Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

گولن تحریک کیا ہے؟

استنبول کے علاقے سیسلی میں ایک سکول کے باہر ہاتھ سے لکھا ہوا پرچہ ہوا
میں پھڑپھڑا رہا ہے۔ اس پر لکھا ہے: ’ہنگامی حالت کے نفاذ کے پیشِ نظر یہ تعلیمی ادارہ بند کر دیا گیا ہے اور اس کی جائیداد حکومت کے سپرد کی جا چکی ہے۔‘ دستخط کے اوپر نوٹری کی سرخ مہر چسپاں ہے۔ اس سکول کا شمار ان 1700 سکولوں میں ہوتا ہے جو یا تو اسلامی مبلغ فتح اللہ گولن کی تحریک کے ہیں یا پھر ان سے کسی طریقے سے وابستہ ہیں۔ ان سکولوں کو گذشتہ دو ہفتوں میں دہشت گردی کی نرسریاں قرار دے کر بند کر دیا گیا ہے۔

 ناکام بغاوت کے بعد سے فوج، تعلیمی ادارے، عدلیہ، غیر سرکاری ادارے، پولیس اور نجی کاروباری ادارے تک ایک زبردست چھانٹی کی زد میں ہیں۔ میڈیا کے مطابق 113 ادارے بند کیے جا چکے ہیں، 1700 فوجیوں کو برخارست کیا جا چکا ہے، جن میں ترکی کے نصف جنرل اور ایڈمرل شامل ہیں۔ 16 ہزار لوگ زیرِ حراست ہیں۔ اور تو اور ترکش ایئرلائن کے 250 اہلکاروں کو بھی برطرف کر دیا گیا ہے ان سب پر الزام ہے کہ وہ فتح اللہ گولن کے حامی ہیں۔ ترکی میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے سمجھنے کے لیے گولن تحریک کو سمجھنا بےحد ضروری ہے۔ گولن کے پیروکار گذشتہ چار دہائیوں سے ترکی کے اداروں میں پھیلتے رہے ہیں۔ فتح اللہ گولن 1960 کی دہائی میں آئینی طور پر سیکیولر ترکی میں ایک اسلامی مبلغ کے روپ میں ابھر کر سامنے آئے تھے۔ ان کے حامی انھیں متعدل اسلام کا انسان دوست نمائندہ سمجھتے ہیں، جو اپنے نظریات ترکی اور 140 دوسرے ملکوں میں قائم اعلیٰ درجے کے سکولوں کے نیٹ ورک کے ذریعے پھیلا رہا ہے۔
 ناقدین کا الزام ہے کہ انھوں نے ایک خطرناک مسلک تشکیل دے دیا ہے جو ترک ریاست کے تمام شعبوں میں سرایت کر چکا ہے، اور جو حالیہ انقلاب کی کوشش کے دوران بےنقاب ہو گیا۔ حالیہ چھانٹیوں سے قبل اس تنظیم کے ارکان کم و بیش ہر ادارے میں کھپے ہوئے تھے۔ ترکی میں امریکی سفیر کی جانب سے 2009 میں بھیجی جانے والی ایک کیبل کے مطابق ’یہ دعویٰ ثابت کرنا ناممکن ہے کہ (قومی پولیس پر) گولن تحریک کا قبضہ ہے، لیکن ہمیں کوئی شخص ایسا نہیں ملا جو اس کی تردید کرتا ہو۔‘ 1999 میں منظرِ عام پر آنے والی ایک دھندلی ویڈیو میں گولن کو یہ کہتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے: ’نظام کی شریانوں میں سرایت کر جاؤ، جب تک تم طاقت کے تمام مراکز تک نہ پہنچو، اس وقت تک کسی کو تمھاری موجودگی کا پتہ نہ چلنے پائے ۔ اس وقت کا انتظار کرو جب ریاست کی تمام طاقت تمھارے ہاتھ میں ہو۔‘

گولن 1999 کے بعد سے امریکہ میں خودساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے الفاظ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ بعض ایسے ترک صحافیوں کو مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ہے جنھوں نے ایسے کسی نیٹ ورک کا پردہ چاک کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان میں سے ایک اسماعیل سایماز ہیں۔ انھوں نے مجھے بتایا: ’گولن تحریک ریاست کو اندر سے گھیر کر اس پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ وہ مسلح جنگجو نہیں ہیں بلکہ ججوں، اساتذہ، پولیس، ارکانِ اسمبلی اور تاجروں کا روپ دھارے ہوئے ہیں۔ ’دائیں بازو کی حکومتوں نے گولن کے پیروکاروں کو سیکیولر فوج کے خلاف استعمال کیا ہے۔ اس تحریک کو رجب طیب اردوغان کے دور میں سب سے زیادہ تقویت ملی۔‘ اردوغان گولن اتحاد واقعی خاصا مضبوط رہا ہے اور انھوں نے سیکیولر ترکی کا چہرہ بدلنے میں شانہ بشانہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ تاہم جب اردوغان کی اے کے جماعت نے اقتدار پر قدم جما لیے تو دونوں کے درمیاں دوریاں بڑھتی چلی گئیں۔ جب 2013 میں کئی ایسی فون کالز منظرِ عام پر آئیں جن میں اردوغان اور ان کے قریبی ساتھیوں کو بدعنوانی میں ملوث دکھایا گیا تھا تو اس کا الزام گولن کے حامیوں پر لگایا گیا۔ حالیہ دنوں میں گولن کے بہت سے حامی ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ انھیں ڈر ہے کہ انھیں پکڑ لیا جائے گا۔ عبداللہ بوزکرت ایک زمانے میں ترکی کا سب سے بڑا گولن نواز میڈیا ادارہ ’زمان‘ چلاتے تھے۔

وہ اس ہفتے بیرونِ ملک منتقل ہو گئے۔ ان کا الزام ہے کہ ’ہر تنقید کرنے والے، اور حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والے صحافی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، چاہے اس کا تعلق گولن سے ہو یا نہ ہو۔‘ وہ سوال کرتے ہیں: ’آپ میڈیا کے ذریعے بغاوت کی سازش کیسے تیار کر سکتے ہیں؟ ’یہ بغیر شواہد کے اجتماعی سزا ہے۔ حکومت متبادل نظریات کو دبانا اور لوگوں کو خوفزدہ کرنا چاہتی ہے تاکہ لوگ سنجیدہ سوال نہ اٹھا سکیں۔‘ انھوں نے گولن تحریک کے بارے میں کہا: ’یہ ایک بین الاقوامی، بین المذاہب مکالمہ ہے۔ میرا نہیں خیال کہ یہ ترکی میں سرایت کر رہی ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ ان کے سکولوں سے فارغ ہونے والے طلبہ کہاں جائیں گے؟ انھیں نجی یا سرکاری اداروں میں کام کرنا ہی تو ہے۔‘

ان کا کہنا ہے: ’آپ کو حکومت کی جانب سے ہر قسم کا پروپیگنڈا سننے کو ملے گا جن میں ویٹیکن یا امریکہ کو موردِ الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ ان کی ذمہ داری ادھر سے ادھر کرنے کی پوری تاریخ ہے۔ گولن تحریک کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔‘ بغاوت کی کوشش نے ترکوں کو متحد تو کر دیا ہے، لیکن بڑے پیمانے پر سزاؤں اور چھانٹیوں سے معاشرے کا ہر طبقہ متاثر ہو رہا ہے۔ صدر اردوغان ایک عرصے سے جس ’اندرونی دشمن‘ کی بات کیا کرتے تھے وہ کسی حد تک درست ثابت ہوئی ہے، لیکن پھر بھی ان پر تنقید کی جا رہی ہے کہ ان کا ردِعمل ضرورت سے زیادہ سخت ہے۔ ترک حکومت نے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ گولن کو اس کے حوالے کر دے، لیکن امریکہ کا کہنا ہے کہ اسے شواہد کا انتظار ہے۔ گولن کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ایسے کوئی شواہد موجود نہیں ہیں، اور یہ محض ایک امن پسند بین المذہب تنظیم ہے۔ تاہم بغاوت کی کوشش کے بعد سے ترک معاشرے کا بڑا حصہ گولن کے خلاف ہو گیا ہے اور مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ان کی تحریک کے اثرات کو ایک ہی بار جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے۔

مارک لوون
بی بی سی نامہ نگار، ترکی

Post a Comment

0 Comments