Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

فوج کی کاروباری کمپنیوں کا جواز کیا ؟

پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں وزارتِ دفاع نے تحریری جواب میں بتایا
ہے کہ پاکستان کی فوج کے زیر انتظام 50 کاروباری کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے تحریری جواب میں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی، آرمی ویلفیئر ٹرسٹ، فوجی فاؤنڈیشن اور بحریہ فاؤنڈیشن کے زیر انتظام کاروباری اداروں کی تفصیلات فراہم کیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزارتِ دفاع نے بتایا کہ ان کاروباری اداروں میں رہائشی سکیمیں، فارمز، کھاد، چینی اور سیمنٹ بنانے کے کارخانے، ریسٹورنٹ، بینک، انشورنس کمپنی، کپڑے بنانے کے کارخانے، بجلی گھر، گوشت پراسیسنگ یونٹ اور سکیورٹی فراہم کرنے کی کمپنیاں شامل ہیں۔ 
ملک کی آمدن میں سے خطیر رقم دفاعی ضروریات پوری کرنے کے لیے فوج کو فراہم کی جاتی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستان کی فوج اپنی پیشہ وارانہ مصروفیات کے ساتھ ساتھ مختلف کاروباری ادارے بنانے اور انھیں وسعت دینے میں دلچسپی لیتی ہے؟ پاکستان میں دفاعی اُمور کی تجزیہ کار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ وہ ممالک جہاں فوج کو مطلوبہ وسائل فراہم نہیں کیے جاتے وہاں فوج کو محدود پیمانے پر کاروبار کرنے کی اجازت دی جاتی ہے لیکن پاکستانی حکومت میں فوج کو پورے وسائل فراہم کرتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ 50 کی دہائی میں یہ ادارے فوج سے ریٹائر ہونے والے افسران کو مراعات فراہم کرنے کے لیے بنائے گئے تھے لیکن ریٹائرڈ فوجیوں کو پینشن بھی ملتی ہے۔ عائشہ صدیقہ نے کہا کہ ’پیشہ وارانہ افواج اپنے آپ کو کاروباری سرگرمیوں میں مصروف نہیں کرتیں اور فوج کو ملنے والے فنڈ کا آڈٹ تو ہوتا نہیں اس لیے یہ بھی نہیں معلوم کہ کیا فوج کو ملنے والا بحٹ کہیں ان نجی کاروباری اداروں میں تو استعمال نہیں ہوتا۔ یہ بھی واضح طور پر معلوم نہیں ہے کہ ان میں کتنے ریٹائرڈ اور کتنے حاضر سروس افراد شامل ہیں۔‘
سابق سیکریٹری فاٹا بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ اس موقف سے اتفاق نہیں کرتے وہ کہتے ہیں کہ کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے اور باقاعدہ آڈٹ بھی ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ایک وہ فوج ہے جو آپریشنل ہے اس کا اپنا بجٹ ہوتا ہے اور وہ حاضر سروس فوجیوں کے امور کو دیکھتی ہے، لیکن کاروباری کمپنیوں میں کوئی بھی حاضر سروس فوجی نہیں ہوتا۔ ’فوج کی آڈیٹر جنرل برانچ ایک ویلفیئر ڈائریکٹریٹ کے تحت ان کاروباری کمپنیوں کی نگرانی تو کرتی ہے لیکن اس کا اس میں اور کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ ان کمپنیوں کی انتظامی صلاحیت پاکستان کے دیگر اداروں کی نسبت زیادہ اچھی ہوتی ہے۔‘

ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ فوج کو کاروباری ادارے بنانے کا کوئی جواز موجود نہیں ہے اور اس سے خود فوج کے لیے پیشہ ورانہ مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ فوج کے کاروبار میں وسعت کی وجہ یہ ہے کہ یہ خود مختاری چاہتے ہیں اور تمام سویلین اداروں سے اوپر رہ کر چلنا چاہتے ہیں اور اس سے سیاست اور پھر معیشت متاثر ہوتی ہے۔
تاہم بریگیڈییر(ر) محمود شاہ اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ان تمام کاروباری کمپنیوں کے ذریعے فوج کی فلاح کے لیے کام کیا جاتا ہے، ریٹائرڈ فوجیوں کو نوکریاں ملتی ہیں، بڑے بڑے ہسپتال انھیں کی وجہ سے چل رہے ہیں۔ یہ کام حکومت نہیں کر سکتی اس لیے فوج خود یہ کام کرتی ہے۔‘ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ ملک میں فوج کے ماتحت چلنے والے اداروں کے بار میں سوال اٹھایا گیا ہو یا تنقید کی گئی ہو۔ آج سے 11 برس قبل سنہ 2005 میں پاکستان کے ایوان بالا میں سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ہی پی پی پی کی جانب سے فوج کی کاروباری کمپنیوں کے بارے میں سوال اٹھایا تھا اور اس وقت کے وزیرِ دفاع راؤ سکندر نے فوج کی ان کاروباری کمپنیوں کی تعداد 55 بتائی تھی۔

سارہ حسن، حمیرا کنول
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

Post a Comment

0 Comments