Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

افغان مہاجرین : ’ایک بار پھر ٹینٹ میں واپسی کا وقت ہے‘

پاکستان کی اس درخواست پر کہ اس کے ملک میں مقیم تقریباً 30 لاکھ افغان
مہاجرین ملک سے واپس چلے جائیں، اس کے سرحدی علاقوں میں جہاں بد نظمی کا ماحول ہے وہیں افغانی پناہ گزین بھی غیر یقینی صورت حال کا شکار ہیں۔ ان میں سے بہت سے افغانیوں نے تو پوری زندگی پاکستان میں ہی بسر کی ہے۔ بی بی سی کے نامہ نگار الیاس خان نے پشاور سے یہ تجزیاتی رپورٹ تیار کی ہے۔
نور محمد کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ افغانستان واپس جانے پر انھیں کس قدر سخت حالات کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن پھر بھی وہ واپسی کے لیے گذشتہ تین روز سے قطار میں کھرے ہوئے ہیں۔ نور محمد اپنے خاندان کے ہمراہ سنہ 1979 میں پاکستان منتقل ہوئے تھے. وہ سنہ 1979 میں روسی افواج کے افغانستان پر حملے کے فوراً بعد پاکستان بھاگ کر آئے تھے۔ وہ ایک گاؤں بغلان کے رہائشی تھے،گن شپ سے لیس ہیلی کاپٹر ان کے وہاں کے مکانات کی چھتوں پر منڈراتے رہتے تھے۔

اس وقت ان کی عمر 12 یا 13 سال کی تھی لیکن اپنے خاندان کے ساتھ ہونے والا وہ سفر انھیں اچھی طرح سے یاد ہے۔ انھوں نے بتایا: ’ہم پہاڑوں پر چڑھے اور جنوب کی جانب چلنا شروع کیا۔ ہم کئی روز تک چلتے رہے۔ کئی بار پیدل، کبھی کبھی راستے میں ملنے والے ٹرکوں پر یا پھر خچّروں پر سوار ہوکر راستہ طے کیا۔‘ اب 37 برس بعد انھیں دوبارہ واپس جانا ہے کیونکہ جس ملک میں ان کا خیر مقدم کیا گيا تھا وہاں وہ مقررہ وقت سے زیادہ ٹھہر چکے ہیں۔ ان کا یہ سفر اب اتنا مشکل تو نہیں ہوگا جتنا انھوں نے بچپن میں آنے کے لیے جھیلا تھا لیکن واپس جانا آسان بھی نہیں ہے۔ جب میں گذشتہ ہفتے نور اور ان کے خاندان سے ملا تو انھیں ان ٹرکوں کی قطار کے پیچھے انتظار کرتے تین روز ہو چکے تھے جو پشاور میں اس کام کے لیے اقوام متحدہ کے آپریشن سینٹر تک پہنچنے کے لیے لائن میں لگے تھے۔ اور ایسا لگ رہا تھا کہ ان کا نمبر آنے میں ابھی کئی دن لگ سکتے ہیں۔ انھیں بہت افسوس اور غصہ تھا وہاں موجود بعض لوگوں کو تو قطار میں لگے ایک ہفتے کا وقت گزر چکا تھا۔ وطن واپسی کے لیے قائم کیے گئے اس مرکز کے پاس میں نے روڈ پر قطار میں کھڑے ہو کر تقریباً 200 ٹرکوں کی گنتی کی۔ ان ٹرکوں میں سے تقریباً 400 خاندانوں یا پھر 3000 افراد کا گھر کا سامان بھرا ہوا تھا۔   پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے اور پاکستانی حکام نے یہ بات تسلیم کی کہ وہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی وطن واپسی کے بارے میں تیار نہیں تھے اور صورت حال ان کے قابو سے باہر ہوگئی ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے پاکستان کو اپنا مسکن بنا لیا تھا۔ انھیں اس بات کا خدشہ ہے کہ افغانستان میں اب بھی صحت، تعلیم، تجارت اور روزی روٹی کے لیے حالات اس طرح کے سازگار نہیں ہیں جس طرح سے یہ سہولیات پاکستان میں میسر تھیں۔
تو پھر یہ لوگ کیوں واپس جا رہے ہیں؟
اس کا جواب پناہ گزينوں سے متعلق پاکستان کی پالیسوں میں تبدیلیاں ہیں۔ سنہ 70 کے عشرے میں تو پاکستان نے پناہ گزینوں کا بڑے والہانہ انداز میں خیرمقدم کیا تھا۔ اس زمانے میں ایران میں بھی بہت سے پناہ گزین کوچ کر کے گئے تھے لیکن وہاں انھیں پناہ گزینوں کے کیموں سے باہر نہیں نکلنے دیا گیا اور نہ ہی انھیں کسی بھی طرح کی سیاست کرنے کی اجازت تھی لیکن اس کے برعکس پاکستان میں وہ آزاد تھے۔ انھیں مقامی لوگوں سے گھلنے ملنے کی اجازت ملی اور ان اسلامک کیمپوں سے رابطے بڑھانے کے لیے بھی حوصلہ افزائی کی گئی جو افغانستان میں کمیونسٹوں سے مزاحمت پر آمادہ تھے۔ زیادہ تر پناہ گزین قبائلی پشتون تھے اور پاکستان کی پشتون آبادی میں بہت جلدی گھل مل گئے۔ اسی مزاحمت کے پیش نظر وہ آسانی سے اپنی افغان قومیت کی شناحت کے بجائے پاکستان کی جانب سے اسلامی شناخت پر زور دینے کی پالیسی سے متفق ہوجاتے۔

کہا جاتا ہے کہ روایتی طور پر افغانستان کا جھکاؤ انڈیا کی طرف رہا ہے اور اس کو توڑنے کے لیے بھی پاکستان نے افغان مہاجرین کا والہانہ استقبال کیا۔ اس کے نتیجے میں اسے اپنے پشتون علاقوں میں اٹھنے والے زیادہ خود مختاری کے مطالبے کو بھی کمزور کرنا تھا جو روز برز زور پکڑتا جا رہا تھا۔  بعض حکومتی حلقوں کا تو یہاں تک خیال تھا کہ پشتون کہیں علحیدہ ریاست کا مطالبہ نہ شروع کر دیں۔ لیکن اس بارے میں نائن الیون کے بعد شک و شبہات اس وقت پیدا ہونے شروع ہوئے جب پاکستان مخالف طالبان کا ایک دھڑا ان محفوظ علاقوں میں سر اٹھانے لگا۔ اسی کے بعد سے ہی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی پناہ گزینوں سے متعلق تبدیل ہونے لگی۔ ابتدا میں افغانستان کے ساتھ بڑھتی کشیدگی کے باوجود بھی اسے مہاجرین کو واپس بھیجنے کی اتنی جلدی نہیں تھی۔

پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے نے وطن واپسی کے متعلق سنہ 2002 میں ایک پروگرام شروع کیا تھا لیکن پاکستان اور یو این کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ عمل بہت سست رو تھا۔ پاکستان نے کئی بار سختی دکھانے کے لیے مہاجرین کی وطن واپسی کے لیے وقت مقرر کیا کہ وہ اس وقت تک ملک چھوڑ کر چلے جائیں لیکن اس بارے میں عملی طور پر پہلے کبھی ایسی سختی نہیں کی گئی کیونکہ اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ وطن واپسی کا عمل رضامندی سے ہونا چاہیے زبردستی نہیں۔ سخت فیصلہ دسمبر 2015 میں کیا گیا جب ایسے پناہ گزینوں کو چھ ماہ کے اندر اندر ملک چھوڑنے کے لیے کہا گیا۔ پھر جون میں اس میں چھ ماہ کی پھر سے توسیع کی گئی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی افغانستان کے ساتھ ملحقہ طورخم سرحد کو بھی بند کر دیا گیا اور اس بات پر پابندی عائد کر دی گئی کہ کوئی بھی افغان بغیر مناسب سفری دستاویزات کے سرحد نہیں پار کر سکتا ہے۔

اس پابندی کا مطلب یہ تھا کہ اس بار پاکستان اپنی پالیسی میں سنجیدہ ہے اور اس پر عمل کرنا چاہتا ہے چنانچہ اس نے نور محمد کو واپس جانے کے لیے قائل کر ہی لیا۔ نور محمد کہتے ہیں: ’ہمارے خاندان کے کچھ لوگ گرمیوں میں کابل گئے تھے جہاں وہ پھنس کر رہ گئے ہیں۔ خاندان میں 40 لوگ ہیں اور ہمارے پاس پورے خاندان کے پاسپورٹ بنوانے کے لیے پیسے ہی نہیں اس لیے ہم نے سوچا اب واپس جانے کا وقت آگیا ہے۔‘ادھر پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر وطن واپسی کے پروگرام کے لیے اپنی فیس بھی ڈبل کردی ہے۔ پہلے یہ ایک فرد کے لیے 200 ڈالر تھی جو اب 400 ڈالر ہوگئی ہے۔
لیکن ایسے بہت سے افغان پناہ گزینوں کا مستقل غیر یقینی کا شکار ہوگيا ہے۔

21 سالہ خالد امیری پاکستان میں اس وقت سے رہ رہے ہیں جب ان کی عمر صرف پانچ ماہ کی تھی۔ اب وہ پشاور یونیورسٹی میں پوسٹ گریجیویٹ کے طالب علم ہیں اور ان کا نصاب 2017 میں ہی ختم ہوگا۔ خالد کی طرح ہی دیگر تقریباً 9000 افغان مہاجرین طلبا صوبہ خیبر پختونخواہ میں زیر تعلیم ہیں اور انھیں نہیں معلوم کی انھیں اپنی تعلیم مکمل کرنے کی اجازت ہوگی یا نہیں۔ خالد کا کہنا ہے کہ افغان مہاجرین کو زبردستی افغان بھیجنے کے پیچھے در اصل پاکستان میں بڑھتی ہو ئی افغان فوبیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب پاکستانی پولیس افغان مہاجرین کو ہراساں کرنے لگی ہے اور دسمبر 2014 میں پیشاور میں آرمی سکول پر حملے کے بعد سے پاکستان میں بسنے والے افغانیوں کے خلاف نفرت کی مہم چلائی جا رہی ہے۔
نفرت کی اس لہر کا عکس سوشل میڈیا میں پر بھی نظر آتا ہے اور افغان مہاجرین کو پاکستان سے نکالنے کے لیے وہاں پر بھی مہم چلتی دیکھی گئی ہے۔ افغانی تاجروں کے لیے تو جیسے راستے ہی بند ہوگئے ہیں۔.

محمد اسماعیل کے والد 1983 میں غزنی میں نوادرات کی اپنی دوکان چھوڑ کرکے پشاور آگئے تھے۔ یہاں انھوں نے اپنا کاروبار ازسرِ نو شروع کیا جو پھلتا پھولتا گیا اور پھر وہ اپنا سامان یورپ جیسے ممالک کو برآمد کرنے لگے۔ لیکن طورخم کی سرحد بند ہونے کے سبب جب جون میں ان کے لڑکے کابل گئے تو وہیں پھنس کر رہ گئے۔ اب انھوں نے افغانستان کا پاسپورٹ حاصل کر لیا ہے اور ان کے پاس پاکستان کا ویزا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب وہ پاکستان میں افغان پناہ گزین نہیں رہے۔ اب انھیں پھر سے سب کچھ دوباہ شروع کرنا ہوگا جیسے انھوں نے 33 برس قبل کیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہماری سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ جو سامان ہمارے پاس ہے اس کی کوئی مناسب قیمت بھی نہیں دے گا کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ ہم تو پریشان ہیں ہمیں کسی بھی صورت میں یہ بیچنا ہے۔‘باریالئے میانخیل افغان پناہ گزینوں کے ایک رہنما ہیں۔ کہتے ہیں کہ انھیں امید کہ افغان مہاجرین اور پاکستان میں ان کے گروہوں کے لیے زندگی آسان بنانے کی غرض سے یو این ایچ سی آر، پاکستانی حکام اور افغان حکومت پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے لیے ایک ایسا باقاعدہ پروگرام مرتب کریں گے جو تین یا چار برس پر مشتمل ہوگا۔ اس بات کے اشارے تو ملتے ہیں کہ ان کی بات درست ہوسکتی ہے لیکن پھر بھی پناہ گزینوں کی بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔

اور وہ لوگ جو افغانستان میں افغانیوں کی وطن واپسی کے منتظر ہیں ان سے بھی کسی ہمدردی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ وہ ان کا گلدستے سے استقبال نہیں کریں گے بلکہ وہ ٹرانسپورٹر، پراپرٹی ڈیلر اور تاجر ہیں جو شکاریوں کی طرح ان کی تاک میں ہیں۔ وہ ان سے وہ سب کچھ بھی چھیننے کی تاک میں ہیں جو کچھ ان کے پاس بچ گیا ہے۔  نور محمد کو یہ اچھی طرح سے معلوم ہے۔ ’افغان شہروں میں مکانوں کا کرایہ بڑھ کر 300 یا 400 ڈالر تک جا پہنچا ہے اور گاؤں میں ہمارے مکان تو تباہ ہوکر کھنڈر بن چکے ہیں۔‘وہ کہتے ہیں کہ افغانستان پہنچ کر ان کی پہلی ترجیج کوئي جھونپڑی تعمیر کرنی ہے کیونکہ سردیوں کا موسم قریب ہے اور اس کے بغیر گزارا مشکل ہے۔ اسے وقت کی ستم ظریفی ہی کہیں گے کہ جب تک نور محمد کوئی ٹوٹا پھوٹا آشیانہ تعمیر نہیں کرتے اس وقت تک ان کے خاندان کو ایک ٹینٹ میں رہنا ہوگا۔ اس سے انھیں 37 برس قبل کا وہی وقت یاد آتا ہے جب وہ پاکستان آکر اقوام متحد کے ذریعے کھڑے کیے گئے ٹینٹ میں پناہ لی تھی۔

انھوں نے کہا: ’ہمارے لیے ایک بار پھر ٹینٹ میں واپسی کا وقت ہے۔‘

بشکریہ بی بی سی اردو

Post a Comment

0 Comments