Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

میخائل گورباچوف : جنھوں نے ایک سلطنت کھو دی

سابق سوویت رہنما میخائل گورباچوف نے مغرب پر 'روس کو اشتعال دلانے' کا الزام عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ سنہ 1991 سوویت یونین میں 'دھوکہ بازی' کی وجہ سے ٹوٹا تھا۔ ان خیالات کا اظہار سوویت یونین کے بکھرنے کے 25 سال بعد ماسکو میں بی بی سی کے سٹیو روزنبرگ کے ساتھ انٹرویو میں کیا۔
85 سالہ میخائل گورباچوف خاصے عرصے سے علیل ہیں تاہم ان کی حس مزاح اب بھی جوان ہے۔ جب ہماری ملاقات ہوئی تو انھوں نے اپنی چھڑی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا 'دیکھو، اب مجھے زمین پر چلنے کے لیے تین ٹانگوں کی ضرورت پڑتی ہے۔' میخائل گوباچوف نے اس لمحے کے بارے میں بات کرنے کی ہامی بھری جس نے دنیا تبدیل کر دی، وہ دن جب سپر پاور سوویت یونین بکھر گیا۔ انھوں نے بتایا:'جو کچھ بھی سوویت یونین میں ہوا وہ میرا ڈراما تھا، اور یہ ڈراما ان سب کے لیے تھا جو سوویت یونین میں رہتے تھے۔'

 21 دسمبر 1991 کو روسی ٹی وی پر خبریں ایک ڈرامائی اعلان کے ساتھ شروع ہوئیں: 'صبح بخیر۔ خبریں‌۔ سوویت یونین اب وجود نہیں رکھتا۔' اس سے کچھ دن قبل روس، بیلاروس اور یوکرین کے رہنماؤں نے سوویت یونین کو تحلیل کرنے اور آزاد ریاستوں کے کامن ویلتھ فورم کے قیام کے لیے ملاقات کی تھی۔ اب مزید آٹھ سوویت ریاستوں نے اس میں شمولیت کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ان تمام نے میخائل گورباچوف کے خلاف مزاحمت کی۔ سوویت رہنما ان تمام ریاستوں کو واحد ریاست کے طور پر یکجا رکھنے میں مشکلات کا سامنا کر رہے تھے۔ گورباچوف نے بتایا: 'ہمارے پیچھے دھوکہ بازی تھی۔ وہ ایک سگریٹ جلانے کے لیے پورا گھر جلا رہے تھے۔ صرف طاقت کے حصول کے لیے۔ وہ جمہوری طریقے سے یہ حاصل نہیں کر سکتے تھے، چنانچہ انھوں نے جرم کیا۔ یہ بغاوت تھی۔' 25 دسمبر 1991 کو میخائل گورباچوف نے سوویت یونین کے صدر کے طور استعفے کا اعلان کر دیا۔ کریملن میں آخری بار سوویت پرچم اتارا گیا۔
گورباچوف یاد کرتے ہیں کہ 'ہم سب خانہ جنگی کی جانب بڑھ رہے تھے اور میں اس سے اجتناب کرنا چاہتا تھا۔ 'معاشرے میں تقسیم اور ملک میں لڑائی سے، جیسا کہ ہمارے ملک میں تھی، ہتھیاروں، بشمول جوہری ہتھیاروں کی ریل پیل سے بہت سارے لوگ مر سکتے تھے اور بربادی ہو سکتی تھی۔ میں صرف اقتدار سے چپکے رہنے کے لیے ایسا نہیں کر سکتا تھا۔ مستعفی ہونا میری کامیابی تھی۔' اپنے الوداعی خطاب میں گورباچوف نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے سماجی نظام میں اصلاحات کے پروگرام کے نتیجے میں معاشرے نے 'آزادی حاصل کر لی ہے۔' 25 سال بعد میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آج روس میں اس آزادی کو خطرہ لاحق ہے؟

انھوں نے جواب دیا: 'یہ عمل ابھی مکمل نہیں ہوا۔ ہمیں اس کے بارے میں کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک آزادی تکلیف دہ عمل ہے۔ وہ اس کو اچھا نہیں سمجھتے۔'
میں نے پوچھا: 'آپ کا مطلب ہے ولادی میر پوتن؟'
جس کے جواب میں گورباچوف نے کہا کہ 'آپ کو اس کا اندازہ خود لگانا ہو گا کہ میرا مطلب کیا ہے۔ اس سوال کا جواب میں آپ پر چھوڑ دیتا ہوں۔' بات چیت کے دوران میخائل گورباچوف نے ولادی میر پوتن کو براہ راست تنقید کا نشانہ بنانے سے گریز کیا تاہم اس حوالے سے کئی اشارے دیے کہ ان کے اور صدر پوتن کے درمیان تضادات موجود ہیں۔
'کیا پوتن نے کبھی آپ سے مشاورت کی؟' میں نے پوچھا۔
گورباچوف نے کہا کہ 'وہ پہلے سے ہی سب کچھ جانتے ہیں۔ ہر کوئی اپنے انداز میں کام کرنا چاہتا ہے۔‘

 سابق سوویت رہنما جدید روس کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ 'بیوروکریٹوں نے قومی دولت چوری کی اور کارپوریشنیں بنانا شروع کر دی ہیں۔' وہ مغرب کو 'روس کو اشتعال دلانے' کا الزام بھی عائد کرتے ہیں۔ 'مجھے یقین ہے کہ مغربی پریس۔۔۔ جس میں آپ بھی شامل ہیں۔۔۔ کو پوتن کو بدنام کرنے اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی خاص ہدایات کی جاتی ہیں۔ مادی طور پر نہیں۔ صرف اس لیے وہ ایک طرف ہو جائیں۔ لیکن اس کے جواب میں ان کی مقبولیت 86 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ جلد ہی یہ 120 فیصد ہوجائے گی۔'

گورباچوف کا نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں کہنا تھا کہ 'میں نے ان کی بلند و بالا عمارتیں دیکھی ہیں لیکن مجھے ان سے ملاقات کا موقع نہیں ملا۔ چنانچہ میں ان کے خیالات اور پالیسیوں کو پرکھ نہیں سکتا۔' ان کا کہنا تھا کہ 'لیکن یہ دلچسپ صورت حال ہے۔ روس میں ہر کسی کے خیال میں ڈیموکریٹس جیت سکتے تھے، میرا بھی یہی خیال تھا اگرچہ میں نے ایسا کہا نہیں تھا۔'
مغرب میں بہت سارے لوگ میخائل گورباچوف کو ایک ہیرو کے طور پر دیکھتے ہیں، ایک ایسا شخص جس نے مشرقی یورپ کو آزادی دی اور جرمنی کو دوبارہ متحد کیا۔ لیکن ان کے ملک میں بہت سارے لوگ گورباچوف کو ایک ایسا رہنما سمجھتے ہیں جنھوں نے ایک سلطنت کھو دی۔‘

میں نے ان سے پوچھا: 'کیا آپ سوویت یونین کے زوال کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں؟' وہ کہتے ہیں: 'مجھے یہ امر پریشان کرتا ہے کہ روس میں لوگ نہیں سمجھتے کہ مجھے کیا حاصل کرنا تھا اور میں نے دراصل کیا حاصل کیا۔'
'ملک کے لیے، اور دنیا کے لیے، سماجی نظام نے تعاون اور امن کی راہیں کھولی تھیں۔ مجھے افسوس ہے کہ اس کو اختتام تک نہیں دیکھ سکا۔' انٹرویو کے اختتام پر میخائل گورباچوف اور میں ان کے پیانو کی طرف بڑھے۔ میں نے پیانو بجایا اور گورباچوف نے اپنے چند پسندیدہ سوویت گیت گائے۔

Post a Comment

0 Comments