Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

کشمیر ڈائری : مظفر کی موت کب ہوئی؟

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں تقریباً تین ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری احتجاج کی لہر، تشدد اور کرفیو کا کشمیریوں پر کیا اثر پڑا ہے؟ بی بی سی اردو نے سرینگر کی رہائشی ایک خاتون سے رابطہ کیا جن کے تجربات و تاثرات کی چوتھی کڑی یہاں پیش کی جا رہی ہے۔ کشمیر میں مواصلاتی بلیک آؤٹ کی وجہ سے یہ تحریریں آپ تک بلاتعطل پہنچانے میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ سنیچر کو پھر ایک نوجوان کی موت ہوگئی۔ بڈگام کے چک کاووسہ کا 22 سالہ مظفرجو دو ہفتے پہلے، چھرّوں سے زخمی ہو گیا تھا چل بسا۔ مظفر عید کے تیسرے دن ظہر کی نماز پڑھ کر ایک ہمسائے کی دکان پر بیٹھا تھا کہ اس پر چھرّوں والا کارتوس داغا گیا۔ اس کے دو آپریشن ہوئے مگر خون میں انفیکشن ہوگیا اور لاکھ کوشش کے باوجود اس کی جان نہ بچ پائی۔

مظفر کی موت کب ہوئی؟
سنیچر کی صبح جب اس نے اپنی آخری سانس لی یا اس دن جب اس پر فائرنگ کی گئی۔ کیا وہ اس دن مارا گیا جب کشمیر میں افسپا لگا جس کی وجہ سے فوجیوں کو کشمیری کو ہلاک کرنے کی کھلی چھٹی مل گئی ہے؟ یا مظفر اس دن مارا گیا جب سیاستدانوں نے اپنا ضمیر بیچ دیا تھا؟ یا پھر اس دن جب ہماری علاقائی حکومت نے اپنا اختیار قابض حکومت کے حوالے کیا؟  سچ تو یہ ہے کہ مظفر  کی موت ان سب مواقع پر ہوئی ہے۔ مظفر کے ساتھ ہم سب کا کوئی نہ کوئی حصہ بھی ان تمام مواقع پر مر جاتا ہے۔
نام: محمد مظفر
عمر: مرنے کی نہیں تھی
موت کی وجہ: محکومیت

آج اس آزادی کی لہر کو 87 سے زیادہ دن ہوگئے ہیں۔ اس دوران کشمیر میں 90 سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں جن میں بوڑھے، جوان، بچے اور عورتیں سب شامل ہیں۔ تقریباً 14 ہزار زخمی ہیں اور 500 سے زیادہ کی بینائی چلی گئی ہے۔ اس کے علاوہ چھ ہزار سے زیادہ گرفتار کیے گئے ہیں اور ان اعداد میں ہر روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ آج کل ہندوستان اور پاکستان کے درمیان باتوں کی تیز جنگ چل رہی ہے جو ہر روز اخباروں کی سرخیوں اور ٹی وی کے مباحثوں میں زور وشور سے لڑی جا رہی ہے۔ مگر اصل جنگ تو یہاں کشمیر میں ہو رہی ہے۔ اس جنگ میں 'سرجیکل سٹرائیک' کا مطلب ہے کہ بچے کی آنکھوں کو نشانہ بنا کر چھرّے داغے گئے۔

اس جنگ کے جنگی قانون افسپا اور پی ایس اے ہیں۔ اس جنگ میں گولیوں اور چھّروں کے علاوہ بھی اور بہت سے ہتھیار ہیں جس میں لکڑی اور لوہے کے ڈنڈے بھی شامل ہیں۔ اس جنگ کا نشانہ ہم لوگ ہیں، ہمارے گھر ہیں جنھیں ہندوستانی فوج گھس کر تہس نہس کر دیتی ہے۔ ہمارے کھیتوں کی کھڑی فصلیں ہیں جو جلائی جا رہی ہیں۔ ہمارے گھروں کی کھڑکیاں اور شیشے ہیں جو ڈنڈوں اور پتھروں سے توڑے جا رہے ہیں۔ ہمارے عمر رسیدہ بزرگ ہیں جو فوجیوں کی دہشت سے دل کے دوروں کا شکار ہوتے ہیں۔ ہماری عورتیں ہیں جو فوجیوں کی بری نظر کا شکار ہو رہی ہیں۔ مگر یہ جنگ خاموشی سے لڑی جا رہی ہے۔ اس میں آپ کو چیختے ہوئے ٹی وی اینکر دکھائی نہیں دیں گے۔ یہ جنگ آپ کی ٹی وی سکرینز پر نہیں ہمارے گھروں، گلیوں اور محلوں میں چل رہی ہے۔

Post a Comment

0 Comments