Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

پاکستان زندہ باد

مجھ سمیت کسی پاکستانی کو رتی برابر شک نہیں کہ جن لوگوں نے اپنے ’’قائد‘‘ کے کہنے پر اور اس سے مل کر پاکستان کے خلاف نعرے لگائے ان کی تعداد وطن عزیز کی کل آبادی ہی نہیں مہاجر کمیونٹی کے بھی اعشاریہ صفر صفر صفر ایک سے بھی کم ہے اور ان میں سے بھی بدراہ کم اور گم راہ زیادہ ہیں۔ سو ان کی اس افسوسناک حرکت کا سب سے اچھا اور مثبت جواب یہی ہے کہ مل کر پاکستان زندہ باد کا ایک ایسا نعرہ لگایا جائے جس کی بازگشت سے ایسے تمام لوگوں کے منہ بند اور دماغ درست ہو جائیں۔ الطاف حسین کے حوالے سے مائنس ون فارمولا کے ضمن میں یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ انگریزی زبان کے اس ’’مائی نس‘‘ میں ’’نس‘‘ اردو کا ہے جس کا مطلب رگ ہوتا ہے اور الطاف حسین کے معتقدین کے مطابق وہ ان کی نس نس میں سمایا ہوا ہے اور گزشتہ چالیس برس میں ہم نے اس عقیدت مندی کے بہت سے مظاہر بھی دیکھے ہیں۔ جن میں 12 مئی کے واقعے سمیت وہ تمام شٹرڈاؤن اور ہڑتالیں بھی شامل ہیں جو ایم کیو ایم یعنی الطاف حسین کی ایک کال پر پورے کراچی کو اپنے گھیرے میں لے لیتی تھیں۔

ہو سکتا ہے آگے چل کر اس میں کسی حد تک ’’خوف‘‘ کا عنصر بھی شامل ہو گیا ہو لیکن ایک بات طے ہے کہ اپنی ابتدا کے دنوں میں اس کی مقبولیت کی بنیاد وہ چند بنیادی مسائل تھے جو کراچی میں ہجرت کر کے آنے والوں اور ان کے بچوں کو درپیش تھے اور جن کی آواز بن کر الطاف حسین اور اس کے ساتھی منظر عام پر آئے تھے اور دیکھا جائے تو یہی وہ بنیادی وجہ ہے جو آگے چل کر تنظیم، نعروں، انتخابی کامیابیوں اور سیاسی اثرورسوخ کے ساتھ مدغم ہو کر اس جماعت کی مقبولیت اور الطاف حسین سے بے مثال عقیدت کا سبب بنی اور مختلف النوع الزامات، بیانات، تقریروں اور نازک قومی معاملات پر ہرزہ سرائی کے باوجود شخصی سطح پر ابھی تک کسی نہ کسی حد تک اس اندھی عقیدت کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔
سب سے پہلے اس غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے یہ جماعت ضیاء الحق نے بنوائی تھی تا کہ کراچی میں پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کا زور توڑا جا سکے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ جماعت یا مہاجر قومیت کے مسائل اور حقوق کی ترجمانی کے لیے الطاف حسین اینڈ کمپنی کے منظر عام پر آنے سے پہلے بھی کچھ کوششیں ہو چکی تھیں جن میں مہاجر کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے بیورو کریٹ اور میڈیا کے کچھ لوگ شامل تھے جو اپنے طور پر متعلقہ مسائل کو حل کرنے کی تدابیر کر رہے تھے اس دور کی سب سے اہم اور قدرے خطرناک بات ایک اخبار کی وہ اٹھ کالمی سرخی تھی کہ ’’اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘‘۔ یہ کوشش تحریک کا روپ اس لیے نہیں دھار سکی کہ اس کی بنیاد لسانی اور کسی حد تک ثقافتی تھی جس کی اپیل محدود اور منظر غیر واضح تھا کہ اس میں ان غریب مہاجروں اور ان کی اولادوں کو درپیش مسائل کا کوئی ذکر نہیں تھا جو اس اقلیتی اشرافیہ کے مقابلے میں عددی اعتبار سے بہت زیادہ تھے۔ اب ہوا یوں کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد پھوٹنے والے فسادات سے بچ بچا کر جو غریب اور نچلے متوسط طبقوں کے مہاجرین صوبہ سندھ میں آئے ان میں تعلیم کی شرح مقامی لوگوں کی نسبت بہت زیادہ تھی اور تعداد کے اعتبار سے بھی وہ صوبے کے چار بڑے شہروں کراچی، حیدر آباد، سکھر اور میر پور خاص میں ان سے بڑھ گئے۔

بالخصوص کراچی کے بندرگاہ، دارالحکومت اور صنعتی و تجارتی مرکز بن جانے کی وجہ سے یہاں وسائل اور سرکاری و نیم سرکاری، اعلیٰ اور سفید کالر والی ملازمتوں کا دائرہ غیر معمولی طور پر وسیع ہو گیا۔ ساٹھ کی دہائی میں ایک طرف دارالحکومت اور اس متعلق بہت سے دفاتر اسلام آباد منتقل ہو گئے اور دوسری طرف مہاجرین کے بچوں کی ایک ایسی نئی نسل بھی تیار ہو گئی جو تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے صرف ذہنی محنت کے کاموں کو ترجیح دیتی تھی جس سے معاشرتی اور اقتصادی توازن مزید بگڑ گیا۔ دریں اثناء ٹرانسپورٹ اور دیگر جسمانی محنت سے متعلق کاموں کے لیے افرادی قوت کا خلاء پنجاب اور صوبہ سرحد (اب خیبرپختونخوا) کے لوگوں نے پر کرنا شروع کر دیا۔ اس پر مستزاد مقامی سندھیوں کا ردعمل تھا جو اپنے لیے تحفظات چاہتے تھے جس نے کوٹہ سسٹم کو جنم دیا اور یوں اردو بولنے والے تعلیم یافتہ بیروزگاروں کی شرح بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کی ترقی کے مواقع بھی بڑھنے کے بجائے کم ہونے لگے۔

یہ تھی وہ صورتحال جس میں الطاف حسین اور اس کے کچھ ساتھیوں نے مہاجروں کے حقوق کا علم بلند کیا چونکہ ان کے اٹھائے گئے بہت سے مسائل پوری کمیونٹی کے مشترکہ مسائل تھے اس لیے لوگ بالخصوص نوجوان طبقہ تیزی سے ان کی طرف مائل ہونے لگا اور یہی وہ موڑ ہے جس میں ضیاء الحق نے ان پر اپنا دست شفقت رکھا کہ یہ نئی جوشیلی قوت کراچی میں پہلے سے موجود دونوں طاقتوں یعنی پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کے خلاف اس کی دست و بازو بن سکتی تھی۔ اس کے بعد کا احوال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ کس طرح اس کی اعلیٰ قیادت میں موجود اعتدال پسند لوگوں کو (جن میں سے کچھ الطاف حسین کے بنیادی ساتھیوں میں سے تھے) ختم یا علیحدہ کیا گیا اور پھر آہستہ آہستہ یہ پارٹی چند ملک دشمن عناصر کے ہتھے چڑھ گئی حالانکہ اس کی لیڈر شپ میں اب بھی زیادہ تعداد محب وطن اور مہاجرین کے اصل مسائل سے کمٹڈ لوگوں کی ہے جب کہ اس کے عام ممبران جو کروڑوں کی تعداد میں اتنے ہی اچھے اور وطن سے محبت کرنے والے ہیں جتنا کوئی اور ہو سکتا ہے مگر یہ سب کے سب الطاف حسین کی بیمار اور متکبرانہ سوچ کے اس بری طرح سے یرغمال بن گئے ہیں کہ سب کچھ دیکھتے اور جانتے بوجھتے ہوئے بھی کسی کو ’’الطاف بھائی‘‘ سے اختلاف تو کیا ان کے سامنے نگاہ تک بلند کرنے کا حوصلہ نہیں۔

اقتدار کے نشے کا سب سے خطرناک Hang Over یہی ہوتا ہے کہ آدمی اکیلا اور خودپرست ہوتا چلا جاتا ہے۔ الطاف حسین سچ مچ کے خودپرست ہیں یا وہ یہ سب کچھ ہمارے کسی دشمن یا دشمنوں کے کہنے پر کر رہے ہیں۔ اس کا صحیح فیصلہ تو وقت ہی کرے گا مگر ان کا یہ حالیہ بیان ان کے اور ان کے قریب ترین دوستوں کے ساتھ ساتھ مہا جر کاز کے لیے بھی ایک خودکش حملہ آور کی بارودی جیکٹ ثابت ہوا ہے جس نے سب کچھ تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے اور انھوں نے پھر سے ایم کیو ایم کو ’’متحدہ‘‘ سے ’’مہاجر‘‘ اور وہ بھی اشاریہ کچھ فیصد سے کم مہاجر کہلانے والوں تک محدود کر دیا ہے۔ ان کے چند ساتھیوں سے قطع نظر کسی بھی مہاجر یا اس کے بچوں نے انھیں یہ حق نہیں دیا تھا کہ وہ ان کے نام پر ان کے اس نئے پیارے، محبوب اور خود اختیار کردہ ملک کو ’’مردہ باد‘‘ کہیں۔ اول تو ہجرت کے ستر برس اور دونسلیں نکل جانے کے بعد اپنے آپ کو مہاجر کہنا ہی بہت زیادتی کی بات ہے کہ مواخات مدینہ کے بعد انصار اور مہاجر کا تعارف صرف دین محمدیؐ کا رشتہ ہی رہ گیا تھا۔ اگر ایک منٹ کے لیے اسے صرف علامتی حوالے بھی دے دیا جائے تب بھی الطاف حسین کو اب ہمیشہ کے لیے کان کھول کر سن لینا چاہیے کہ اس کی پوری کمیونٹی یک زبان ہو کر ایک ہی نعرہ لگا رہی ہے۔ پاکستان زندہ باد۔ پاکستان زندہ باد

امجد اسلام امجد 

Post a Comment

0 Comments