Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

کشمیر ڈائری : جہاں قاتل ہی منصف ہیں

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں تین ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری احتجاج کی
لہر، تشدد اور کرفیو کا کشمیریوں پر کیا اثر پڑا ہے؟ بی بی سی اردو نے سرینگر کی رہائشی ایک خاتون سے رابطہ کیا جن کے تجربات و تاثرات کی چھٹی کڑی یہاں پیش کی جا رہی ہے۔ کشمیر میں مواصلاتی بلیک آؤٹ جزوی طور پر ختم ہوا ہے۔ لینڈ لائن اور موبائل فون کی سہولت تو بحال کر دی گئی ہے لیکن موبائل انٹرنیٹ سروس بدستور بند ہے جس کی وجہ سے یہ تحریریں آپ تک بلا تعطل پہنچانے میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ کچھ دن پہلے ایک اور بچہ چھّروں کا نشانہ بن گیا۔ 12 سالہ جنید احمد ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ وہ اپنے گھر کے گیٹ کے پاس تھا جب اسے سر اور سینے پر چھرے لگے ۔ اس کے کچھ گھنٹوں کے بعد اس کی موت ہو گئی۔

بات یہاں ختم نہیں ہوتی ہے۔ دوسری صبح اس کے جنازے پر آنسو گیس کے گولے پھینکے گئے جس کی وجہ سے جنید کی لاش بھی جنازے کے شرکاء کے شانوں سے گر گئی۔ ہم ایک ایسی جگہ رہتے ہیں جہاں سرکار انسانیت کا لفظ اپنے سیاسی طریقوں میں بہت استعمال کرتی ہے اور پھر یہی سرکار ہماری سٹرکوں اور ہمارے گھروں میں آئے دن انسانیت کے بنیادی اصول کا خون کرتی ہے۔ ہم وہاں رہتے ہیں جہاں قاتل ہی منصف ہیں۔ جہاں جھوٹ بار بار بول کے سچ بنا دیا جاتا ہے۔ جہاں سچ بولنے والوں کی زبانیں اور قلم بند کر دیے جاتے ہیں۔ انسانی حقوق کے علمبردار خرم پرویز اور اخبار کشمیر ریڈر دونوں کو سچ بولنے کی پاداش میں خاموش کر دیا گیا۔ خرم کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حوالات میں ڈال کر اور کشمیر ریڈر کے اشاعت پر پابندی لگا کر۔
 
ہماری سرکار کے بیانات کی بات کریں تو حقیقت میں ان میں کچھ ’لوجک‘ بھی نہیں ہوتی۔ سیاست دانوں سے تو ہم سچائی کی زیادہ امید نہیں رکھتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کا پیشہ ہی سچ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا ہے۔ مگر یہاں تو توڑ مروڑ نہیں یہاں تو سچائی کی شکل ہی بدل دی جاتی ہے۔ مہینوں کی مزاحمت جس کے لیے سرکار کو 51 دن کا کرفیو لگانا پڑا، اس کو 'ہلہ گلہ' کہا گیا۔ وہ 'ہلہ گلہ' جس میں ابھی تک 90 سے زیادہ جانیں چلی گئی ہیں اور ہزاروں زخمی اور سینکڑوں اپنی بینائی کھو چکے ہیں۔ وہی 'ہلہ گلہ' جس میں ہر روز سرکار 50، 60 لوگوں کو گرفتار کر رہی ہے۔ یہ سب ہونے کے بعد سرکار نے ہندوستانی وزیرِ اعظم سے کشمیریوں کے زخموں پر 'مرہم' لگانے کے لیے کہا۔ جو زخم لگا رہے ہیں ان سے مرہم کی گذارش؟ اور گذارش والے خود زخم والوں کے ساتھ ہیں۔

کشمیر میں محرم کے جلوس پر سرکار نے کئی سال سے پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ اس مرتبہ بھی عاشورے پر عید کی طرح کرفیو لگایا گیا تھا۔ جب لوگوں نے اس پابندی کی خلاف ورزی کی اور محرم کے چھوٹے جلوس نکالے تو سرکار نے اس کو حالات میں بہتری کے ثبوت کے طور پر پیش کیا۔ عام حالات میں تو انسان ان باتوں پر ہنستا ہے۔ مگر یہاں حالات ایسے ہیں کہ ان باتوں کے جھوٹ کے پیچھے قول و فعل کے جو کرتب چھپے ہیں ان کا سمجھنا ضروری ہے۔ محرم کے مہینے میں بس یہی دعا ہے کہ ہماری آزادی کی جنگ میں بھی سچائی کی جیت ہو۔

Post a Comment

0 Comments