Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

بالاکوٹ کا غم

ہفتے کا دن تھا اور رمضان کا مہینہ۔ کراچی پریس کلب میں کچھ صحافیوں سے گپ
شپ ہو رہی تھی کہ ایسے میں لندن سے شفیع نقی جامعی کا فون آیا: کہاں ہیں چیف؟ میں نے بتایا، ’کراچی میں۔‘ کہنے لگے: ’اسلام آباد کے قریب زلزلہ آیا ہے اور خاصا نقصان ہوا ہے، آپ کو نکلنا چاہیے۔‘ اس وقت تک بریکنگ نیوز آ چکی تھی۔ اسلام آباد میں بی بی سی کے نامہ نگاروں کی ٹیم بشمول ظفر عباس، اعجاز مہر اور مبشر زیدی مارگلہ ٹاورز کے زمین بوس ہونے کی خبر دیکھ رہے تھے۔ زلزلہ بڑا تو تھا لیکن کتنا بڑا، یہ ابھی پوری طرح واضح نہیں تھا۔ میں نے جلدی میں دو جوڑے بیگ میں ڈالے اور ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہو گیا۔ کراچی سے اسلام آباد کی تمام پروازوں پر رش تھا۔ زلزلہ متاثرین کے رشتہ دار اپنے آبائی علاقوں میں پہنچنے کے لیے بے تاب تھے۔
پی آئی اے نے خصوصی پروازیں چلانے کا اعلان کر دیا تھا۔ میں کسی طرح عملے کی منت سماجت کر کے ایک فلائیٹ پر چڑھنے میں کامیاب ہو گیا۔ جہاز میں راستے بھر دائیں بائیں آگے پیچھے بیٹھے پریشان حال مسافروں سے بات ہوئی تو پتہ چلا کہ گڑھی حبیب اللہ میں سکول گر جانے سے کئی سو بچوں کے مارے جانے کی اطلاعات ہیں۔ یہ خبر بڑی پریشان کُن تھی جو اس وقت تک سامنے نہیں آئی تھی۔ اسلام آباد پہنچے تو صاف لگا کہ سب کی توجہ مارگلہ ٹاورز پر تھی۔
 ریڈیو پر سیربین کی نشریات کے آخری کچھ منٹ باقی تھے۔ میں نے سیدھا لندن میں موجود ہمارے اسٹوڈیو میں فون پر رابطہ کیا اور براہِ راست پروگرام میں گڑھی حبیب اللہ اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں سکولوں کی تباہی کا ذکر کیا۔

جیسے جیسے رات بڑھتی گئی سرکاری ذرائع سے تصدیق آنا شروع ہوگئی کہ دور دراز پہاڑی علاقوں میں اسلام آباد سے کہیں زیادہ نقصان ہوا ہے اور مرنے والوں میں بڑی تعداد بچوں کی ہے اور اس میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ہماری ٹیم نے آپس میں کام بانٹ لیا۔ مظفرآباد جانے والا راستہ بند تھا۔ کچھ ساتھوں نے کہا وہ صبح پھر وہاں جانے کی کوشش کریں گے۔ طے یہ ہوا کہ میں اور مبشر زیدی بالاکوٹ کی طرف جائیں گے۔ ہم چند گھنٹے سوئے اور پھر علی الصبح وہاں کے لیے نکل پڑے۔ ایبٹ آباد اور مانسہرہ سے ہوتے ہوئے بالاکوٹ کے قریب پہنچے تو سڑک بند تھی اورگاڑیوں کا ہجوم نظر آیا۔ ہم نیچے اترے، سامان اٹھایا اور پیدل چل پڑے۔ ندی نالے پھلانگتے شہر کے اندر داخل ہوئے تو ہمارے سامنے ہر طرف تباہی کا منظر تھا۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت لاشیں نکالنے میں مصروف تھے۔ اکثر کے چہروں پر ہوائیاں اڑُ رہی تھیں۔ کچھ عورتیں اور بچے جیسے سکتے میں بے حال نظر آئے۔ ایسے میں ہم زمین بوس ہوجانے والی ایک تین منزلہ عمارت کے سامنے پہنچے۔ یہ شاہین سکول اور کامرس کالج کی عمارت تھی ۔ ملبے کے اردگرد لوگ جمع تھے اور اپنے بچوں کو پکار رہے تھے۔ نیچے سے وقتاً فوقتاً بچوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ 

میرے لیے یہ منظر دل دہلا دینے والا تھا۔ والدین غم سے نڈھال تھے۔ وہ اپنے ہاتھوں سے سیمنٹ کے بھاری بھر کم تودے اٹھانے کی کوشش کرتے، پھر تھک کر چھوڑ دیتے۔ اُس وقت تک وہاں کسی کے پاس ایسی مشینری نہیں تھی کہ ملبے کو ہٹا کر یا توڑ کر بچوں کو وہاں سے نکال سکے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کی آوازیں کم ہوتی چلی گئیں۔ لوگوں کا غم، غصے میں بدلنے لگا اور وہ مشرف حکومت اور فوج کے خلاف نعرے لگانے لگے۔ پھر وہیں ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے کچھ بچوں کی لاشیں نکلنا شروع ہوئیں۔ والدین اپنے جگر کے ٹکڑوں کو ملبے سے نکالتے رہے اور روتے رہے۔

مجھ سے رہا نہ گیا اور میں اپنے سامنے ایک بِلکتے شخص کو گلے سے لگا کر اُسے دلاسے دیتا رہا اور اپنے آنسو بھی پونچھتا رہا۔ اس وقت مجھے زندگی میں پہلی بار شدت سے انسان کی بے بسی کا احساس ہوا کہ ہم خود کو کتنا ہی طاقتور کیوں نہ سمجھیں، بعض اوقات کچھ بھی تو نہیں کر سکتے، سوائے ایک دوسرے کا درد محسوس کرنے اور اسُے بانٹنے کے۔ زلزلہ جس پیمانے کی تباہی لایا، اس نے حکومتی ڈھانچہ تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ پہاڑوں پر لوگوں کے پاس نہ بجلی تھی نہ ٹی وی۔ ایسے میں لوگوں کی آواز اور خبر کا بڑا ذریعہ بی بی سی اردو کی ریڈیو نشریات بنیں۔ آفت کے بعد کوئی چھ ماہ تک جس انداز میں ہماری ٹیم نے مختلف متاثرہ علاقوں میں جا کر تفصیلی رپورٹنگ کی وہ بھی اپنی مثال آپ تھا۔

احتشام ان بچوں میں شامل تھے جو زلزلے کے نتیجے میں زندہ بچ نکل آئے
دس برس بعد حال ہی میں جب پہلی بار واپس بالاکوٹ آنا ہوا تو یہ جان کر افسوس ہوا کہ وہ شاہین سکول کہ جس کا شمار شہر کے بہترین سکولوں میں ہوا کرتا تھا آج اُس کا کہیں نام و نشان نہیں۔ معلوم ہوا کہ سکول نجی تھا، زلزلے کے بعد دوبارہ نہ چل سکا اور بعد میں اس کے مالک نے اسی نام سے مانسہرہ میں نیا کالج قائم کر لیا۔ وہیں میری ملاقات احتشام الحق سے ہوئی۔ وہ شاہین سکول کے ملبے سے زندہ نکالے جانے والے بچوں میں سے تھے۔ تب وہ نو سال کے تھے۔ اس زلزلے میں انھوں نے اپنا چھوٹا بھائی کھویا، استاد کھوئے اور کئی دوست بھی۔ کہتے ہیں کہ ’جب بھی اس دن کی یاد آتی ہیں تو جی بھر آتا ہے۔ کوشش کرتا ہوں کہ اس بارے میں زیادہ نہ سوچوں۔‘

احتشام کے والد بتاتے ہیں کہ زلزلے نے ان کے بیٹے پر نفسیاتی اثرات چھوڑے۔ اسے ذہنی دباؤ رہنے لگا، طبیعت میں غصہ شامل ہوگیا اور بول چال میں لُکنت آنے لگی۔ لیکن کچھ علاج معالجے کے بعداب وہ ٹھیک ہے اور یونیورسٹی جاتا ہے۔ احتشام خوش قسمت تھے کہ موت کے منہ سے زندہ واپس نکل آئے۔ ان کے ساتھ کے شاہین سکول کے جو بچے مر گئے اُن میں بالاکوٹ کے صحافی محمد فرید کے تین بیٹے شاہد، حماد اور سعد شامل تھے۔ کہتے ہیں کہ وہ دن ان کے خاندان کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں تھا، عجیب نفسانفسی کا عالم تھا، ہر گھر میں ماتم تھا۔ بعد میں امدادی تنظیمیں آئیں لیکن اس وقت تک دیر ہو چکی تھی۔

کہتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ انسان کے زخم بھر جاتے ہیں۔ لیکن بالاکوٹ کے غم کا اندازہ آپ کو یہاں پہنچ کر ہی ہوتا ہے۔ یہاں کے لوگوں سے حکومت کا وعدہ تھا کہ ان کے لیے بکریال میں ایک نیا شہر بنایا جائے گا۔ یہ کام دو تین برسوں میں ہونا تھا۔ لیکن دس سال گزر گئے، نہ موجودہ شہر میں کوئی خاص تعمیرو ترقی ہوئی نہ کوئی نیا شہر بنایا گیا۔ اس دوران کشمیر میں مظفرآباد کا نقشہ بدل گیا۔ وہ متاثرہ علاقے کا سب سے بڑا شہر تھا اور وہاں نقصان بھی خاصا ہوا۔ لیکن وہاں عالمی امداد بھی ٹھیک ٹھاک آئی۔ ترکی، سعودی عرب، چین، جرمنی اور برطانیہ جیسے ملکوں کی مدد سے نئے پل بن گئے، سکول، ہسپتال، اور مسجدیں تعمیر ہوگئیں۔

لیکن بالاکوٹ وہیں کا وہیں رہ گیا۔ حکام کے بقول یہ شہر ریڈ زون میں ہے جہاں کبھی بھی پھر زلزلے آ سکتے ہیں۔ محمد فرید کہتے ہیں کہ حکومتی وعدے اور نعرے سنتے سنتے دس سال گُزر گئے، اسی طرح دس سال اور گزر جائیں گے لیکن یہاں شاید ہی کچھ ہو۔ ان کے خیال میں حکومتی نااہلی اور بے حسی کے باعث اب بالاکوٹ کا مسئلہ ایرا، پیرا اور سیرا کے چکروں میں اتنا الجھ چکا ہے کہ اس شہر کے لوگوں کو اب کسی سے کوئی توقعات نہیں رہیں۔ آج بالاکوٹ ایک بدقسمت شہر ہے جس کے لوگ خود کو لاوارث تصور کرتے ہیں۔

شا ہ زیب جیلانی
بی بی سی نیوز، بالاکوٹ

Post a Comment

0 Comments