Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

ترکی میں فوجی بغاوت اور امریکہ کا کردار

ترکی میں گزشتہ ہفتے ناکام فوجی بغاوت کے بعد ایمرجنسی نافذ کرکے بغاوت میں
ملوث افراد کے خلاف کریک ڈائون کا سلسلہ بڑے پیمانے پر جاری ہے جس کا نشانہ سب سے پہلے سیکورٹی ادارے بنے اور اب یہ عمل دوسرے اداروں تک پہنچ چکا ہے۔ ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد کسی بھی شخص کو 30 دن کیلئے بغیر مقدمہ چلائے حراست میں رکھا جاسکتا ہے۔ کریک ڈائون کے نتیجے میں اب تک 118 جرنیلوں سمیت 7500 فوجیوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے جبکہ 1500 ججوں اور 8ہزار پولیس اہلکاروں کو اُن کے عہدے سے ہٹادیا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک 58 ہزار سے زائد افراد حکومتی اقدامات کی زد میں آچکے ہیں۔ یہ بھاری اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ بغاوت کا ذمہ دار صرف فوج کو نہیں ٹھہرایا جا رہا بلکہ ریاست کے کچھ دوسرے اداروں پر بھی بغاوت کی ذمہ داری عائد کی جارہی ہے۔ بغاوت میں فتح اللہ گولن کے حامی ترک حکومت کے فوجی و ایئر فورس مشیر اور ڈپٹی چیف آف اسٹاف بھی شامل تھے۔ بغاوت کے دوران صدر طیب اردوان کی جان کو شدید خطرات لاحق تھے مگر اللہ نے انہیں ایک نئی زندگی عطا کی۔ بغاوت ناکام ہونے کے بعد صدر طیب اردوان نے امریکہ سے فتح اللہ گولن کی حوالگی کا مطالبہ کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ فتح اللہ گولن منتخب حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کے ذمہ دار اور ماسٹر مائنڈ ہیں جو امریکی ریاست پنسلوانیا سے بغاوت کو کنٹرول کررہے تھے۔
ایسی اطلاعات ہیں کہ کچھ ماہ قبل روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے اپنے مشیر الیگزینڈر ڈوگین کو خفیہ مشن پر انقرہ بھیجا تھا جنہوں نے ترک حکام کو بتایا کہ اردوان حکومت کے خلاف فوج میں بغاوت جنم لے رہی ہے اور ان فوجی باغیوں کودوسری سپر پاور کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ پیوٹن کے مشیر نے ترکی کے حکام کو ترک فوج کے ایسے جنرلز اور ایئرفورس کے سینئر حکام کی فہرست بھی فراہم کی جو فوجی بغاوت میں اہم کردار ادا کررہے تھے۔ بعد ازاں اردوان حکومت نے بغاوت میں ملوث مسلح افواج کے 2 ہزار سے زائد اعلیٰ افسران کی خفیہ فہرست عدلیہ کو فراہم کرتے ہوئے درخواست کی کہ ان فوجی افسران کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے جائیں مگر عدلیہ نے نہ صرف ایسا کرنے سے انکار کیا بلکہ بغاوت میں ملوث کچھ سینئر فوجی افسران کو مذکورہ حکومتی اقدامات سے بھی آگاہ کردیا جس کے بعد باغی فوجی جنرلز نے جلد بازی میں حکومت کے خلاف بغاوت کا اقدام اٹھایا۔ روسی حکام کو ترک فوج میں بغاوت کا علم اُس وقت ہوا جب کچھ ماہ قبل روسی SU-24 طیاروں کو مار گرانے والے ترک فضائیہ کے دو پائلٹس کی خفیہ گفتگو روسی خفیہ ایجنسیوں نے ریکارڈ کی جس سے یہ انکشاف ہوا کہ ترک پائلٹس نے امریکہ کے اشارے پر روسی طیارے تباہ کئے تھے جس کا مقصد ترکی اور روس کے تعلقات خراب کرنا تھا۔ روسی حکام کو اسی گفتگو میں اردوان حکومت کے خلاف ترک فضائیہ کی بغاوت کے اشارے بھی ملے جس کے بارے میں روس نے ترکی کے حکام کو آگاہ کیا۔

بعد ازاں روسی طیاروں کی تباہی پر ترکی کے صدر طیب اردوان نے روسی صدر ولادی میر پیوٹن کو معافی کا خط لکھا جس کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آئی۔ فوجی بغاوت میں ناکامی کے بعد روسی صدر پیوٹن نے ترکی کے صدر طیب اردوان کو فون کرکے بغاوت کی ناکامی پر مبارکباد دی اور ترکی سے مزید تعاون کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ الزام لگایا جا رہا ہے فوجی بغاوت میں امریکہ کے ملوث ہونے کی تصدیق اس بات سے ہوتی ہے کہ روسی طیارے مارگرانے والے مذکورہ ترک پائلٹس نے امریکہ کے اشارے پر بغاوت میں اہم کردار ادا کیا تھا جبکہ ترکی میں قائم امریکی ایئربیس کو فضائی حملوں کیلئے بھی استعمال کیا گیا اور یہاں ترک باغی فوجیوں نے پناہ لے رکھی تھی جس کے باعث اردوان کے حامیوں نے امریکی بیس کو بجلی کی فراہمی معطل کردی تا ہم بغاوت ناکام ہونے کے 4 دن بعد امریکی صدر باراک اوباما نے دنیا کو دکھانے کیلئے ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کو فون کرکے معاملہ افہام و تفہیم سے حل کرنے پر زور دیا۔

فوجی بغاوت میں ملوث فتح اللہ گولن کا گروپ عرب ریاستوں میں موجود ’’اخوان المسلمون‘‘ کی طرح ترکی میں انتہائی منظم گروپ سمجھا جاتا ہے جس کا بنیادی مقصد سماجی، تعلیمی اور بینکاری سرگرمیوں کے ذریعے متوازی ریاستی ڈھانچے کو تشکیل دینا ہے تا کہ عوام کی بنیادی سطح تک پہنچ کر اُنہیں کنٹرول کیا جاسکے۔ کچھ دہائی قبل تک فتح اللہ گولن کا گروپ ترکی میں اتنا مقبول نہ تھا تاہم 1980ء کے بعد فتح اللہ گولن نے ترک حکومت کی ناقص معاشی پالیسیوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اناطولیہ میں 40 سال تک مسجد کے وکیل کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے فتح اللہ گولن نے ملک بھر کے مذہبی اسکولوں کو منظم طریقے سے تشکیل دے کر اپنی تعلیمی و خیراتی سرگرمیوں کا دائرہ وسط ایشیائی ریاستوں تک پھیلادیا اور بڑے بڑے مالیاتی و خیراتی ادارے اور ریڈیو و ٹی وی اسٹیشنز قائم کرکے ترکی سمیت دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کی۔ گولن کے اثر و رسوخ اور حمایت کی بدولت ہی طیب اردوان کی جماعت عدل و انصاف پارٹی نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تاہم بعد میں طیب اردوان اور فتح اللہ گولن کے درمیان رنجشیں پیدا ہوگئیں جس کے باعث دونوں نے اپنے راستے الگ کرلئے۔

ترکی میں فوجی بغاوت کی طویل تاریخ ہے، 1960ء، 71ء، 80ء اور 97ء کی دہائیوں میں ترک فوج حکومت کا تختہ الٹ کر برسراقتدار آچکی ہے تاہم حالیہ فوجی بغاوت کے بعد ترکی کے قائم مقام آرمی چیف نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ’’ترکی میں فوجی آمریت کے راستے ہمیشہ کیلئے بند ہوچکے ہیں اور اب فوج کا جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر برسراقتدار آنے کا خواب کبھی پورا نہیں ہوسکے گا۔‘‘ فوجی بغاوت کے بعد مخالفین کی بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور انہیں ملازمت سے برخاست کرنے کے اقدامات کی بناء پر ایک طرف مغربی ممالک طیب اردوان کو آمر سے تشبیہ دے رہے ہیں تو دوسری طرف فوجی بغاوت کے بعد صدر طیب اردوان کی مقبولیت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور ان سے یکجہتی کئےکیلئے ترکی کے عوام سڑکوں پر اب بھی موجود ہیں جن میں اپوزیشن جماعتوں کے لوگ بھی شامل ہیں۔ یہ مقبولیت صرف ایسے لیڈر کو ہی حاصل ہوسکتی ہے جس نے ملک اور عوام کی حالت بہتر کرنے میں ان سے کئے گئے وعدے پورے کئے ہوں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ 15 سالوں کے دوران طیب اردوان کے دور حکومت میں ترکی کی معیشت میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ طیب اردوان جب برسر اقتدار آئے تو ترکی، آئی ایم ایف کے 24 ارب ڈالر کا مقروض تھا مگر آج ترکی نے تمام قرضے ادا کرکے آئی ایم ایف سے مکمل چھٹکارا حاصل کرلیا ہے۔ ترکی کی معیشت (جی ڈی پی) میں 2002ء سے 2012ء کے دوران 64 فیصد اضافہ ہوا ہے، 2002ء میں ترکی کے مرکزی بینک کے پاس 26 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر تھے جو آج 92 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکے ہیں، افراط زر (مہنگائی) 32 فیصد سے گرکر 8 فیصد کی سطح پر آگئی ہے، ترکش کرنسی لیرا جس کی قدر 1996ء میں ایک ڈالر کے مقابلے میں 222 لیرا تھی، آج ایک ڈالر کے مقابلے میں 2.94لیرا کے مساوی ہے۔ طیب اردوان نے بجٹ میں سب سے زیادہ رقم تعلیم کیلئے مختص کئے، 2002ء میں تعلیم کیلئے صرف 7.5 ارب لیرا مختص تھے جسے بڑھاکر 34 ارب لیرا تک کردیا گیا ہے۔ طیب اردوان کے اِنہی اقدامات کے باعث اُن کی جماعت اے کے پی نے 2002ء سے 2011ء کے دوران ہونے والے انتخابات میں مسلسل کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

ترکی میں ہونے والی فوجی بغاوت میں پاکستانی سیاستدانوں کیلئے بھی سبق پوشیدہ ہے کہ اگر منتخب نمائندے خود کو عوام کا خادم سمجھیں اور حکومتی پالیسیوں کی بدولت عوام کی معیار زندگی میں بہتری آئے تو پھر عوام ایسی حکومت کا ساتھ دیتے ہیں لیکن اگر عوام کو روٹی، روزگار، تعلیم، صحت اور امن و امان جیسی بنیادی سہولتیں میسر نہ ہوں اور منتخب نمائندے کرپشن میں ملوث ہوں تو غریب عوام کیلئے زندگی بوجھ بن جاتی ہے اور وہ ذہنی تنائو کا شکار ہوکر متبادل نظام کی طرف دیکھنے لگتے ہیں جو خاموش بغاوت کی علامت ہے اور یہ موجودہ حالات میں لوگوں کے ذہنوں میں جنم لے رہی ہے۔ نواز حکومت کو چاہئے کہ وہ کرپشن کے خاتمے، معیشت کے استحکام اور امن و امان کی بہتری کیلئے عملی اقدامات کرے تاکہ ترکی کی طرح پاکستان میں بھی معاشی انقلاب لایا جاسکے جس سے عام آدمی کا معیار زندگی بہتر ہو لیکن اگر ایسا نہ کیا گیا تو عوام متبادل نظام کی طرف دیکھنے میں حق بجانب ہوں گے جو اُن کی محرومیاں دور کرکے زندگی میں بہتری لا سکے گا۔

اشتیاق بیگ

 بشکریہ روزنامہ 'جنگ'


Post a Comment

0 Comments