Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

بھارتی جیلوں کی اونچی دیواروں کے پیچھے تعصب کی داستانیں'

انڈیا میں مسلمانوں کا الزام ہے کہ ملک میں جیلوں کی اونچی دیواروں کے پیچھے
تعصب کی داستانیں پوشیدہ ہیں اور سرکاری اعدادوشمار بھی اسی تصویر کی عکاسی کرتے ہیں۔ انڈیا کی مغربی ریاست مہاراشٹر میں ہر تین میں سے ایک قیدی مسلمان ہے لیکن ریاست کی آبادی میں مسلمانوں کا حصہ صرف ساڑھے 11 فیصد ہے۔ یہی تصویر کم و بیش پورے ملک میں نظر آتی ہے، اور مسلمان نوجوان مانتے ہیں کہ اس کے پیچھے ایک منظم سوچ کار فرما ہے۔ تاہم اس مسئلے پر ممبئی میں قائم ٹاٹا انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنسز کے پروفیسر وجے راگھون کا کہنا ہے صرف ایک فی صد قیدی ہی دہشت گردی اور منظم جرائم جیسے سنگین معاملوں میں جیلوں میں قید ہیں جبکہ باقی قیدی عام جرائم کے لیے وہاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے جرائم خاندانی رشتوں پر مبنی ہیں نہ کہ منظم جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔
ممبئی میں ہم نے مسلم نوجوانوں سے اس مسئلے پر بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ جہاں اس میں حکومت کا تعصب ہے وہیں مسلمانوں کی غلطیاں بھی ہیں۔ ایک طالبہ صفیہ خاتون نے کہا: 'مسلمانوں میں تعلیم کی کمی ہے، تربیت کی کمی ہے، روزگار کی کمی ہے۔ خود انسانیت سے ہم گرتے جا رہے ہیں۔ دین سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اس میں حکومت کا تعصبانہ رویہ ہے تو برادران وطن کی سازش بھی اس میں شامل ہے۔' انھوں نے مزید کہا: 'دوسرے فرقے والے مسلمانوں کو ترقی کرتا ہوا نہیں دیکھ سکتے اس لیے انھیں پھنسا دیا جاتا ہے جبکہ کچھ حد تک میڈیا بھی اس کے لیے ذمہ دار ہے۔' ممبئی کے ایک نوجوان عباد الرحمن نے جیلوں میں مسلمانوں کے زیادہ تناسب کو غربت و افلاس کا نتیجہ بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ 'بہت غربت ہے۔ لوگ چھوٹی چھوٹی چوریاں کرتے ہیں اور اس کے لیے برسوں تک جیل میں رہتے ہیں۔ ان سے پوچھو تو کہتے ہیں ان کے پاس ضمانت کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ رقم چھوٹی ہوتی ہے دو ہزار، تین ہزار لیکن وہ ضمانت کے اتنے پیسے بھی عدالت میں جمع نہیں کرا پاتے اور اسی لیے جیلوں میں پڑے رہتے ہیں۔' حکومت نے حال ہی میں ایوان بالا میں ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ انڈیا کی 1387 جیلوں میں 82 ہزار سے زیادہ قیدی مسلمان ہیں جن میں سے تقریبا 60 ہزار کے معاملے ابھی زیر سماعت ہیں۔

پروفیسر راگھون کا کہنا ہے کمزور طبقے کے پاس اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے قانونی وسائل بھی نہیں ہوتے ہیں اس لیے بھی ان کی تعداد زیادہ ہے۔ جبکہ ایک طالبہ رابعہ کا کہنا ہے کہ 'مسلمان بہت لاپروائی برتتے ہیں۔ دین میں جو صحیح راستے بتائے گئے ہیں، ہم ان راستوں کو چھوڑ کر بھٹک گئے ہیں اور انسان جب بھٹک جائے گا تو پھر کچھ بھی کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔'
مہاراشٹر کے ہی ایک نوجوان منور یوسف کا کہنا ہے کہ 'مسلمانوں کو بہت سے مسائل درپیش ہیں۔ انھیں ہر قدم پر اپنی وفاداری کو ثابت کرنا پڑتا ہے لیکن دوسرے فرقے والے خواہ کچھ بھی کریں انھیں محبِ وطن تسلیم کیا جاتا ہے۔'

پروفیسر راگھون کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق میں جہاں یہ پتہ چلا کہ مذہبی اقلیت کے خلاف تعصب ہے وہیں یہ بھی پتہ چلا کہ ان کی معاشی حالت اتنی زیادہ خراب ہے کہ انھیں جرائم کی جانب آسانی سے دھکیلا جا سکتا ہے۔ نوجوانوں میں عام تاثر یہ ہے کہ دہشت گردی کے الزام سے بری ہونے والے افراد کو معاشرے کا باعزت شہری بنانے کے لیے کوئی نظام نہیں۔ صرف شک کی بنیاد پر ان کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے ملک بھر میں ایسے سینکڑوں افراد ہیں جو دس دس سال بعد بے قصور ثابت ہوئے اور انھیں رہائی دی گئی۔ اسی بارے میں ایک کمپنی میں کام کرنے والے نذرالحسن کا کہنا ہے: 'جو بے قصور پکڑے جاتے ہیں انھیں نہ کوئی معاوضہ دیا جاتا ہے اور نہ وسائل پیدا کیے جاتے ہیں کہ وہ باقی زندگی گزار سکیں۔' ماہرین کے مطابق ضرورت پولیس میں اقلیتوں کی نمائندگی بڑھانے کی ہے۔ ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق سکیورٹی فورسز میں مسلمانوں کا تناسب صرف چار فی صد ہے جو کہ ان کی آبادی کے تناسب سے بہت کم ہے۔ توازن کا ہدف حاصل کرنے کے لیے منزل ابھی دور ہے اور تب تک عدالتوں کے چکر لگتے رہیں گے اور جیلوں کے دروازے مسلمان قیدیوں پر یوں ہی کھلتے رہیں گے۔

مرزا اے بی بیگ
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، ممبئی


Post a Comment

0 Comments