Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

میانمار: مسئلہ کا تاریخی اور علاقائی جائزہ

اس مضمون میں خلیجِ بنگال، ایشیا کے مہاجرین کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا
گیا ہے۔
الف) روہنگیا کے بارے میں میانمار (برما) کے لوگوں کا تاریخی نقطۂ نظر، جسے اب مذہب سے جوڑ دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے پناہ گزین افراد کی صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے۔
ب) بے گھر افراد کی حالتِ زار پر حکومتوں کی جانب سے انسانی بنیادوں پر تعاون کی کمی۔
ج) مسئلہ سے نمٹنے کے لیے علاقائی صورتحال کے استعمال کا چیلنج۔

۲۰۱۲ء کے نسلی فسادات کے بعد روہنگیا مسلمانوں کی اکثریت اپنے گھر بار چھوڑ کر خیموں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئی تھی۔ ان کیمپوں میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ غیر انسانی اور امتیازی سلوک برتا گیا، اس ظلم نے انہیں دوسرے ممالک کی جانب غیر قانونی ہجرت پر مجبور کیا۔ سماجی رابطے کے مختلف پلیٹ فارمز پر تیزی سے پھیلتی ہوئی تصاویر اور ویڈیوز نے عوام اور ذرائع ابلاغ کو اس بات پر مجبور کر دیا کہ وہ اس پیچیدہ اور سُلگتے ہوئے مسئلے کی طرف توجہ دیں۔

روہنگیا اور میانمار
میانمار کی آزادی سے پہلے اور آزادی (۱۹۴۸ء) کے بعد رہنے والی تمام حکومتوں کو روہنگیا مسئلہ کا سامنا رہا ہے۔ یہ مسئلہ دراصل میانمار کے جنوبی علاقے راخائن (اراکان) کے مقامی گروہوں، جوکہ مختلف مذہبی اور سماجی پس منظر رکھتے ہیں، کے درمیان متواتر جاری رہنے والے فسادات کا ہے۔ میانمار کی آزادی کے وقت سے ہی روہنگیا کے درمیان بداعتمادی کے بیج بو دیے گئے، جس کی وجہ سے روہنگیا مسلمانوں کے لیے علیحدہ ریاست کے حصول کی جدوجہد شروع ہو گئی۔ ۱۹۵۰ء کے وسط میں یہ جدوجہد مسلح بغاوت کی شکل اختیار کرگئی۔ پھر نااہل حکومت نے لوگوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرکے انہیں ہجرت پر مجبور کر دیا۔ ماضی میں انخلا کے مسئلے کو داخلی مسئلے کے طور پر لیا گیا یا پھر پڑوسی ملک بنگلادیش کے ساتھ باہمی بات چیت میں اس مسئلے پر بات چیت ہوتی رہی ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک اس مسئلے پر علاقائی تنظیم آسیان تک میں بھی تبادلۂ خیال نہیں کیا گیا۔

۲۰۰۹ء میں روہنگیا مسلمانوں کی حالتِ زار اور ان کی سمندری راستے سے ہجرت کو بڑے پیمانے پر میڈیا کوریج ملی، جس پر آسیان کے ارکان اس بات پر مجبور ہوئے کہ سربراہی اجلاس سے پہلے وزرائے خارجہ کے غیر رسمی اجلاس میں اس مسئلے پر خصوصی طور پر بات کی جائے۔ یہ پہلا موقع تھا جب میانمار کے وزیرِ خارجہ نے فوجی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے بیان دیا کہ روہنگیا مسلمانوں کو صرف ایک شرط پر واپس آنے دیا جائے گا کہ وہ اپنی شناخت بنگالی کے طور پر کریں۔ اس کے علاوہ آسیان کے اجلاس میں پہلی دفعہ اس مسئلے پر میانمار کے کردار اور ذمہ داری پر بھی تبادلۂ خیال کیا گیا۔ تاہم آسیان کے تمام ارکان ممالک کا مجموعی مسئلہ نہ ہونے کی وجہ بنا کر اس معاملے کو نظر انداز کر دیا گیا۔ اور اس تنظیم نے جس طرح اس مسئلے کو صرف متاثرہ ممالک کے مسئلہ کے طور پر دیکھا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ آسیان ممالک کی ترجیحات میں کیا مقام رکھتا ہے۔

روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے نے ۲۰۱۲ء میں ایک دفعہ پھر شہ سرخیوں میں جگہ بنائی، جب جون کے مہینے میں اراکان کے علاقے میں پھر سے نسلی فسادات شروع ہوئے اور یہ فسادات میانمار کے دوسرے علاقوں میں بھی پھیل گئے۔ ان فسادات کے نتیجے میں ملائیشیا میں موجود میانمار اور ملائیشیا کے مزدوروں میں جھگڑے شروع ہوگئے۔ اس مسئلے کو مئی ۲۰۱۵ء میں اس وقت تاریخی کوریج ملی جب خلیج بنگال کے تارکینِ وطن کو انڈمان کے سمندر میں انسانی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔
ذرائع ابلاغ کی جامع اور بھرپور کوریج نے اس کثیر الجہتی اور پیچیدہ مسئلے کو دنیا بھر میں نمایاں کر دیا۔ میڈیا کی بھرپور کوریج نے حکمراں جماعت Union Solidarity and Development Party (USDP اور حزب اختلاف کی جماعت National League for Democracy (NLD کو اپنے اپنے ردعمل کے اظہار پر مجبور کر دیا۔ سرحدی علاقوں کی ناقص نگرانی اور انسانی اسمگلروں کے کردار پر بننے والی رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی کہ نہ صرف میانمار کے مختلف گروہوں نے بلکہ تھائی لینڈ اور ملائیشیا نے بھی روہنگیا مسلمانوں کا استحصال کیا۔ ایسے وقت میں جب خطے کے تقریباً تمام ممالک تارکین وطن کو پناہ دینے سے ہچکچا رہے تھے تو آچے (انڈونیشیا) کے لوگوں نے سمندر میں پھنسے سیکڑوں تارکین وطن کو باحفاظت ساحل پر پہنچایا۔ 

بحران کے اس سال میں آسیان کی میز بانی ملائیشیا نے کرنی تھی، اس لیے ملائیشیا نے مرکزی اجلاس سے پہلے اس مسئلے سے متاثرہ ممالک کی ایک میٹنگ بلائی، جس میں میانمار نے شرکت سے انکار کر دیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ آسیان کے اجلاس کی تھیم تھی ـــ’’ہمارے لوگ، ہماری سوسائٹی، ہمارا وژن‘‘۔ ۲۹ مئی ۲۰۱۵ء کو تھائی لینڈ میں عالمی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس میں سترہ ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی، اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی مختلف ایجنسیاں بھی اس کانفرنس میں شریک ہوئیں۔ میانمار نے اس کانفرنس میں شرکت اس شرط کے ساتھ کی کہ اجلاس میں ’’روہنگیا‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا جائے گا۔ 

ان دو اجلاسوں میں بحران کے حل کی ناکامی پر شدید تنقید کی گئی اور تارکینِ وطن جن ممالک میں پناہ حاصل کرنا چاہ رہے تھے، ان ممالک سے معاہدہ طے پایا کہ وہ تارکین وطن کو عارضی طور پر پناہ فراہم کریں گے، آسیان سرحدوں پر انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے اپنا کردار ادا کرے گی۔ دوسری طرف میانمار نے اپنا قصور ماننے سے انکار کر دیا، نتیجتاً بنیادی وجوہات جاننے اور عارضی پناہ گاہوں میں موجود تارکین وطن کے مستقل حل کے لیے ہونے والی بات چیت بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گئی۔ اس مسئلے میں میانمار کے اپنے کردار پر بحث سے انکار کی وجہ سے معاملہ آج تک حل طلب ہی ہے۔

اگرچہ نومبر ۲۰۱۵ء میں ہونے والے انتخابات میں واضح طور پر تبدیلی کے لیے ووٹ دیے گئے لیکن اس کے باوجود سابقہ فوجی حکومت اور صدر تھن شین کے اس مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی کہ ’’اس ملک میں کوئی روہنگیا نہیں، یہ صرف بنگالی نژاد لوگ ہیں‘‘۔ ویسے تو میانمار میں ان لوگوں کی پہچان روہنگیا نہیں بلکہ مسلمان یا بنگالی کے طور پر کی جاتی ہے۔ مسلمان کی اصطلاح استعمال کرنے کی وجہ سے ملک کے دیگر حصوں میں رہنے والے مسلمان بھی نسلی امتیاز کی زد میں آجاتے ہیں، جن سے ان کی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس نسلی امتیاز کی وجہ سے قوم پرستی میں اضافہ ہوتا ہے اور لوگوں کے دلوں میں باہر سے آنے والے یا کسی اور تعلق کی وجہ سے پہچانے جانے والے گروہوں کے خلاف نفرت بڑھ جاتی ہے۔ اس کا واضح ثبوت ۲۰۱۵ء کے انتخابات سے ملتا ہے، جس میں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے کسی ایک مسلمان امیدوار کو بھی ٹکٹ نہیں دیا، صرف اس ڈر سے کہ قوم پرستوں کا شدید ردعمل سامنے آسکتا ہے۔ اس صورتحال کو سامنے رکھ کر سوچا جائے تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا اس ماحول میں روہنگیا مسلمانوں کے لیے انسانی ہمدردی پر کسی کو راضی کرنا ممکن بھی ہوگا؟ اگر ہاں، تو کون کرے گا انسانی ہمدردی، ان مظلوموں سے؟

میانمار کے اس مسئلے کی تاریخ
میانمار میں سول سوسائٹی کے تحرک کو شروع ہی سے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ لیکن سول سوسائٹی کا یہ تحرک ہمیشہ سے حکومتوں کی نااہلی اور غیرقانونی احکامات کے خلاف مجموعی ردعمل کے طور پر سامنے آیا ہے۔ حتیٰ کے آمرانہ دورِ حکومت میں بھی سماجی بہبود کے مسائل کے حل کے لیے مقامی لوگوں کی طرف سے بنائی گئی انجمنوں کو نہیں چھیڑا گیا۔ یہی وجہ ہے کے بہت سی سول سوسائٹی کی تنظیموں نے پابندیوں کے باوجود آمرانہ دور حکومت میں بھی سماجی نیٹ ورک کے ذریعے سے عوام کے مسائل کو نہ صرف سمجھا بلکہ ممکنہ حد تک حل بھی کیا۔

نوے کی دہائی کے وسط سے آخر تک فوجی حکومت آہستہ آہستہ ان انجمنوں کے حوالے سے نرمی برتنے لگی بلکہ حکومت کے زیادہ تر کام بھی انہی سے کروائے جانے لگے، سول سوسائٹی کی تنظیموں نے پہلے سماجی بہبود اور صحت کے شعبے پر اور بعد میں ماحولیاتی مسائل پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ عین اُس وقت جب حکومت سول سوسائٹی کو کام کرنے کے حوالے سے کھلی چھوٹ دی جارہی تھی، قومی غیر سرکاری تنظیمیں بھی متعارف کروائی گئیں۔ جنگ بندی کے معاہدوں کے بعد ان غیر سرکاری تنظیموں کو اقلیتی علاقوں میں کام کرنے کی اجازت دی گئی۔ تنظیموں کے اندراج کے پیچیدہ طریقۂ کار کی وجہ سے ان کی صحیح تعداد بتانا تو مشکل ہے۔ بہرحال اجتماعی سماجی سوچ کے پروان چڑھنے کی وجہ سے لوگ سیاست سے بالاتر ہو کر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ عملی طور پر اس کا مظاہرہ ۲۰۰۸ء میں آنے والے سمندری طوفان کے وقت دیکھا گیا۔ پھر جنگ زدہ ریاست ’’کا چین‘‘ کے بے گھر افراد کی مدد بھی لوگوں نے دل کھول کر کی۔ لیکن ۲۰۱۲ء میں ہونے والے راخائن۔ روہنگیا فسادات میں معاملہ اس کے برعکس رہا۔

۲۰۰۸ء میں آنے والے سمندری طوفان کے بعد سول سوسائٹی کی مختلف تنظیموں نے دیہی علاقوں میں جا کر بہترین کام کیا، جس وقت عالمی ذرائع ابلاغ پسماندہ علاقوں میں حکومتی مدد نہ پہنچنے کا شور مچا رہے تھے، اس وقت یہ غیر سرکاری تنظیمیں ان علاقوں تک رسائی حاصل کر چکی تھی۔ ان تنظیموں نے متاثرہ علاقوں کی بحالی اور بے گھر افراد کی بھرپور مدد کی۔ اس سارے عمل میں ہزاروں کی تعداد میں رضاکاروں نے بھی ان تنظیموں کے ساتھ کام کیا۔
تاہم ۲۰۱۲ء میں جب راخائن۔روہنگیا فسادات میں ایک لاکھ چالیس ہزار لوگ بے گھر ہوئے، جن میں سے اکثریت کے پاس شہریت نہیں تھی اور وہ بہت ہی نازک صورتحال سے گزر رہے تھے، اس وقت پہلے جیسی انسانی ہمدردی کہیں نظر نہیں آئی۔ ۲۰۱۴ء میں میانمار حکومت نے ایک پروجیکٹ شروع کیا، جس کے تحت روہنگیا مسلمانوں کو شہریت دینے کا فیصلہ کیا گیا۔

شہریت دینے کی شرط یہ رکھی گئی کہ وہ اپنا آبائی تعلق بنگلا دیش سے دکھائیں گے، جس پر یہ معاملہ تنازع کا شکار ہو گیا اور حکومت نے شہریت کا اجرا روک دیا۔ اُدھر بے گھر افراد کے کیمپ تک رسائی کو مشکل بنا دیا گیا۔ عالمی تنظیموں کی جانب سے آنے والی امداد پر انتہا پسندوں کی جانب سے کڑی تنقید کی گئی، انتہا پسندوں کا کہنا تھا کہ امداد صرف روہنگیا مسلمانوں میں تقسیم کی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ امدادی کاموں کے دوران مقامی راخائن کمیونٹی کے لوگوں نے عالمی تنظیموں کے لیے بہت سی مشکلات کھڑی کیں۔ مسلمان مخالف سرگرمیوں اور شدید قوم پرستی کے باوجود سول سوسائٹی نے بین المذاہب گروہ تشکیل دے کر نفرت آمیز بیانات کو روکنے کی کوششیں کیں۔ انتہا پسندانہ ماحول میں جہاں لوگ ایک گروہ کے حوالے سے شدید نفرت کے جذبات رکھتے ہوں اور بظاہر حکومت بھی اس کو کم کر نے میں سنجید ہ نہ ہو، وہاں یہ ایک مشکل کام تھا۔
آنے والے وقت میں دیکھنا یہ ہوگا کہ یہ سماجی کو ششیں بین المذاہب مکالمہ کی مدد سے ریاست راخائن میں جاری کشیدگی کو کم کر پاتی ہیں یا نہیں، اس کے ساتھ ساتھ میانمار کے بیرونی شراکت دار اس تبدیلی کے لیے اس کی مدد کرتے ہیں یا نہیں۔

آسیان کا کردار
رکن ملک میں اندرونی خلفشار کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے افراد کا معاملہ آسیان ممالک کی تنظیمی اصطلاح میں ’’اندرونی معاملہ‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ اس لیے آسیان ممالک کا ایسے معاملات میں دخل اندازی کرنا ’’عدم مداخلت‘‘ کے اصول سے مشروط ہے۔ میانمار میں نسلی فسادات کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے افراد کا معاملہ شہ سرخیوں میں اتنی جگہ نہیں بنا پاتا جتنا کہ غیرقانونی ہجرت کرنے والے مزدوروں کا۔ تاہم عالمی تنظیم کے مطابق میانمار وہ ملک ہے جہاں سے سب سے زیادہ تعداد میں لوگ ہجرت کرتے ہیں، اور ہجرت کرنے والوں کی بڑی تعداد وہ ہوتی ہے جو ملک میں جاری لڑائی کی وجہ سے بے گھر ہوتے ہیں، اس کے علاوہ غیر ہنرمند افراد جو جانتے ہیں کہ آسیان ممالک میں لیبر کی کمی کی وجہ سے انہیں اچھی تنخواہ پر مزدوری مل جائے گی۔

حکومت ابھی تک اس مسئلے پر کوئی مربوط پالیسی تشکیل دینے میں ناکام رہی ہے۔ مثال کے طور پر تارکین وطن کے مسئلے کو وزارت محنت دیکھتی ہے، جبکہ بے گھر افراد اس کے دائرہ اختیار میں نہیں۔ اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کو سماجی بہبود، ریلیف اور آباد کاری کی وزارت دیکھتی ہے۔ موجودہ حالات میں اس وزارت کے کاموں بے جا سیاسی مداخلت کی جارہی ہے۔ بین الاقوامی تنظیمیں اور اقوام متحدہ کی ایجنسیاں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بیشتر کاموں میں میانمار حکومت کی مدد کرتی نظر آتی ہیں۔

روہنگیا مسئلے کے مختلف پہلو ہیں، مثلاً قومی شناخت، شہریت، بدعنوانی، قانون کی حکمرانی، بنیادی سماجی خدمات تک رسائی اور سب سے اہم غربت۔ اس مسئلے کہ یہ سب پہلو میانمار میں ہونے والی تبدیلی اور جمہوریت کی مضبوطی کے عزم کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ میانمار حکومت پر دباؤ کا نتیجہ ہے یا پھر حکومت کا قائل ہونا، کہ آسیان فورم کے ذریعے پردے کے پیچھے ہونے والی سفارت کاری اس مسئلے کے حل کے لیے زیادہ موثر ثابت ہو رہی ہے۔ اس سفارت کاری کے نتیجے میں U.S.D.P حکومت نے راخائن ریاست کی سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے کیے گئے سابقہ وعدوں پر دوبارہ غور کرنا شروع کر دیا ہے۔ آسیان کے ذریعے ہونے والی مشاورت سے میانمار میں پہلے سے بہتر سیاسی ماحول سامنے آئے گا، اس کے علاوہ راخائن ریاست کے لیے تعمیری اور متوازن حکمت عملی بنانے میں مدد ملے گی۔

اس طویل مدتی حکمت عملی کی راہ میں بہت سے چیلنج آئیں گے۔ تبدیلی کی خواہش خود سے کی جائے تو زیادہ بہتر ہوتی ہے، بجائے اس کے کہ تبدیلی بیرونی دباؤ پر کی جائے۔ ماضی میں میانمار کے اس مسئلے کے حل کے لیے ایشیائی اور آسیان ممالک ایک کشمکش کا شکار رہے ہیں، انہیں ایک متوازن حکمتِ عملی بنانے کے لیے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، ایک طرف تو میانمار پر مسئلے کے حل کے لیے دباؤ بڑھانے کی ضرورت تھی اور دوسری طرف انہیں ڈر تھا کہ دباؤ کے نتیجے میں کہیں وہ سب بھی نہ کھو دیں، جو اَب تک حاصل کیا ہے، یعنی ہم پر سے کہیں میانمار کا اعتماد ہی نہ اٹھ جائے۔
میانمار کے جمہوریت کی جانب سفر اور تبدیلی کی اس فضا میں درپیش چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے آسیان ممالک بڑی حد تک میانمار کی مدد کرسکتے ہیں۔ تاہم روہنگیا مسئلے پر جاری کشیدگی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ آنے والا وقت بتائے گا آیا آسیان میانمار میں ہونے والی تبدیلی اور قومی مفاہمت میں کس حد تک سہولت کاری کا کردار ادا کر سکے گا۔

(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“Where history and humanitarianism collide: The bay of Bengal ‘Migrant’ crisis”. “mei.edu”. March 31, 2016

Post a Comment

0 Comments