Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

مولانا مودودی اسلام کے کامیاب مبلغ اور داعی

مولانا مودودیؒ جہد مسلسل اور ایک وژن کا نام ہے۔ انہوں نے مخلوق خدا کو اپنی
طرف نہیں بلکہ اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کی طرف بلایا ہے۔ ان کی زندگی کا مطالعہ کریں، توایک ہی درس ملتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺکے پیغام سے آپ سب سے پہلے اپنے دل کو منور کریں اور پھر سارے جہان میں اس نور کو پھیلادیں۔ مولانا مودودیؒ نے بے پناہ علمی کام کیا اور قریباً ہر اہم موضوع پر دلائل و براہین سے ثابت کیا کہ انسانیت کی رہنمائی کتاب اللہ اور سنت رسولﷺ میں ہے ۔ انہوں نے معیشت اور سیاست پر بھی بات کی اور سماجیات پر بھی کتب تحریر کیں۔ سودکی ممانعت اور پردے کی افادیت پر ان کی کتابیں ایک علمی خزانہ ہیں ۔ مولانا مودودیؒ نے اپنی اس فکر کو پھیلانے اور دیے سے دیا جلانے کے لیے جماعت اسلامی کی صورت میں ایک منظم جماعت قائم کی۔
دنیا میں ایسا بہت کم ہوا ہے کہ ایک آدمی مفکر ،مدبر اور مفسر بھی ہو، دانشور اور فلسفی ہو، محدث اور ادیب ہواوراس نے کوئی سیاسی جماعت بھی بنائی ہو، لیکن دنیا بھر میں شاید مولانا موددی ؒہی وہ واحدشخصیت ہیں، جنہوں نے جماعت اسلامی کی شکل میں ایک سیاسی تحریک کو اٹھایا۔ اس سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں انہیں جیل بھی جانا پڑا،بہت سارے لوگ جیل میں جاتے ہیں،لیکن قید کے ایام کو انسانیت کی راہنمائی اور بھلائی کا ذریعہ بنا نا شاید مولانا مودودیؒ کی قسمت میں لکھا تھا کہ وہ جیل میں گئے ،تو وہاں انہوں نے تفہیم القرآن جیسی شہرہ آفاق تفسیر لکھ کر نئی نسل کو ایک ایسا تحفہ د یا،جس کی نظیر کم ہی ملے گی۔ تفہیم القرآن نے بلاشبہ لاکھوں نوجوانوں کو کفر و الحاد کے پھیلائے ہوئے جال سے بچا کر مومنانہ زندگی کا خوگر بنا دیا۔ مولانا مودودیؒ نے سب سے زیادہ ہمارے زمانے کو متاثر کیا،خصوصاً نوجوانوں اور طلبا کوانہوں نے اپنے لٹریچر کے ذریعہ بے حدمتاثر کیا۔ ان کااصل ہدف بھی نئی نسل کی رہنمائی اور انہیں زمانے کی چکاچوند سے بچانا اور اسلام کو اپنی زندگیوں کا اوڑھنا بچھونا بنا کر ایک جہد مسلسل کیلئے تیا ر کرنا تھا۔ 

وہ نوجوانوں کو دین کے خادم بنانا چاہتے تھے۔ میرے خیال میں مولانا مودودیؒ اس زمانے میں اللہ رب العزت کا ایک خصوصی انعام اور احسان تھا۔ مولانا مودودیؒ نے خود کو بیسویں صدی کے ایک مصلح، مبلغ اور داعی کے طور پرمنوایا اوراپنی تعلیمات کوآنے والے ہر زمانے کے لیے روشنی کا ذریعہ بنا گئے۔ مولانا مودودیؒ، شاہ ولی اللہؒ اور مجدد الف ثانیؒ کاہی تسلسل ہیں۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہر زمانے میں ایسے لوگ موجود رہیں، جو لوگوں کی صحیح رہنمائی کرنے کا فریضہ انجام دیں۔ ہمارے زمانے میں اللہ تعالیٰ نے مولانا مودودیؒ سے خیر کا یہ کام لیا ہے۔ ۔۔! مولانا مودودیؒ اس لحاظ سے کامیاب ٹھہرے کہ وہ ایک نظریاتی شخصیت اور اسلام کے ایک کامیاب مبلغ اور داعی تھے۔ کامیاب مبلغ وہی ہوتا ہے، جو اپنی تبلیغ کے ذریعے لوگوں کو اپنے موقف پرقائل کرتا اوراپنے نظریہ کو غالب کرتا ہے،اگرچہ مولانا مودودیؒ نے خود کبھی حکومت کی، نہ سرکاری ایوانوں میں گئے، لیکن ان کی کوششوں سے دین کو بحیثیت ایک نظام زندگی سیاست، معیشت اور تعلیم سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی میں داخل کردیا ۔

انہوں نے عقلی دلائل سے ثابت کیا کہ زندگی کے تمام مسائل کا حل قرآن و سنت میں موجود ہے۔آج ساری دنیا میں اس فکر کو غلبہ حاصل ہورہا ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ ممالک جن میں اسلام کا نام لینا مشکل تھا، اب وہاں کی نئی نسل کے ہاتھوں میں قرآن نظر آتا ہے اورجگہ جگہ مساجد ہیں، جن میں بزرگوں اور ضعیفوں سے زیادہ تعداد میں نوجوان اللہ کے حضور سربسجود نظرآتے ہیں۔ یہ نوجوان ہر جگہ اسلامی انقلاب کے علمبردار بنے ہوئے ہیں، اس طرح کسی زمانے میں اسلام کاجو تصور مسجد کے کونے تک محدود تھا، اب وہ بازاروں، حکومتی ایوانوں، عدالتوں اوردفاتر میں چلتا پھرتا اورآگے بڑھتا نظر آ ئے گا۔ الحمدللہ! اسلام کے نور کی کرنیں دنیا بھرمیں پھیل رہی ہیں،جس سے کفر کا اندھیرا چھٹ رہا ہے۔ اسلام ہر جگہ پھلتا پھولتا نظر آرہا ہے۔ بلاشبہ یہ عالمی اسلامی تحریکوں کی بہت بڑی کامیابی ہے، جس میں مولانا مودودیؒ ، سیدقطب شہید ؒ اور سید حسن البنا شہید ؒ کی فکر کارفرما ہے ۔ 

مولانا مودودی ؒ کی 37ویں برسی پرمیں پاکستانی عوام کو یہی پیغام دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان جس نظریے کی بنیاد پر بنا ہے ، وہ ہے لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ ، پاکستان مدینہ منورہ کے بعد دنیا میں دوسری نظریاتی ریاست ہے ،اگر ہم سب مل کر پاکستان کو اُس تصور کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں، جو تصور علامہ اقبالؒ ،قائداعظم ؒ ، مولاناشبیر احمد عثمانی ؒاور مولانامودودیؒ کا تھا تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی ۔

سینیٹرسراج الحق

Post a Comment

0 Comments