Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

کشمیر میں پیلٹ گن نامی مہلک ہتھیار کا استعمال

کشمیر میں جب دو ہزار دس میں دو لڑکیوں کے ریپ کے ردِعمل میں ریاست گیر بدامنی کی لہر اٹھی تو اسے دبانے کے لیے پولیس نے پیلٹ گن نامی نیا ہتھیار استعمال کیا۔ یوں سمجھئے کہ پیلٹ گن اس روائیتی چھرے والی بندوق کی خطرناک قسم ہے جس سے ہم اور آپ بچپن میں فاختاؤں اور کووں میں تمیز کیے بغیر شکار کرتے تھے یا خان لالہ کی چھرے دار بندوق سے ایک پیسہ فی نشانے کے ریٹ پر لکڑی کے چوکھٹے پر لگے غبارے پھوڑتے تھے۔

کشمیرمیں استعمال ہونے والی پیلٹ گن میں سنگل چھرے کے بجائے کارتوس 
استعمال ہوتا ہے جس میں گول ، نوکیلے یا بال بیرنگ کی طرح کے چھرے بھرے ہوتے ہیں۔ جب کارتوس فائر ہوتا ہے تو سیکڑوں چھرے ہر طرف پھیل جاتے ہیں اور انسانی کھال کے اوپری حصے میں بھی گھس سکتے ہیں۔ عام طور پر پیلٹ گن سے سیدھا فائر نہیں کیا جاتا بلکہ فضا میں یا ذرا نیچے کی جانب گن رکھ کے فائر کیا جاتا ہے تا کہ انسان کے سر، چہرے، سینے اور اعضائے رئیسہ کو نقصان نہ پہنچے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو کہ ٹانگیں زخمی ہو جائیں اور لوگ گھبرا کر منتشر ہو جائیں۔ تاہم کشیمری پولیس تازہ بدامنی کو روکنے کے لیے پیلٹ گن سے سیدھے سیدھے نشانے لگا رہی ہے۔

پچھلے ایک ہفتے کے دوران تین سو کے لگ بھگ مظاہرین مرد، عورتیں اور بچیاں سپتال پہنچائے گئے۔ ان کے جسم کے اوپری حصے دیکھ کے لگتا ہے گویا فولادی چیچک نکلی ہوئی ہو۔ ڈاکٹروں کو تقریباً نصف زخمیوں کی سرجری کرنا پڑی۔ پندرہ تا بیس مظاہرین ایسے ہیں جن کی کم ازکم ایک آنکھ کو جزوی یا مکمل نقصان پہنچا اور پانچ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ بصارت سے کلی محروم ہو گئے۔ چونکہ پیلٹ گن سے ہلاکت شاز و نادر ہوتی ہے لہذا اسے غیر مہلک ہتھیاروں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ مگر وہ جو کہتے ہیں کہ بعض اوقات معذوری موت سے بھی زیادہ تکلیف دہ بن جاتی ہے۔

عجب تماشہ ہے کہ مشتعل ہجوم منتشر کرنے کے لیے بھارت میں کہیں اور پیلٹ گن کے استعمال کے بارے میں نہیں سنا گیا مگر کشمیر میں گزشتہ چھ برس کے دوران یہ دوسری بار استعمال ہو رہی ہے۔ دو ہزار دس میں ریاستی وزیرِ اعلی عمر عبداللہ تھے جب پولیس نے جنوبی ضلع اننت ناگ میں پہلی بار مشتعل ہجوم کے خلاف پیلٹ گن کا استعمال کیا۔ اس وقت مفتی محمد سعید کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی حزبِ اختلاف تھی اور پارٹی رہنما محبوبہ مفتی نے اسمبلی میں ہنگامہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ عبداللہ حکومت کشمیر کی نوجوان نسل کو پیلٹ گن کے ذریعے نابینا کرنا چاہتی ہے۔

دو ہزار دس کے ہنگاموں میں ایک سو بارہ کشمیری جاں بحق اور تین ہزار کے لگ بھگ زخمی ہوئے۔ آج محبوبہ مفتی وزیرِ اعلی ہیں اور ان کی ترجمان اور وزیرِ تعلیم نعیمہ اختر کہہ رہی ہیں کہ جب تک کوئی معقول غیر مہلک متبادل طریقہ میسر نہیں آتا تب تک پیلٹ گن کا استعمال مجبوری ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ پولیس والے کی کمر سے لگا فٹ بھر کا ڈنڈا غصیلے شہریوں کو قابو میں رکھنے کے لیے کافی سمجھا جاتا تھا۔ یہ ڈنڈا سب سے پہلے لندن پولیس کو اٹھارہ سو اڑتالیس میں فراہم کیا گیا۔ مگر ہجوم کو منتشر کرنے کی تربیت و آلات سے مسلح پہلا خصوصی پولیس دستہ چین کے شہر شنگھائی میں انیس سو پچیس میں برطانوی نوآبادیاتی انتظامیہ نے استعمال کیا۔ اس وقت کا شنگھائی افیون کی تجارت کے سبب اسمگلنگ اور جرائم پیشہ مافیا کا عظیم مرکز تھا۔ برطانوی ہندوستان میں پولیس کا سب سے بڑا ہتھیار پانچ پانچ فٹ کی وہ لاٹھیاں تھیں جن کے ایک سرے پر لوہے کا سانچہ منڈھا ہوتا تھا۔ مجمع پھر بھی قابو میں نہ آتا تو پولیس کو پہلے ہوائی فائرنگ اور پھر سیدھی گولی چلانے کا حکم ملتا۔ یوں درجنوں مظاہرین ہلاک ہو جاتے۔

مگر ساٹھ کے عشرے میں امریکا، برطانیہ اور بعدازاں اسرائیل نے کراؤڈ کنٹرول کے لیے نت نئے غیر مہلک موثر ہتھیار بنانے پر سنجیدگی سے کام شروع کیا۔ آج دنیا بھر میں کراؤڈ کنٹرول کے لیے جو ہتھیار یا مواد استعمال ہو رہا ہے وہ زیادہ تر برطانیہ اور امریکا کی عرق ریزی کی دین ہے۔ ساٹھ کے عشرے میں امریکا میں سیاہ فاموں نے شہری آزادیوں کے لیے مظاہرے شروع کیے تو انھیں منتشر کرنے کے لیے تربیت یافتہ کتوں، گھڑ سوار پولیس دستوں اور سی ایس گیس (آنسو گیس) کے گولوں کا استعمال شروع ہوا۔ بعد کے برسوں میں پیپر سپرے (مرچیلی پھوار) بھی آزمایا جانے لگا۔ اس کے استعمال سے وقتی اندھا پن اور متلی جنم لیتی ہے اور نشانہ بننے والا کچھ دیر کے لیے مفلوج ہو جاتا ہے۔ بھارت میں ڈرونز کے ذریعے مرچ مصالحہ بم گرانے کے تجربات ہو رہے ہیں۔ ممکن ہے کشمیر جیسے خطوں میں اگلی بار مظاہرین کو کنٹرول کرنے کے لیے ریموٹ کنٹرولڈ مصالحے دار ڈرونز استعمال ہوں۔ ڈرون ٹیکنالوجی کے ذریعے فضا سے سی ایس گیس کے شیل گرانا بھی ممکن ہے۔

ساٹھ کے عشرے میں ہی امریکا میں شہری آزادیوں کے طالبوں کے خلاف واٹر کینن (آبی توپ) کا استعمال شروع ہوا۔ اس میں بعد ازاں نت نئی اختراعات ڈالی گئیں۔ جیسے رنگین پانی کا پریشر پائپ استعمال کرنے سے نہ صرف مجمع اکھڑ جاتا ہے بلکہ جس جس پر یہ رنگین پانی پڑتا ہے اسے بعد ازاں حراست میں لینا آسان ہوتا ہے۔ فلسطینی انتفاضہ کے دوران اور آج بھی اسرائیلی پولیس اور فوج جو آبی توپیں استعمال کرتی ہے ان میں کیمیکلز کی مدد سے ایسی بدبو پیدا کی جاتی ہے جو کئی کئی دن بدن سے نہیں جاتی۔ اس کے علاوہ گلے سڑے پھلوں، انڈوں اور انسانی فضلے کی شدید بو پیدا کرنے والے سٹنک بم بھی متعدد ممالک کے پولیس اسلحہ خانوں میں پڑے ہیں۔

ربڑ کی گولیوں کا پہلے پہل استعمال برطانوی فوج نے انیس سو ستر میں شمالی آئرلینڈ کے فسادات پر قابو پانے کے لیے شروع کیا۔ انیس سو تہتر میں پلاسٹک کی گولیاں بھی استعمال ہونے لگیں۔ سن ستر سے دو ہزار پانچ کے درمیان برطانوی فوج نے شمالی آئر لینڈ میں سوا لاکھ سے زائد ربر اور پلاسٹک کی گولیاں فائر کیں۔ ان سے سترہ ہلاکتیں ہوئیں، سو سے زائد لوگ معذور اور ان گنت زخمی ہوئے۔ اسرائیلی دستے ربڑ کی گولیاں بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ جب کہ امریکی پولیس اور برطانوی نوآبادیاتی دور کی ہانگ کانگ پولیس نے نوکیلی چوبی گولیوں کو بھی مظاہرین پر بارہا  آزمایا۔ کہنے کو ربڑ، پلاسٹک یا لکڑی کی گولیاں غیر مہلک بتائی جاتی ہیں بس ہڈی ہی تو توڑ سکتی ہیں اور قریب سے فائر کی جائیں تو بس اندرونی اعضا کو نقصان ہی تو پہنچا سکتی ہیں.
 
اور اب امریکا میں اکیسویں صدی کے ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لیے اکیسویں صدی کا ہتھیار لراڈ ( لانگ رینج ایکوئسٹک ڈیوائس) بھی میدان میں اتار دیا گیا ہے۔ لراڈ ایک سائرن کی طرح ہے۔ اس کی آواز اس قدر شدید ہے کہ اسے شوریدہ سمندر میں ایک دوسرے سے خاصے فاصلے پر تیرتے جہازوں کو پیغام پہنچانے کے لیے تخلیق کیا گیا۔ لراڈ کی مدد سے مشرقی افریقی ساحل پر متحرک بحری قزاقوں کا حوصلہ پست کرنے کا بھی کام لیا جاتا ہے۔ ہنگامی حالات میں اسے لوگوں کو خبردار کرنے کے بھی کام لایا جاتا ہے۔ مگر اب اسے مجمع بھگانے کے لیے برتا جا رہا ہے۔ امریکا میں وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو تحریک کے مظاہرین اور گزشتہ برس فرگوسن میں سیاہ فام بے چینی کو کنٹرول کرنے کے لیے لراڈ کا استعمال ہو چکا ہے۔ صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے لراڈ سے اتنی فریکوئنسی کی آواز پیدا کی جا سکتی ہے گویا صورِ اسرافیل پھونک دیا گیا ہو۔ مظاہرین عارضی طور پر بہرے اور شدید سر درد میں مبتلا ہو کر اپنے حواس کھو سکتے ہیں۔

کراؤڈ کنٹرول آلات کی تیاری کرنے والی ایک امریکی کمپنی تیسرا انٹرنیشنل نے شاک ویو ڈیوائس کی تیاری بھی شروع کر دی ہے۔ ایک شیل میں پچیس فٹ یا اس سے زیادہ کی تار گھچے کی شکل میں ہوتی ہے اور جب یہ شیل فائر کیا جاتا ہے تو تار ایک ہلال کی صورت مجمع پر گرتی ہے۔ جس جس کا جسم چھوتا ہے اسے بیس سیکنڈ کے لیے اتنے شدید برقی جھٹکے  لگتے رہتے ہے کہ انسان باؤلا ہو جائے۔ اور پھر متاثرین کی گرفتاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ امریکی فوج نے عراق میں ڈائزل لیزر بھی استعمال کی ہے۔ ایم فور رائفل پر یہ لیزر ڈیوائس باآسانی نصب ہو سکتا ہے اور اس سے نکلنے والی سبز شعاع چند گھنٹے کے لیے اندھا کر سکتی ہے۔ امریکی فوج اس آلے کا استعمال فوجی چوکیوں کے قریب آنے والے مشکوک عراقی ڈرائیوروں کے خلاف کرتی رہی ہے۔

زیادہ تر کراؤڈ کنٹرول آلات شروع میں فوجی مقاصد کے لیے ڈویلپ کیے جاتے ہیں اور بعد میں ان کا سویلین استعمال شروع ہو جاتا ہے۔ مظاہرین اور کنٹرول کرنے والوں کے درمیان یہ دوڑ نہ ختم ہونے والی ہے۔ مگر ہر نیا جبر اپنے ہتھیار اور ان کا توڑ لاتا رہے گا۔

وسعت اللہ خان

Post a Comment

0 Comments