کے حامی ہوتے گئے جن کا اعلان نوے کے عشرے میں کیا گيا تھا۔

گوربا چیف 
براؤن کے مطابق گرچہ سوویت یونین کی ٹوٹنے بہت سی وجوہات تھیں لیکن اس کی سب سے اہم وجہ گورباچوف خود تھے۔ ان کا اقتدار میں آنا ہی بڑی بات تھی۔ وہ اقتدار میں آئے تھے سوویت نظام کو تبدیل کرنے کے لیے یعنی وہ اپنی ہی قبر کھودنے کا کام کرنے والے تھے۔ 1985 میں وہ کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سکریٹری بنے تو معیشت کا حال بہت برا تھا اور انھیں ایک غیر فعال سیاسی ڈھانچہ ملا تھا اس لیے انھوں نے ایک بہتر پروگرام شروع کیا۔ انھوں نے پیریستروكا (کم حکومتی کنٹرول) اور گلاسنوست نام کی دو پالیسیاں شروع کیں۔
گورباچوف کو لگا کہ اس سے نجی سیکٹر کو فائدہ ہو گا۔ اس سے سرمایہ کاری میں اضافہ ہو گا اور آگے چل کر غیر ملکی سرمایہ کاری بھی سوویت یونین میں آئے گی۔

انھوں نے مزدوروں کو ہڑتال کرنے کا حق دیا تا کہ وہ بہتر تنخواہ اور کام کرنے کی اچھی حالت کا مطالبہ کر سکیں۔ گلاسنوست کے تحت حکومت میں کھلے پن اور شفافیت کو اپنانے کی کوشش کی گئی۔ سولجینتسن اور جارج ارویل جیسے مصنفین کی کتابوں پر عائد پابندیاں ہٹا لی گئیں۔ سیاسی قیدیوں کو رہا کیا گیا اور پریس کو حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنے کی بھی حوصلہ افزائی کی گئی۔ پہلی بار انتخابات کی کوشش ہوئی اور اس میں کمیونسٹ پارٹی شامل ہوئی۔ 

اُس کا نتیجہ یہ نکلا کہ زیادہ راشن خریدنے کے لیے لوگوں کی قطاریں لگ گئیں۔ قیمتیں بڑھنے لگیں اور لوگ گورباچوف کی حکمرانی سے پریشان ہونے لگے۔ اسی سال 25 دسمبر کی رات گوربا چوف نے استعفیٰ دیا اور اگلے دن اس دستاویز پر دستخط کر دیے گئے جس کے تحت سوویت یونین کی تمام ریاستیں الگ الگ ہوگئیں۔ آرچی براؤن کہتے ہیں: 'یہ ایسے نہیں ہوا کہ اقتصادی اور سیاسی بحران کی وجہ سے لبرل ازم آ گيا اور جمہوریت کا آغاز ہوا۔' ان کے مطابق یہ سب کچھ الٹا تھا۔ لبرلایئزیشن اور جمہوریت کے اہتمام کی وجہ سے بحران شروع ہوا اور سوویت یونین ٹوٹ گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر گورباچوف اقتصادی اصلاح لانے کی کوشش نہ کرتے تو شاید آج بھی سوویت یونین کا وجود ہوتا۔

Post a Comment

0 Comments