Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

امریکی صدارتی انتخاب : پاکستان کا درد آشنا کون؟

دنیا بھر کی طرح پاکستانیوں کو بھی امریکی صدارتی انتخاب میں گہری دلچسپی ہے اور وہ ڈونلڈ ٹرمپ یا ہلیری کلنٹن کے نت نئے تنازعات اور سکینڈلوں سے اپنے آپ کو نہ صرف باخبر رکھتے ہیں بلکہ محفلوں میں اس پر زوردار بحث و مباحثہ بھی ہوتا رہتا ہے۔ اس دوران ایک سوال جو بار بار گردش کرتا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کے حق میں کون سا امیدوار بہتر ثابت ہو گا، ٹرمپ یا کلنٹن؟
امریکہ اور پاکستان کے تعلقات ازل سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہتے ہیں اور اس وقت یہ خاص طور پر اتار کا شکار ہیں۔ اس بات کا اندازہ ایسے لگایا جا سکتا ہے کہ اس سال اپریل میں امریکہ نے پاکستان کو رعایتی نرخوں پر ایف 16 طیاروں کی مد میں امداد دینے سے انکار کیا۔
اس کے علاوہ امریکہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے معاملے پر بھی سیخ پا ہے جبکہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کے سلسلے میں’ڈُو مور‘ کا دائمی مطالبہ بھی بیچ میں حائل ہوتا رہتا ہے۔ مگر ان پرانی رنجشوں کے ساتھ ساتھ گذشتہ چند سالوں میں امریکہ کی جانب سے جنوبی ایشیائی پالیسی میں ایک بنیادی تبدیلی بھی دیکھی گئی ہے۔ چاہے چین کا مقابلہ کرنے کے لیے یا پھر انڈین منڈیوں تک رسائی کے لیے، جس بھی وجہ سے امریکہ نے اپنی پالیسی تبدیلی کی ہو، یہ بات واضح ہے کہ امریکہ اور انڈیا کے روابط میں واضح بہتری آ رہی ہے۔ پاکستان اسے امریکہ کا سٹریٹیجگ شفٹ سمجھے یا بے وفائی، امریکہ اور پاکستان کے تعلقات ایک سرد دور سے گزر رہے ہیں۔ واشنگٹن میں مقیم سینیئر صحافی اور تجزیہ کار واجد علی سید کہتے ہیں کہ اس وقت امریکہ میں مجموعی فضا پاکستان کے لیے ناسازگار ہے اور ان حالات میں ’پاکستانی سفارت خانے بلکہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ تک کو سمجھ نہیں آ رہی کہ امریکی حکام کو کیسے قائل کیا جائے کہ ہم ابھی تک آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘ انتخابات کے بعد کی صورتِ حال پر واجد کا کہنا ہے امریکی خارجہ پالیسی بڑی حد تک غیرجماعتی ہوتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اقتدار میں چاہے جو بھی آئے، اس کا اثر پاکستان امریکہ تعلقات پر کم ہی پڑے گا۔

صدارتی انتخابات کی گہما گہمی میں جو بات پس منظر میں چلی گئی ہے وہ یہ ہے کہ آٹھ نومبر ہی کو کانگریس کے انتخابات بھی منعقد کیے جائیں گے جن میں ایوانِ نمائندگان کی تمام نشستوں اور سینیٹ کے سو میں سے 34 ارکان کا انتخاب ہو گا۔ واجد علی سید نے اس طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ یہ دیکھنا بھی اہم ہے کہ کانگریس کے انتخابات میں کس جماعت کو اکثریت ملتی ہے۔ اگر ہلیری کلنٹن صدارتی انتخاب جیت جاتی ہیں جب کہ دوسری طرف ’کانگریس میں رپبلکن پارٹی اپنی برتری برقرار رکھتی ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ ہلیری کو دو سال، ڈھائی سال تک چلنے دیں گے؟ کیا وہ ایک جج کو بھی فائز کر سکیں گی؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کے خلاف کیس شروع کر دیے جائیں؟ اگر ایسا ہوا تو کلنٹن صدر ہونے کے باوجود بھی بےبس رہیں گی۔‘

یہ بات قابلِ غور ہے کہ اس وقت امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں میں رپبلکن پارٹی کی اکثریت ہے، اور ایوانِ نمائندگان ہی تمام امدادی رقوم کی منظوری دیتا ہے۔ پاکستان میں اکثر لوگ ٹرمپ کے ایسے بیانات کی وجہ سے ان کے ہارنے کی امید لگائے بیٹھے ہیں جنھیں بڑے پیمانے پر مسلم دشمن اور متعصبانہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن کیا کلنٹن پاکستان کی دوست ثابت ہوں گی؟ اکتوبر میں ہلیری کلنٹن نے ایک فنڈ ریزر میں بات کرتے ہوئے پاکستان کے حوالے سے کہا تھا کہ پاکستان ٹیکٹیکل ایٹمی میزائل بنا رہا ہے جو انتہائی خطرناک بات ہے۔ ’پاکستان بھرپور رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے اور اس نے بھارت کے ساتھ کشیدگی جاری رکھی ہوئی ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں ڈر ہے کہ جہادی اس اسلحے پر قبضہ کر لیں گے اور اس طرح سے ایٹمی خودکش حملہ آور وجود میں آ سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ خطرناک صورتِ حال کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ کو اس صورتِ حال کو روبہ عمل ہونے سے روکنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرنا ہو گا۔‘ ظاہر ہے کہ اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ اگر کلنٹن صدر بن جاتی ہیں تو پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر دباؤ بڑھ جائے گا۔ ان حالات میں آٹھ نومبر کو چاہے کلنٹن جیتیں یا ٹرمپ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور امریکی خارجہ پالیسی جوں کی توں رہے گی۔ دوسری جانب ٹرمپ نے گذشتہ ماہ کی 15 تاریخ کو ریاست نیو جرسی میں رپبلکن ہندو کولیشن کے زیرِ اہتمام منعقد کی جانے والی ایک ریلی میں پانچ ہزار کے مجمعے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم انڈیا کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے اور آپس میں خفیہ معلومات کا تبادلہ کر کے اپنے عوام کو محفوظ رکھیں گے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’میں اقتدار میں آنے کے بعد انڈیا کے ساتھ سفارتی اور فوجی تعلقات کو مزید تقویت دوں گا۔‘

ٹرمپ کو انڈین نژاد امریکیوں کے ووٹ حاصل کرنے میں اس قدر دلچسپی ہے کہ انھوں نے ایک اشتہار بھی جاری کیا ہے جس میں انھیں ہندی زبان میں ’اب کی بار، ٹرمپ سرکار‘ کہتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انڈیا کے مندروں میں ٹرمپ کی کامیابی کی دعائیں مانگی جاتی ہیں اور وہاں کی کٹر مذہبی تنظیموں کو امید ہے کہ ٹرمپ اقتدار میں آنے کے بعد اسلامی شدت پسندی کو شکست دینے میں زیادہ اہم کردار ادا کریں گے۔ ان حالات میں آٹھ نومبر کو چاہے کلنٹن جیتیں یا ٹرمپ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور امریکی خارجہ پالیسی جوں کی توں رہے گی۔ یہی بات آج سے کئی سال قبل اردو کے معروف شاعر انور شعور کر چکے ہیں جب انھوں نے 1992 میں بل کلنٹن، بش سینیئر اور آزاد امیدوار راس پیرو کے انتخابی معرکے کے بارے میں کہا تھا:

اول و آخر ہے امریکہ ہی تینوں کے لیے
ایک اظہارِ حقیقت ہے یہ بدگوئی نہیں
آپ کا دوست، آپ کا یار، آپ کا دردآشنا
بل کلنٹن، راس پیرو، جارج بش کوئی نہیں

ظفر سید
بی بی سی اردو ڈاٹ کام

Post a Comment

0 Comments