Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

امریکہ پوری دنیا نہیں، بھارت جان لے: چینی میڈیا

جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول میں نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) کے اجلاس میں بھارت کی رکنیت کی درخواست قبول نہیں کی جاسکی اور فی الحال یہ درخواست ہی ہے۔ بھارت نے اس کے لیے بالواسطہ طور پر چین کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ بھارت کے الزامات پر چین کے سرکاری اخبار ’گلوبل ٹائمز‘ نے ایک اداریہ لکھا ہے۔

گلوبل ٹائمز میں شائع ہونے والے اداریہ کا ترجعہ
’نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) کا اجلاس گذشتہ ہفتے سیئول میں منعقد ہوا۔ این ایس جی میں جمعرات کی شام جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی پر دستخط نہ کرنے والے ممالک کو این ایس جی کی رکنیت دیے جانے پر بحث کے لیے ایک خصوصی کانفرنس منعقد کی گئی۔ اس میں چین سمیت 10 ممالک نے اس کوشش کی مخالفت کی۔ بھارت این پی ٹی پر دستخط نہ کرنے والے ممالک میں شامل ہے لیکن وہ این ایس جی میں شامل ہونے کے لیے سب سے زیادہ دلچسپی رکھنے والا مدعی ہے۔ سیئول کانفرنس سے پہلے بھارتی میڈیا نے انڈیا کی دعویداری کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ کچھ نے یہاں تک لکھا کہ این ایس جی کے 48 ارکان میں چین کے علاوہ تمام 47 ممالک نے بھارت کی حمایت کے لیے ہری جھنڈی دکھا دی ہے۔‘
  بھارتی میڈیا نے بھارت کی دعویداری کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا
’سنہ 1975 میں قیام کے بعد سے ہی این ایس جی کے تمام ارکان نے این پی ٹی پر دستخط کیے ہیں۔ یہ اس تنظیم کا بنیادی اصول بن گیا ہے۔ اب بھارت این پی ٹی پر دستخط کیے بغیر این ایس جی میں شامل ہوکر پہلا استثنیٰ بننا چاہتا ہے۔ لیکن یہ چین اور دیگر رکن ممالک کی منطقی ذمہ داری ہے کہ وہ اصولوں کی حفاظت کے لیے بھارت کی تجویز کو مسترد کر دیں۔‘

’بہرحال انڈیا میں رائے عامہ نے اس کے متعلق سخت رد عمل کا اظہار کیا: بعض انڈین میڈیا ہاؤسز نے چینی موقف کو بدنام کرنا شروع کر دیا جبکہ بعض ہندوستانیوں نے چین میں بنی ہوئی اشیا کے بائیکاٹ اور برکس سے ہٹنے تک کا مطالبہ کر ڈالا۔ بھارت کے عزائم کی امریکی حمایت نے سب سے زیادہ حوصلہ افزائی کی ہے۔ بھارت کو حمایت دینے کی امریکہ کی بھارت نواز پالیسی کا مقصد دراصل چین کے گرد دائرہ تنگ کرنا ہے۔ ’امریکہ پوری دنیا نہیں ہے۔ اس کی حمایت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انڈیا نے پوری دنیا کی حمایت حاصل کر لی ہے۔ اس بنیادی حقیقت کو ہندوستان نے نظر انداز کیا ہے۔
  
بعض بھارتیوں کی شکایت کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ چین کی کارروائی بین الاقوامی قوانین کے مطابق تھی۔ لیکن بھارت کے رد عمل سے یہ ظاہر ہوا کہ اس کے قومی مفاد کے لیے دنیا بھر میں رائج اصولوں کی خلاف ورزی کر دی جائے۔ حالیہ برسوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ مغربی دنیا نے بھارت کی بہت تعریف کی ہے جبکہ چین نے برائی کی ہے۔ بھارت کو بگاڑ دیا گیا ہے۔ ہر چند کہ پورے جنوبی ایشیا کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) چین کے جی ڈی پی کا صرف 20 فیصد ہی ہے تاہم یہ (انڈیا) اب بھی مغرب کی نگاہ میں کرشمائی بچہ ہے جو اپنے حریفوں کے مقابلے میں برتری رکھتا ہے اور اس کے پاس صلاحیت بھی چین سے زیادہ ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ملنے والی تعریف و توصیف نے بین الاقوامی معاملات میں انڈیا کو قدرے مغرور بنا دیا ہے۔ 

’پیر کو میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول رجيم (ایم ٹی سی آر) نے انڈیا کو شامل کیا لیکن چین کو شامل کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ خبر چینی لوگوں میں چھوٹی سی لہر بھی پیدا نہیں کر پائی۔ چین کے لوگ بین الاقوامی سطح پر ملنے والے جھٹکوں کو برداشت کے لیے زیادہ بالغ ہو گئے ہیں۔‘

’کچھ بھارتی بہت خود غرض اور خود کو درست کہنے والے ہیں۔ اس کے برعکس انڈین حکومت اخلاق سے پیش آتی ہے اور رابطہ برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ برہمی کا اظہار نئی دہلی کے لیے کوئی متبادل نہیں۔‘’بھارتی قوم پرستوں کو یہ سیکھنا ہوگا کہ انھیں کیسا سلوک کرنا ہے۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان کا ملک اہم طاقت بنے تو انھیں یہ جاننا ہوگا کہ اہم طاقتیں اپنا کھیل کس طرح کھیلتی ہیں۔‘

بشکریہ بی بی سی اردو

Post a Comment

0 Comments