Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

فاروق ستار الطاف حسین سمیت سب ڈبل گیم کر رہے ہیں

الطاف حسین اب ایک غدار ہے۔ وہ ملک کا غدار ہے، لیکن فاروق ستار انہیں بانی اور قائد ہی بیان کر رہے ہیں۔ فاروق ستار یہ کہہ رہے ہیں کہ بس اتنے پر ہی گزارا کر لیا جائے کہ ان کے قائد اور بانی کا اب ان سے کوئی تعلق نہیں۔ کیا فاروق ستار خود اتنے معصوم ہیں یا پورے ملک کو اتنا معصوم سمجھ رہے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ کون کس کو بیوقوف بنا رہا ہے۔ کون کس کو دھوکہ دے رہا ہے۔ کیا فاروق ستار اور ان کے ساتھی خود کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ کیا وہ مُلک کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ کیا وہ اپنے دیگر ساتھیوں کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ کیا وہ الطاف حسین کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ کیا وہ پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیوں کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ کیا وہ بیرونی سیکیورٹی ایجنسیوں کو دھوکہ دے رہے ہیں؟

ایک صورتحال یہ بھی ہے کہ رینجرز اور دیگر سیکیورٹی اداروں کی جانب سے جہاں فاروق ستار اور خواجہ اظہار الحسن کو رہا کر دیا گیا۔ وہاں کچھ لوگوں کو رہا نہیں کیا جا رہا ہے۔ یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ یہ دو عملی پالیسی کیوں ہے۔ کیا تفریق ہے کہ کس کو رہا کیا جائے گا۔ اور کس کو رہا نہیں کیا جا ئے گا۔ رہائی اور گرفتاری کے کیا پیمانے ہیں۔ کیا جو فاروق ستار کے ساتھی ہیں۔ انہیں رہا کیا جا رہا ہے اور جو بدستور الطاف حسین کے حامی ہیں انہیں گرفتار کیا جا رہا ہے۔ کیا جو لندن کے احکامات ماننے پر بضد ہیں انہیں گرفتار کیا جا رہا ہے اور جو پاکستان کے احکامات ماننے پر تیار ہیں انہیں رہا کیا جا رہا ہے۔ کیا گرفتار اور رہا کرنے کے حوالہ سے دو مختلف لسٹیں ہیں۔ یہ ایک مبہم پالیسی ہے۔ جو انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتی۔ اس ضمن میں اداروں کو انصاف پر مبنی اور ایک واضح پالیسی بنانی چاہئے، جس میں کوئی ابہام نہ ہو۔
الطاف حسین کی تصاویر اور تصاویر والے بڑے بڑے بورڈ ان کے دفاتر اور سڑکوں سے ہٹا دیئے گئے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ان تصاویر کے ہٹانے پر ایم کیو ایم نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ ورنہ اگر پہلے والے حالات ہوتے تو ان تصاویر اور بورڈز کو ہٹانے پر کراچی میں ہنگامے و فساد ہو جاتے۔ آسمان سر پراٹھا لیا جاتا۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر فاروق ستار اور ان کے ساتھی یہ تصاویر اور بل بورڈز نہیں ہٹا رہے۔ تو ان کی مرضی سے ہٹائے جا رہے ہیں۔ اِسی لئے ان کے ہٹائے جانے پر سکون ہے، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ایم کیو ایم خود یہ بورڈ نہیں ہٹا رہی۔ ایم کیو ایم ان بورڈز کو ہٹانے کا کریڈٹ لینے کو بھی تیار نہیں ہے، بلکہ وہ ان بورڈز کے ہٹائے جانے کے معاملے سے خود کو فاصلہ پر رکھے ہوئے ہے۔

پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کی سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ کراچی کے لوگ بار بار الطاف حسین کو ووٹ دیتے ہیں۔ حساس اداروں کی جانب سے الطاف حسین کے بارے میں حقائق منظر عام پر لانے کے باوجود لوگ الطاف حسین کو کیوں ووٹ دیتے ہیں۔ کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ کراچی کے لوگ حساس اداروں اور سیکیورٹی اداروں کی کہانی کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنے الزامات ابھی تک عدالتوں میں ثابت نہیں کئے۔ اس حوالے سے نظام انصاف کی کوتاہیاں بھی حائل ہیں، لیکن اس کا ملک و قوم کو نقصان ہو رہا ہے۔ سوال اب بھی یہی ہے کہ کیا الطاف حسین کا ووٹ بنک قائم ہے۔ کیا پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگانے کے بعد بھی کراچی کے عوام الطاف حسین کو ووٹ دینے کے لئے تیار ہیں۔ اگر فرض کر لیا جائے کہ الطاف حسین کا ووٹ بنک اب بھی قائم ہے۔ تو کیا کرنا چاہئے۔ یہ ایک مشکل سوال ہے، جس کا جواب شاید اس وقت کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔

شاید فاروق ستار بھی اِسی لئے محتاط ہیں کیونکہ انہیں علم ہے کہ الطاف حسین سے بغاوت کا کوئی فائدہ نہیں۔ ان کا حال بھی انہی جیسا ہو گا، جنہوں نے اس سے پہلے الطاف حسین سے بغاوت کی ہے۔ کیا فاروق ستار اس وقت ڈبل ایجنٹ ہیں۔ کیا وہ بیک وقت الطاف حسین کی بھی مجبوری ہیں اور پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کے پاس بھی ان کے ساتھ چلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ پلان صرف یہ ہے کہ فاروق ستار کو چلایا جائے ۔ کہ وہ اتنے مضبوط ہو جائیں اور دوسری طرف الطاف حسین کی بھی خواہش ہو گی کہ فاروق ستار اس بحران کو سمیٹ لیں۔ پھر بادشاہت دوبارہ مجھے دے دیں۔

الطاف حسین نے دوبارہ وہی خطاب امریکہ میں کیا ہے، جس کی و جہ سے ان کو پاکستان میں مشکلات ہیں۔ ان کے دوبارہ خطاب سے ظاہر ہو تا ہے کہ ان کے نزدیک ان کا پہلا خطاب کوئی غلطی نہیں تھا ۔ یہ الطاف حسین کی سوچی سمجھی پالیسی ہے اور وہ اس پالیسی پر قائم ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کیا پالیسی ہے۔ اس ضمن میں مختلف تھیوریاں ہیں۔ ایک تھیوری یہ ہے کہ کراچی سے بھتہ جانا بند ہو گیا ہے۔ اِس لئے اس وقت الطاف حسین کا صرف را کے فنڈز پر گزارا ہے۔ اور اس وقت را نے انہیں جارحا نہ موڈ میں جانے پر مجبور کیا ہے۔ اور وہ را کی ماننے پر مجبور ہیں، لیکن جہاں الطاف حسین راء کی زبان بولنا چاہتے ہیں تا کہ وہ ایک گریٹ گیم کا حصہ رہیں۔ وہاں وہ کراچی میں اپنا انفرا سٹرکچر بھی قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ اِس لئے انہوں نے اپنی پاکستان اور عالمی پالیسی کو الگ الگ کر دیا ہے، لیکن شاید الطاف حسین کی بھی یہ ڈبل گیم نہ چل سکی اور وہ دوبارہ کراچی کا انتظام سنبھال کر فساد کروانے پر مجبور ہو جائیں۔ اِس لئے شاید فاروق ستار پر ایک حد سے زیادہ اعتبار نہیں کیا جا رہا ہے۔ دفاتر کو سیل کرنے کا عمل جاری ہے۔ گرفتاریاں جاری ہیں۔ آپریشن کلین اپ جاری ہے اور فاروق ستار کو یہ آپریشن کلین اب چپ کر کے برداشت کرنا ہے۔ فاروق ستار کے لئے یہ ایک مشکل کام ہے۔ اسی لئے وہ گھر میں نہیں رہ رہے۔ ہوٹل میں رہ رہے ہیں، کیونکہ انہیں 
پتہ ہے وہ مسافر ہیں۔

مزمل سہروردی

Post a Comment

0 Comments