Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

جب ترک صدر نے پرویز مشرف کو کھری کھری سنا دیں

دنیا بھر میں جہاں جمہوریت کو پذیرائی دی جاتی ہے وہیں جمہوری حکمرانوں کے
تختے الٹنے والوں پر کڑی تنقید بھی کی جاتی ہے۔ ایسی تنقید پاکستان میں حکومت کا تختہ الٹنے والے جنرل مشرف کو بھی سہنا پڑی۔ کرامت اللہ غوری اپنی کتاب بارشناسائی میں لکھتے ہیں، منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد پرویز مشرف نے ترکی جانے کی ٹھانی۔ اتفاق سے اس وقت ترکی کے صدر اور وزیر اعظم دونوں اپنی فوج کے ہاتھوں ڈسے ہوئے تھے۔ لہٰذا پہلی ہی ملاقات میں ترک صدر سلیمان دیمرل نے پرویزمشرف کو کھری کھری سنائیں۔  نوک جوک نامی ایک بلاگ کے مطابق اس وقت کے ترک صدر سلیمان دیمرل نے مشرف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا،”جنرل! مجھے عملی سیاست میں پچاس برس سے زیادہ ہو چکے ہیں اور اس طویل عرصے میں جس عمل نے میرے ملک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا، وہ سیاست میں فوج کی مداخلت ہے۔
ہمارے جرنیلوں کے دماغ میں بھی یہ خناس تھا کہ وہ ملک کو سدھار سکتے ہیں لیکن ہر بار وہ جب اپنا تماشہ دکھا کے واپس بیرکوں میں گئے تو حالات پہلے کی نسبت اور خراب کر گئے۔ جنرل !دنیا کی کوئی فوج کسی ملک کی تقدیر نہیں سنوار سکتی۔ یہ میں اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ مجھے پاکستان سے محبت ہے اور تمہیں میں اپنا چھوٹا بھائی سمجھتا ہوں۔ لہٰذا بڑا بھائی ہونے کے ناطے میرا مشورہ یہ ہے کہ جتنی جلد ہو سکے، اقتدار سیاست دانوں کو واپس کرو اور اپنی بیرکوں کو لوٹ جاو۔“ ترک وزیراعظم نے بھی پرویز مشرف کو آڑے ہاتھوں لیا اور ان تمام نقصانات کی فہرست گنوائی جو سیاسی عمل میں فوج کی مداخلت سے ترکی میں پیدا ہوئے اور دنیا کے ہر اس ملک میں ہو سکتے تھے جہاں فوج زبردستی اپنی حکمرانی مسلط کرتی ہو۔

Post a Comment

0 Comments