Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

ناکام بغاوت کی کوکھ سے جنم لینے والا نیا ترکی

برادر اسلامی ملک ترکی میں گزشتہ ماہ جو ناکام فوجی بغاوت کی گئی ذرا غور
کیجیے وہ اگر کامیاب ہو جاتی تو آج ترکی کی صورتحال کتنی مختلف ہوتی۔ صدر رجب طیب اردگان اپنے ہی ملک کے کسی قید خانے کی سلاخوں کی پیچھے باغی فوجیوں کی رحم و کرم پر ہوتے جو اُن کے خلاف کرپشن اور بڑے پیمانے پر مالی بدعنوانیوں کے الزامات لگا کر ’’عدنان مندریس‘‘ کی طرح پھانسی پر لٹکانے کی تیاریاں کر رہے ہوتے۔ اُن کی  اپوزیشن بغاوت کا ذمے دارطیب اردگان کی پالیسیوں اور فیصلوں کو ہی قرار دیتے ہوئے مذمتی بیانات جاری کر رہی ہوتی اور اندرونِ خانہ باغی حکمرانوں سے سازباز کرتے ہوئے نئی حکومت میں اپنے لیے کوئی جگہ تلاش کر رہی ہوتی۔ ملک کے بڑے بڑے دانشور، نقاد اور تجزیہ نگار نئے حکمرانوں کے حق میں قصیدے لکھ رہے ہوتے۔ ملک سے باہر بھی کسی ملک کے رہنما کو نئے فوجی حکمرانوں کے خلاف ایک لفظ کہنے کی بھی توفیق نہ  ہوتی۔ امریکا اور اُس کے اتحادی نئی غیرجمہوری حکومت کوخوش آمدید کہتے ہوئے اُسے ہر طرح کی امداد اور تعاون  کا یقین دلا رہے ہوتے۔ طیب اردگان کی اب تک کی ساری کامیابیوں کو ناکام حکمتِ عملی کے طور پر پیش کر رہے ہوتے۔

اُنہیں بنیاد پرست  اسلامی رہنما قرار دے کر مذمتی بیانات جاری کر رہے ہوتے۔ بلکہ اندرونِ خانہ اُنہیں سولی پہ چڑھانے کی سازشیں کر رہے ہوتے، مگر بغاوت کی ناکامی نے آج سارا نقشہ  ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ طیب اردگان ایک مضبوط اورطاقتور حکمران کی حیثیت سے اُبھر کے سامنے آ  چکے ہیں اور آیندہ کسی ممکنہ فوجی بغاوت کے تمام امکانات کاخاتمہ کرنے کے لیے کمربستہ  ہیں۔ فوج کوسول حکومت کے تابع کرنے  کے لیے اُنہوں نے اہم اور ٹھوس اقدامات کر لیے ہیں۔ بغاوت میں ملوث کسی فوجی کو کوئی رعایت دینے کے حق میں وہ دکھائی نہیں دیتے۔ وہ اُنہیں سخت سے سخت سزا دینے  کے لیے قانون بنا رہے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ فوج جب چاہے کسی سول حکومت کا دھڑن تختہ کر کے اُس کے صدر یا وزیرِ اعظم کو پھانسی لگا دے اور دنیا تماشہ  دیکھتی رہے۔
ترکی میں اب سے پہلے چار مرتبہ مارشل لاء لگایا جا چکا ہے اور ہماری طرح ایک منتخب وزیرِاعظم کو پھانسی پر بھی لٹکایا جا چکا ہے۔ 1960ء سے لے کر 1993ء تک یہ سلسلہ بزور ِشمشیر چلتا رہا۔ فوجی قیادت جب چاہتی سویلین حکومت کو گھر بھیج کر مارشل لاء لگا دیتی۔ اپنے مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے وہ اسلامی قدروں کو پامال کرتے ہوئے ایسے قوانین کا اجراء کرتی جن سے ترکی کی اپنی انفرادی شناخت اور حیثیت مجروح ہوتی رہی۔ رفتہ رفتہ ترکی امریکا اور مغربی طاقتوں کی ایک کالونی بن کر رہ گیا، لیکن 2002ء سے طیب اردگان کے برسرِ اقتدار آ جانے کے بعد منظر نامہ یکسر بدلنے لگا۔ ترکی ایک جدید اسلامی ترقی یافتہ ملک کی حیثیت سے اُبھر کر سامنے آنے لگا۔ تیسری دنیا کے ملکوں کے معدنی ذخائر اور وسائل پر قابض عالمی چوہدریوں کو اُن کا یہ انداز ایک آنکھ نہیں بھایا اور وہ اُنہیں نشانہ عبرت بنانے کے لیے سازشیں کرنے لگے۔

ایسے ہی مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے وہ دیگر اسلامی ممالک میں بھی ہمیشہ غیرجمہوری قوتوں کے سرپرستی کرتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں جہاں کسی اسلامی ملک میں جمہوریت فروغ پانے اور پروان چڑھنے لگتی ہے وہ وہاں کی فوجی قیادت کو بغاوت پر اُکساتے رہتے ہیں، لیکن  اِس بار ترکی میں اُن سے بہت بڑی غلطی   ہو گئی۔ وہ ترک افواج کی ساری قیادت کو منظم و متحد نہ کر سکے اور جلدبازی میں ایک ایسا اقدام کر بیٹھے جس کے نتیجے میں اُن کا سارا  منصوبہ دھرا  کا دھرا رہ گیا۔ اُن کے اِس  منصوبے میں آرمی چیف کی  رضامندی شامل نہ تھی جو اُس سازش سے الگ تھلگ رہے۔ عام طور سے جب بھی کوئی ایسا قدم اُٹھایا جاتا ہے تو سب سے پہلے وہاں کے حکمرانوں کوگرفتار کر کے الیکٹرانک میڈیا پر قبضہ کیا جاتا ہے، مگر یہاں یہ دونوں کام نہ کیے جا سکے  اور ترک صدر رجب طیب اردگان کا مزاحمتی پیغام نجی ٹی وی چینلز پر نشر ہو گیا۔

پھر کیا تھا طیب اردگان کے چاہنے والے راتوں رات سڑکوں پر نکل آئے اور بھر پور مزاحمت کر کے بغاوت کو ناکام  بنا دیا۔ نتیجتاً اب وہاں ایک نیا انقلاب رو نما ہو رہا ہے  جو ترک قوم کے تقدیر بدل کر رکھ دے گا۔ رجب طیب اردگان ایک نئے جذبے اور ولولے سے ملک کے اندر بڑی بڑی تبدیلیاں کر رہے ہیں۔ حال ہی میں اُنہوں نے استنبول میں لاکھوں افراد پر مشتمل تاریخ کا سب سے بڑا عوامی اجتماع کر کے ساری دنیا کو یہ دکھا دیا ہے کہ ترک عوام اب کسی غیر جمہوری نظام کو کسی صورت برداشت نہیں کریں  گے  اور استعماری قوتوں کے مہروں کو خود پر مسلط ہونے نہیں دیں گے۔ وہ اپنے فیصلوں کے خود مالک ہیں۔ کوئی اُنہیں ڈکٹیشن نہیں دے سکتا۔

اِس ناکام بغاوت کے بعد ترک حکمران  رجب طیب اردگان پہلے سے زیادہ نڈر، بیباک اور پرعزم لیڈر کے طور پر اُبھرکر سامنے آئے ہیں اور ملک کی ساری ترجیحات اور پالیسیاں بدلنے کاعہدکر لیا ہے۔ اپنے اِس مقصد کے لیے اُنہوں نے سب سے پہلے جو غیرملکی دورہ کیا ہے وہ روس کا دورہ ہے۔ جہاں اُنہوں نے وہاںکے حکمران’’ پوٹن‘‘ سے مل کر نئے تعلقات استوار کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ ملک شام میں مداخلت اور ایک روسی طیارہ گرا دینے کی وجہ سے اُن کے ملک اور روس کے درمیان جو اختلافات پیدا ہو گئے تھے اُنہوں نے اُسے دورکرنے کی مثبت اور صائب کوششیں کی ہیں۔ ساتھ ہی اُنہوں نے امریکا اور مغربی طاقتوں کو بھی یہ پیغام پہنچا دیا ہے کہ وہ اب اُن کے اسٹریٹجک پارٹنرکے حیثیت سے مزید کام نہیں کر سکتے۔ ترکی کے حکمرانوں کے خیال میں امریکا اور یورپی ممالک نے حالیہ بحران میں منافقت اور موقعہ پرستی کا مظاہرہ کیا۔ وہ در پردہ 15 جولائی کی رات باغیوں کی سرپرستی کرتے رہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ترکی کا جھکاؤ ہمیشہ سے یورپ کی طرف ہی رہا لیکن آج یورپ نے اپنا قابلِ اعتماد ساتھی کھو دیا ہے۔
یہ امریکا اور یورپی ممالک کا اپنا وہ رویہ ہے جس کی وجہ سے آج ترکی اُن سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ ناکام بغاوت کے فوراً بعد ترک حکومت نے امریکا سے اپنے ایک خود ساختہ جلاوطن لیڈر فتح اللہ گولن کی حوالگی کا مطالبہ کیا جسے امریکا نے مسترد کر دیا۔ اب اگر جناب اردگان نئے اتحاد بنانے کے لیے روس اور چین کی طرف بڑھتے ہیں تو اِس میں وہ سراسر حق بجانب ہیں۔ ترکی 15 سال تک یورپ کے اتحادی کے طور پرکام کرتا رہا لیکن یورپ نے اُسے ایک مشکل وقت میں دھوکا دیا ہے۔

اِس صورتحال میں ایک بات جو کھل کر سامنے آئی ہے کہ ناکام فوجی بغاوت کی کوکھ سے ترکی میں ایک ایسے انقلاب نے جنم لیا ہے جو ترک عوام کے ساتھ اِس سارے خطے کی تقدیر بدل کر رکھ دیگا۔ برادر اسلامی ملک ترکی کے لوگ اپنے اِس دلیر اور بہادر لیڈر کی قیادت میں پہلے ہی ترقی و خوشحالی کے سفر پرگامزن تھے مگر اب 15 جولائی 2016 ء کے بعد سے وہ ایک نئے عزم، حوصلے اور ولولے کے ساتھ عظیم ترکی کی بنیاد رکھنے جا رہے ہیں جو دنیا کی کسی سپر پاور کے آگے سرنگوں نہیں رہے گا۔ (انشاء اللہ)

ڈاکٹر منصور نورانی


Post a Comment

0 Comments