Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

قفل زدہ نائن زیرو کی ویران گلیاں

کراچی کے علاقے عزیز آباد میں ایم کیو ایم کا سیکریٹریٹ باہر سے تو بند ہے،

لیکن عمارت کے اندر لائٹس اور پنکھے چل رہے ہیں۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ رینجرز کے چھاپے کے وقت یہاں انھیں بند کرنے بھی مہلت نہیں دی گئی۔
ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کی والدہ خورشید بیگم کے نام سے منسوب اس طویل عمارت میں رابطہ کمیٹی کے علاوہ دیگر شعبوں کے دفاتر بھی واقع ہیں جبکہ پریس کانفرنس کے لیے بھی اس کا ہال استعمال کیا جاتا تھا۔

ایم کیو ایم کے اس سیاسی قلعے میں تین داخلی دروازے ہیں اور اب تینوں کو سیل کر دیا گیا ہے۔ آس پاس کی دیواروں پر الطاف حسین کی جو دیو قد آمت تصاویر موجود تھیں وہ پھاڑ دی گئیں تھیں جبکہ ایم کیو ایم کے متعلق خبروں کے تراشے زمین پر پھیلے ہوئے تھے۔ دروازے کے ساتھ ہی کچھ کتابیں موجود تھیں جن میں انڈیا اور دنیا سے الطاف حسین کی اہم تقریر، انھیں پتھروں پر چل کر، سہمے ہوئے لوگ، سیاستدانوں اور جنرلوں میں اقتدار کی کشمکش جیسی کتب شامل تھیں۔ خورشید بیگم سیکریٹریٹ کے سامنے ایم کیو ایم کے فلاحی ادارے خدمت خلق فاؤنڈیشن کی ایک ایمبولینس دوپہر تک موجود تھی جس کے ڈرائیور کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا جبکہ سامنے ہی ایک پولیس موبائل تعینات تھی۔ گذشتہ کئی سالوں میں یہ پہلی بار ہوا کہ پولیس اس عمارت کے اتنا قریب آئی ہو۔
نائن زیرو اور آس پاس کی سکیورٹی کے معاملات ایم کیو ایم کے کارکن خود سنبھالتے آئے ہیں، جو جدید مواصلاتی نظام سے لیس تھے اور نگرانی کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے نصب تھے، جبکہ اندر آنے والی ہر گلی پر لوہے کے بیئریر موجود ہیں۔ لیکن آج ان پر ڈیوٹی دینے والے کارکن کہیں نظر نہیں آئے۔
گذشتہ جمعرات کو خورشید میموریل سیکریٹریٹ میں ڈاکٹر فاروق ستار سے ملاقات ہوئی تھی اور وہاں تک پہنچنے کے لیے تین جگہ ان چوکیوں سے گذرنا پڑا تھا لیکن آج یہاں آنے جانے والے کسی بھی فرد سے کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ یہاں کی گلیوں میں گھنٹوں کی مہلت پر خواتین اور مرد کارکن جمع ہوجاتے تھے، جہاں دن رات کی پرواہ کیے بغیر الطاف حسین خطاب کرتے تھے لیکن آج یہ گلیاں ویران تھیں۔

اسی علاقے میں الطاف حسین کی رہائش گاہ نائن زیرو بھی واقع ہے، جس کے دونوں داخلی راستوں پر بھی تالے پڑے تھے۔ گذشتہ تین دہائیوں سے یہ ایم کیو ایم کا سیاسی قبلہ رہا ہے جہاں بینظیر بھٹو، نواز شریف ، آصف علی زرداری سمیت کئی اہم سیاسی شخصیات حکومت سازی اور حکومت مخالف تحریکوں کا حصہ بننے کی دعوت دینے کے لیے آتی رہے ہیں لیکن اب یہ نو گو ایریا ہے۔
ایک 50 سالہ شخص موبائیل فون کی کیمرے سے اس بند گھر کی تصویر بناتا نظر آیا اور ہمارے قریب آ کر پوچھا کہ کیا یہ بھائی کا گھر ہے؟ میں نے پوچھا کہ وہ کہاں سے آئے ہیں انھوں نے بتایا وہ بھنگوریا گوٹھ میں رہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ تقریباً ایک کلومیٹر دور واقع اس آبادی کا رہائشی پہلی بار یہاں آیا تھا۔

گذشتہ روز رینجرز نے ایم کیو ایم مرکز سمیت تمام دفتر کو سیل کر دیا تھا
نائن زیرو کے قریب چند بچے موجود تھے جو گذشتہ شب ڈاکٹر فاروق ستار اور رینجرز حکام میں ہونے والے مکالمے کو دہرا رہے تھے، جس کے بعد رینجرز افسر ڈاکٹر فاروق ستار کو زبردستی اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ مقامی لوگوں نے شکایت کی کہ رینجرز کے چھاپے کے بعد سے ان کی ٹی وی کیبل منقطع ہے جس کی وجہ سے انھیں تازہ صورتحال کے بارے میں آگاہی نہیں جبکہ کیبل آپریٹرز بھی لائن مرمت کرنے کی ہمت نہیں کر رہے ہیں۔ رکن الدین 1992 سے نائن زیرو پر ملازمت کر رہے ہیں تالہ بندی کے باوجود وہ اپنی فرائص کی انجام دہی کے لیے باہر موجود تھے۔ انھوں نے بتایا کہ گذشتہ رات رینجرز آئی اور کچھ سامان اپنے ساتھ لے گئی۔ بقول ان کے یہ تو 1992 سے ہو رہا ہے ان کے لیے نئی بات نہیں تھی۔

’ہم نے پاکستان بنایا تھا میرا خود کا آدھا کنبہ کوئی بیس پچیس لوگ کٹ گئے، بس یہ ہی چل رہا ہے تعصب بازی۔‘ رکن الدین کے ساتھ محمد صدیق اختر موجود تھے جن کا دعویٰ تھا کہ انھوں نے فوج میں بھی ملازمت کی ہے۔ انھوں نے موجودہ صورتحال یہ مثال دیکر بیان کرنے کی کوشش کی کہ ایک طاقت ور مچھلی کمزور کو نگل جاتی ہے کیونکہ وہ اس کو ابھرتے نہیں دیکھ سکتی۔ گذشتہ ڈیرہ سال کے عرصے میں نائن زیرو پر رینجرز کا یہ تیسرا چھاپہ تھا لیکن اس بار ایم کیو ایم کے سیاسی، انتظامی اور اطلاعات کے شعبوں کو غیر فعال کردیا گیا ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار کی پریس کانفرنس سے پہلے تک پارٹی قیادت گرفتار تھی یا زیر زمین جاچکی تھی۔

گذشتہ ڈیرہ سال کے عرصے میں نائن زیرو پر رینجرز کا یہ تیسرا چھاپہ تھا
متحدہ قومی موومنٹ کی تمام اہم پریس کانفرنسیں نائن زیرو یا خورشید میموریل سیکریٹریٹ میں ہوتی رہی ہیں جہاں بعض اوقات صحافیوں کو کئی کئی گھنٹے انتظار بھی کرنا پڑتا تھا۔ دونوں عمارتوں کی تالہ بندی کی وجہ سے ڈاکٹر فاروق ستار نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کی جس میں مطالبہ کیا کہ ایم کیو ایم کے مرکزی دفتر سمیت دیگر دفاتر کو کھول دیا جائے۔ پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران ڈاکٹر فاروق ستار کو صحافیوں کے سخت سوالات کا نہیں بلکہ سخت رویے کا سامنا کرنا پڑا۔ صحافی فاروق ستار کے صحافتی کارکنوں پر حملے پر معذرت اور حملہ آورں سے لاتعلقی کا اظہار کرنے کے باوجود، نعرے بازی کرتے رہے۔

ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

Post a Comment

0 Comments