Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

طیب اردوغان کا سیاسی سفر

رجب طیب اردوغان کی ’اے کے‘ پارٹی کو ترکی کے اندر قدامت پسند مسلمانوں
میں بہت مقبولیت حاصل ہے، جبکہ ملک سے باہر انھیں تنقید کا سامنا کرنا پڑتا  ہے کہ وہ اپنے ناقدین کو اکثر طاقت کے زور پر دبا دیتے ہیں۔ اردوغان کے دور حکومت میں ملکی اور غیر ملکی صحافیوں کے خلاف کارروائیاں کی گئي ہے اور ان کے خلاف مقدمات دائر کیےگئے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال گذشتہ ماہ سامنے آیی جب پولیس نے ترکی کے سب سے بڑے اخبار ’زمان‘ کے دفتر پر چھاپہ مارا اور عملے کو ڈرایا دھمکایا۔ زمان نے پابندیوں سے پہلے اپنے آخری آزاد اشاعت میں لکھا تھا کہ ترکی کے پریس نے ’تاریک ترین دن دیکھا‘ ہے، اور حکومت کے اختیار میں آنے کے بعد اس میں مسلسل حکومت نواز مضامین شائع کیے جاتے رہے ہیں۔
  
مسٹر اردوغان کا حاکمانہ طرزِِ حکومت صرف ترکی کی سرحدوں تک ہی محدود نہیں، بلکہ ان کے ذاتی محافظوں نے امریکہ میں بھی صحافیوں کو ہراساں کیا اس کے علاوہ ایک جرمن فنکار کے خلاف بھی ترکی کے صدر کو ناراض کرنے کی تحقیقات کی جا رہی ہے۔ 61 سالہ اردوغان اے کے پارٹی کے قیام کے ایک سال بعد سنہ 2002 میں اقتدار میں آئے۔ وہ 11 سال تک ترکی کے وزیر ا‏‏عظم رہے اور پھر سنہ 2014 میں ملک کے پہلے براہ راست صدر منتخب ہوئے۔ جون میں ہونے والے انتخابات میں اے کے پارٹی کو انتخابات میں پہلے سے کم پذیرائی ملی اور وہ مخلوط حکومت قائم کرنے میں ناکام رہے، تاہم نومبر میں ہونے والے انتخابات میں ان کی پارٹی کو واضح برتری ملی کیونکہ ترکی میں ہونے والے دو تباہ کن خود کش حملوں کے بعد اردوغان نے کردوں کی علیحدگی پسند جماعت ’پی کے کے‘ کے خلاف جنگ تیز کر دی تھی۔
طیب رجب اردوغان سنہ 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں اسلامی حلقوں میں سرگرم نجم الدین اربکان کی ویلفیئر پارٹی کے رکن رہے۔ سنہ 1994 سے 1998 تک فوج کی جانب سے اقتدار حاصل کرنے تک وہ استنبول کے میئر رہے۔ سنہ 1998 میں ویلفيئر پارٹی پر پابندی ‏‏عائد کر دی گئی۔ اگست سنہ 2001 میں عبداللہ گل کے اتحاد میں ’اے کے پی‘ کا قیام عمل میں آیا۔ سنہ 2003-2002 میں اے کے پی نے پارلیمانی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کی اور اردوغان کو وزیر اعظم بنایا گيا۔ اردوغان سنہ 2014 میں براہ راست انتخابات کے ذریعے ملک کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ اے کے پارٹی کے اقتدار میں آنے سے قبل فوج چار مرتبہ سیاست میں براہ راست دخل اندازی کر چکی تھی۔ سنہ 2013 میں رجب طیب اردوغان نے اعلیٰ فوجی حکام پر اس وقت کامیابی حاصل کی جب 17 افسران کو اے کے پی کو اقتدار سے ہٹانے کی سازش میں عمر قید کی سزا ہوئی۔ سینکڑوں فوجیوں، صحافیوں اور سیکولر سیاست دانوں پر مقدمہ چلایا گیا اور سنہ 2011 میں جب 200 سے زیادہ افسروں کو حراست میں لیا گيا تو فوج، بحریہ اور فضائیہ کے سربراہوں نے احتجاجاً استعفے دے دیے۔

ان کے ناقدین جہاں ان کی مخالفت کرتے ہیں وہیں ان کے حامی ان کی تعریف کرتے ہیں۔ غازی پارک کی ہریالی کو بچانے کے لیے لوگوں نے مظاہرے کیے
رجب طیب اردوگان نے سنہ 2013 میں استنبول کے غازی پارک میں عوامی احتجاج کو کچلنے کے لیے فوجی قوت کا سہارا لیا۔ یہ احتجاج شہر کےگرین علاقے کو بچانے کے لیے تھا جہاں ایک بڑے تعمیراتی منصوبے پر عمل در آمد کیا جانا تھا۔ اسی سال دسمبر میں ان کی حکومت کو بدعوانی کے بڑے سکینڈل کا سامنا رہا اور کئی گرفتاریاں ہوئیں جن میں کابینہ کے تین وزرا کے بیٹے بھی شامل تھے۔ اردوغان نے ترکی کے باہر بیٹھے ’سازشیوں‘ اور فتح اللہ گلین کے حامیوں کی مذمت کی۔ انھوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر بھی اپنے غصے کا اظہار کیا اور ٹوئٹر کو ختم کرنے کا عہد کیا۔

مسٹر اردوغان نے اسلامی اقدار کے نفاذ سے انکار کیا ہے۔ ان کے بقول انھوں نے ترکی میں سیکولرزم کو جاری رکھنے کا حلف لیا ہوا، لیکن وہ ترکوں کے اپنے مذہبی عقائد کو کھلے طور پر ظاہر کرنے کے حامی ہیں۔ ان کے اس پیغام کو اناتولیا جیسے چھوٹے شہر اور قصبوں میں بطور خاص قبولیت حاصل ہے جو کہ اے کے پی کا روایتی گڑھ رہا ہے۔ ان کے بعض حامیوں نے انھیں سلطان کا لقب دیا ہے جو کہ ’سلطنت عثمانیہ‘ کی یاد دلاتا ہے۔ اکتوبر سنہ 2013 میں ترکی نے عدلیہ، فوج اور پولیس کے علاوہ تمام سرکاری اداروں سے حجاب پر عائد پابندی کو ہٹا لیا۔ صدر اردغان کی اہلیہ سرکاری تقاریب میں سر پر حجاب لیتی ہیں جیسا کہ عبداللہ گلین کی اہلیہ رکھتی تھیں۔ ناقدین شادی کے علاوہ جنسی تعلق قائم کرنے کو مجرمانہ فعل قرار دینے کی ناکام کوشش اور شراب سے پاک علاقوں کے لیے کوششوں کو ان کے اسلام حامی نظریات کے شواہد کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

ہزار کمروں والا یہ صدارتی محل روس اور امریکہ صدارتی محلوں سے بڑا ہے
مسٹر اردوغان کے سیاسی مخالفین نئے پر تعیش صدارتی محل کو ان کے مبینہ تحکمانہ انداز کے طور پر دیکھتے ہیں۔ دارالحکومت انقرہ کی مضافاتی پہاڑی پر موجود ہزار کمروں کا ’اک سرے (سفید محل) امریکہ کے وائٹ ہاؤس یا روس کے کرملن سے بڑا ہے اور اس پر 61 کروڑ 50 لاکھ ڈالر سے زیادہ اخراجات آئے ہیں۔
صدر اردغان کو جو سیاسی کامیابیاں حاصل ہوئیں ہیں ان کے پس پشت معاشی استحکام تھا اور معاشی شرح نمو ساڑھے چار فی صد رہی، لیکن سنہ 2014 میں ترقی کی شرح میں کمی آئی اور بے روزگاری میں دس فی صد کا اضافہ ہوا۔ ان کے دور میں ترکی مصنوعات کی پیداوار اور برآمدات کا مرکز بن گیا۔ اے کے پی نے مہنگائي کو قابو میں رکھا اور یہ کوئی کم بڑا کارنامہ نہیں ہے کیونکہ اس سے قبل مہنگائي کئی بار سو فی صد سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔

رجب طیب ترکی کے بحر اسود کے ساحلی علاقے میں سنہ 1954 میں ایک کوسٹ گارڈ کے گھر پیدا ہوئے۔ جب وہ 13 سال کے تھے تو ان کے والد نے اپنے پانچوں بچوں کو بہتر سہولیات فراہم کرنے کے خیال سے استنبول منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ نوجوان کے طور پر اردوگان اضافی پیسہ کمانے کے لیے سڑکوں پر سکنجبین اور روغنی نان فروخت کرتے تھے۔ استنبول کی مرمرا یونیورسٹی سے مینجمنٹ میں ڈگری حاصل کرنے سے قبل انھوں نے ایک اسلامی ادارے میں تعلیم حاصل کی تھی، اور وہ پیشہ ورانہ سطح پر فٹبال بھی کھیل چکے ہیں۔ نجم الدین اربکان سے ان کی ملاقات یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران ہوئی۔

سنہ 1994 میں وہ استنبول کے میئر بنے اور ان کے ناقدین بھی اعتراف کرتے ہیں کہ انھوں نے استنبول کو صاف کرنے اور ہریالی لانے کے لیے بہت اچھے کام کیا۔
لیکن سنہ 1999 میں انھیں مذہبی بنیاد پر اشتعال انگیزی کے جرم میں چار ماہ جیل میں گزارنے پڑے۔ انھوں نے سرعام ایک وطن پرستی سے سرشار نظم پڑھی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ مسجدیں ہماری چھاونیاں ہیں، گنبدیں ہمارے حود ہیں، میناریں ہماری سنگینیں ہیں اور مومن ہمارے سپاہی ہیں۔ ان کا اقتدار میں آنے کا سفر اس وقت مکمل ہوا جب ’اے کے پی‘ اقتدار میں آئی اور وہ وزیر اعظم بنائے
گئے۔

بشکریہ بی بی سی اردو

Post a Comment

0 Comments