Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

کیا سوشل میڈیا شامی بچوں کو بچا سکتا ہے؟

شام کے شہر حلب میں فضائی بمباری کا نشانہ بننے والے پانچ سالہ عمران دقنیش
کی خون آلود تصویر سوشل میڈیا پر پھیلنے کے بعد ایک بار پھر جنگ اور بچوں کے حوالے سے آن لائن بحث چھڑ گئی ہے۔ عمر دقنیش پہلا شامی بچہ نہیں جس کی تصویر رواں ماہ سوشل میڈیا پر ہزاروں بار شیئر کی گئی ہے۔ ٹوئٹر پر شروع کی جانے والی ایک مہم کے ذیعے شام کے محصور شہر مدایا میں ایک زخمی لڑکی کا انخلا ممکن ہوا تھا۔  اس کے لیے ہیش ٹیگ ’سیو غنا‘ یعنی غنا کو بچاؤ استعمال کی گئی تھی، جسے تقریبا 34 ہزار سے زائد افراد نے استعمال کیا اور اس کا مقصد دس سالہ غنا وادی کو بچانا تھا۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل کا کہنا تھا کہ وہ جب اپنی ماں کے لیے دوائی لینے باہر گئی تو ایک نشانہ باز نے اس پر گولی چلائی۔
 ہیش ٹیگ ’سیو غنا‘ کو تقریباً 34 ہزار سے زائد افراد نے استعمال کیا.
ابتدائی طور پر شامی حکومت نے غنا کو طبی امداد کے لیے شہر چھوڑنے کی اجازت نہیں دی، لیکن سوشل میڈیا پر مہم اور ایمنیسٹی انٹرنیشنل اور اقوام متحدہ سمیت امدادی کارکنوں کے دباؤ کی وجہ شامی ریڈ کریسنٹ کے زیرانتظام انھیں علاج کے لیے شام منتقل کیا گیا۔ مدایا دمشق کے شمال میں 25 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور سنہ 2015 کے وسط سے حکومتی فوجوں اور ان کے اتحادی لبنانی مسلح گروہ حزب اللہ کے محاصرے میں ہے۔ امدادی اداروں کی جانب سے وہاں کی صورتحال کو ’نازک‘ قرار دیا گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ تقریبا چار لاکھ افراد کو اشیائے خورونوش اور ادویات کی کمی کا سامنا ہے۔ غنا وادی کی کہانی منظرعام پر آنے اور سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد ایسی ہی صورتحال کا شکار کئی بچوں کی ویڈیوز سامنے آئی ہیں جس میں انخلا کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
یمن از الدین کا ویڈیو کلپ فیس بک پر تقریباً 5500 مرتبہ دیکھا جاچکا ہے. 15 اگست کو فیس بک کے ایک گروہ ’ہیش ٹیگ ریوولوشن‘ نے ایک ویڈیو شیئر کی جس میں مبینہ طور پر مدایا کے ایک بچے یمن از الدین کو دکھایا گیا۔ اس بچے کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ گردن توڑ بخار کا شکار ہے۔ ویڈیو میں ایک شخص اپنا تعارف ایک ڈاکٹر کے طور پر کرواتا ہے جبکہ بستر پر لیٹا چلا رہا ہے، وہ شخص بتاتا ہے کہ ’اس لڑکے کو سخت بخار ہے۔ اگر ایسے ہی رہا تو یہ اپنی بینائی کھو سکتا ہے یا مفلوج ہوسکتا ہے۔‘یہ ویڈیو کلپ فیس بک پر تقریباً 5500 مرتبہ دیکھا جاچکا ہے اور اس کے اختتام میں ڈاکٹر اقوام متحدہ اور سیریئن ریڈ کریسنٹ سے اپیل کرتا ہے کہ اس کی جانب بچا لی جائے۔

 شام کی خانہ جنگی میں ہلاک ہونے والے بچوں کو خراج عقیدت بھی پیش کیا جارہا ہے. ہیش ٹیگ ریوولوشن کے صفحے پر ایک اور ویڈیو موجود ہے جس میں نسرین الشمع نامی لڑکی کی ماں اس کے انخلا کی اپیل کرتے دکھایا گیا ہے۔ ماں کیمرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہتی ہے کہ اس کی بیٹی 25 دن سے بیمار ہے اور وہ ہل سکتی ہے نہ دیکھ سکتی ہے۔  اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ حلب میں ہزاروں کی تعداد میں بچوں کو بیماریوں کا شکار ہونے کا خدشہ ہے جبکہ اقوام متحدہ کی خصوصی ایلچی برائے شام سٹیفن ڈی مستورہ نے لڑائی روکنے کے لیے کی جانے والی ناکافی اقدامات پر تمام فریقین پر غصے کا اظہار کیا ہے۔

Post a Comment

0 Comments