Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

یورپی یونین کے قیام اور اہداف کا پس منظر

بیسویں صدی کے پہلے نصف میں دو تباہ کن عالمی جنگوں کے بعد یورپ کے دور اندیش رہنمائوں نے1940ء میں امن اور مصالحت کی خواہش کا اظہار کیا،وہ چاہتے تھے کہ یورپی ممالک پُر امن انداز میں آگے بڑھیں اور ایک دوسرے کی معیشت میں مدد کریں تاکہ یورپ کو کسی تیسری جنگ سے بچا یا جا سکے اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے برابر مشترکہ اقتصاد ی قوت تخلیق کی جا سکے۔1950ء میں اس خواہش کی تکمیل کیلئے فرانس کے اس وقت کے وزیر خارجہ رابرٹ شکہیومن نے ’’شکہیومن ڈیکلریشن ‘‘پیش کیا۔ شکہیومن نے تجویز دی کہ ’’فرانس اور جرمنی میں کوئلے اور سٹیل کی پیداوار اعلیٰ ادارے کے تحت ہو گی،اس ادارے کی بنیادی ساخت ایسی ہو گی جس کے تحت یورپ کے دیگر ممالک بھی اس میں شمولیت اختیار کرسکیں گے۔‘‘اس تجویز کا مقصد ہی یہ تھا کہ فرانس اور جرمنی جو تاریخی حریف تھے دونوں کے مابین معاشی ترقی اور امن کو بحال رکھا جا سکے۔

کوئلہ اور سٹیل کسی بھی جنگ کیلئے بنیادی ذریعہ ثابت ہوتے،یوں اگر وسائل کو دو دشمن ممالک کے مابین ایک سمجھوتے کے تحت یکجا کر لیا جائے تو کسی بھی بڑی جنگ سے مستقبل میں بچا جا سکتاتھا۔ اس تجویز کے تحت1952ء کو European Coal and Steel Communityعمل میں آئی۔ ECSC کے چھ ممبر ممالک بیلجئیم ،فرانس ،مغربی جرمنی،اٹلی،لکسمبرگ اور نیدرلینڈ نے پیرس معاہدے پر دستخط کئے ۔ ECSC بے حد کامیاب رہی کہ چند ہی سالوں کے اندر اندرملکوں کی معیشتوں کے دیگر عناصر کو ضم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ 1957ء میں ’’قریبی اتحاد‘‘ کا تصور ابھر کر سامنے آیا ،روم معاہدے نے یورپین اکانومک یونین اور یورپین ایٹمی اینرجی کمیونٹی تشکیل دی ،یوں چھ ریاستوں نے مشترکہ مارکیٹ بنا کر باہمی تجارت میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کر لیا۔

1967میں ان تینوں کمیونٹیز کے ادارے رسمی طور پر یورپین کمیونٹی EC Eurepean Community میں ضم ہو گئے۔ جس کا ایک ہی کمیشن،وزراء کی ایک ہی کونسل اور ایک باڈی تشکیل دی گئی جسے آج یورپی پارلیمنٹ کے نام سے جا نا جا تا ہے۔ 1973ء میںEC کو پہلی توسیع ڈنمارک، آئرلینڈ اور برطانیہ کی شمولیت کے بعد ملی۔ 1980 ء میں اس کے ارکان میں مزید اضافے کی کوششیں کی گئیں تو 1981ء میں یونان اور1986ء میں سپین اور پرتگال بھی اس میں شامل ہو گئے۔ 1992ء میں ماسٹرچٹ معاہدے نے مزید تعاون کی راہیں ہموار کیں، جن میں خارجہ اور دفاعی پالیسی ،عدالتی اور اندرونی معاملات اور معاشی اور مالیاتی اتحاد کی تشکیل کے ساتھ ساتھ ایک مشترکہ کرنسی سمیت کئی امور شامل تھے۔ معا ہدہ ماسٹرچٹ کے تحت اس کا نام یورپی یونین رکھا گیا۔ 1995ء میں آسٹریا ،فن لینڈ اور سویڈن نے بھی EU/EC میں شمولیت اختیار کر لی،یوں اس کے ممبران کی تعداد 15ہوگئی۔ یکم جنوری1999ء کو پیسے کی عالمی مارکیٹ میں ایک نئی کرنسی ’’یورو‘‘ کا آغاز کیا گیا،یہ کرنسی یورپ کی تمام مبرریاستوں میں سوائے ڈنمارک،سویڈن اور برطانیہ کے لین دین کا یونٹ بن گئی۔

2002 میں ان بارہ ممالک کے شہریوں نے یورو کے نوٹ اور سکے استعمال کرنا شروع کر دئیے۔ اب یہ ممالک نہ صرف سیاست اور اقتصادیات میں بلکہ دولت، قوانین اور خارجی معاملات میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ شینجن معاہدے کے تحت 13 رکن ممالک نے اپنی سرحدیں ایک دوسرے کے لئے کھول دیں اور اب ان کے باشندے بغیر کسی پاسپورٹ یا ویزے کے ان ممالک کے درمیان سفر کرسکتے ہیں۔ 2002ء میں 12 رکن ممالک نے اپنی قومی کرنسیوں کی جگہ یورو کو استعمال کرنا شروع کردیا۔ 2004ء میں 10 اور 2007ء میں 2 نئے ممالک نے یورپی یونین میں شمولیت اختیار کی۔ 2014ء میں کروشیا نے شمولیت اختیار کیا۔ اب یورپی یونین کے کل ارکان کی تعداد 28 ہے،البتہ 23جون 2016 کو برطانیہ نے ملک بھر میں ریفرنڈم کے نتیجے میں یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔

برطانیہ 1973ء سے یو رپی یو نین کا رکن تھا۔ یورپی یونین کے رکن ممالک کا کوئی بھی باشندہ تنظیم کے کسی بھی رکن ملک میں رہائش اختیار کرنے کے علاوہ ملازمت، کاروبار اور سیاحت کرسکتا ہے اور اس کے لئے اسی پاسپورٹ، ویزا یا دیگر دستاو یزات کی کوئی ضرورت نہیں۔ بالکل اسی طرح کسی ایک ملک کی مصنوعات بھی دوسرے ملک میں کسی خاص اجازت یا اضافی محصولات کے بغیر معیاری مصنوعات کے قانون کے تحت فروخت کی جاسکتی ہیں۔ 1952ء میں شروع ہونیوالاچھ ہمسایہ ممالک کے مابین ایک علاقائی اقتصادی معا ہدہ یورپ بھر میں ایک کثیر الحکومتی اور مؤثر ادارہ بن چکا ہے ۔ یورپی یونین کے بارے میں دس دلچسپ حقائق 

1.یورپی یونین میں شمولیت کیلئے ترکی اور سربیا سمیت سات ممالک خواہاں ہیں۔ 2. یورپی یونین کے65 ادارے، باڈیز اور ایجنسیا ں ہیں۔ 
3. یورپی یونین کے اندر 19ممبران یوروزون کرنسی کے علاقے کے ہیں۔ 
4. یورپی پارلیمنٹ کے 751ارکان ہیں۔ 
5. بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے مطابق 18.5 بلین یورو کی جی ڈی پی کے ساتھ یہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے۔ 
6. یورپی یونین میں 507بلین سے زاید لوگ بستے ہیں،جو کہ دنیا کی کل آبادی کا 7فیصد ہے۔ 
7. برطانیہ کے تین ملین سے زاید لوگ یورپی ممالک میں پیدا ہوئے ،یہ کل آبادی کا پانچ فیصد ہے۔ 
8 .2015 میں برطانیہ نے 8.5بلین یوروکی امداد کر کے تیسرے نمبر پر رہا جب کہ فرانس دوسرے اور جرمنی تیسرے نمبر پر تھا۔ 9 یورپی یونین کا بجٹ 2016میں 144بلین یورو ہے۔ جبکہ برطانیہ کے عوامی اخراجات پر ہی رواں برس میں 742بلین یورو کی امید کی جا رہی ہے جو کہ یورپی یونین کے کل بجٹ سے6.5 گنا زیادہ ہوگا۔ 10:یورپی یونین کے دیگر اداروں میں سرکاری ملازمین کی تعداد55,000 ہے۔
 
حنا انور

Post a Comment

0 Comments