Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

فیس بک نے فلسطینیوں کے خلاف کس طرح "تعصب" برتا ؟

انٹرنیٹ پر فلسطینی کارکنان اور بلاگروں نے اتوار کی صبح مشہور ترین سوشل میڈیا ویب سائٹ فیس بک پر پوسٹنگ روک دینے کی مہم کا آغاز کر دیا۔ اس کا سبب فیس بک کی جانب سے اسرائیل کے خلاف اشتعال کو بنیاد بنا کر فسلطینیوں کے نشر و اشاعت کی آزادی پر حملہ بتایا گیا ہے۔ صبح آٹھ بجے سے رات دس بجے تک جاری رہنے والی مہم FBCensorsPalestine# کے نام سے متعارف کرائی گئی۔ مہم کے منتظمین نے اپنے ایک بیان میں بتایا ہے کہ "فیس بک" کی انتظامیہ کا رواں ماہ ستمبر میں قابض اسرائیلی حکام کے ساتھ اس امر پر اتفاق ہوا ہے کہ اشتعال کو بنیاد بنا کر فیس بک پر فلسطینی شخصیات اور فلسطینی ویب سائٹوں کے صفحات کو ختم کر دیا جائے۔

دوسری جانب اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ نے اسرائیلی وزیر انصاف کے حوالے سے بتایا ہے کہ فیس بک نے فلسطینی شخصیات اور ویب سائٹوں کے صفحات کو ختم کرنے کے حوالے سے اکثر مطالبات کا جواب دیا ہے۔ پیشگی اطلاع یا انتباہ کے بغیر حذف کیے جانے والے صفحات میں شہاب نیوز ایجنسی اور القدس نیوز نیٹ ورک کے صفحات شامل ہیں۔ اس سلسلے میں ایک کارکن اور بلاگر محمود حريبات نے "العربیہ ڈاٹ نیٹ" کو بتایا کہ فیس بک کے خلاف مہم ان افراد یا صحافیوں نے شروع کی ہے جن کو خود یا وہ جن ویب سائٹوں کے لیے کام کرتے ہیں ان کو.. فیس بک کی پالیسیوں کی وجہ سے نقصان پہنچا ہے۔ تاہم اب یہ مکمل طور پر فلسطینی مہم بن چکی ہے اور بین الاقوامی سطح کی جانب گامزن ہے ۔
حریبات کے مطابق فیس بک نے جو کیا ہے وہ "آزادی اظہار کے معیار کے خلاف ہے جب کہ یہاں دُہرا معیار بھی دیکھا جا رہا ہے ۔ ایسے بہت سے صفحات ہیں جو فلسطینیوں کے خلاف اشتعال پھیلا رہے ہیں تاہم ان کے ساتھ یہ معاملہ نہیں کیا جا رہا ہے"۔

مہم کے منتظمین نے فیس بک انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیلی حکام کے ساتھ ہونے والے اتفاق رائے سے فوری طور پر رجوع کرے۔ ساتھ ہی بھی کہا گیا ہے کہ فیس بک "قابض اسرائیلی حکام کی غیر قانونی پالیسیوں اور کارروائیوں کی حمایت بند کرے اور اسرائیلی حکام کے ساتھ طے پانے والے معاہدے سے انٹرنیٹ صارفین کو اعلانیہ طور پر آگاہ کرے۔ واضح رہے کہ فیس بک نے 1910 میں پیدا ہونے والی ایک فلسطینی خاتون کے شناختی کارڈ کی کاپی کو یہ کہہ کر حذف کر دیا تھا کہ یہ پوسٹ نسل پرستی کے مواد پر مشتمل ہے۔
سوشل میڈیا پر مقبوضہ بیت المقدس کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہونے والی مذکورہ خاتون کی تصویر بڑے پیمانے پر پھیلائی گئی۔ بعض کارکنان کا کہنا تھا کہ وہ فوت ہوچکی ہے اور بعض تبصروں میں کہا گیا کہ "خاتون کی عمر اسرائیلی قبضے سے زیادہ ہے"۔

ام الله – امجد سمحان

Post a Comment

0 Comments