Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

جبل الطارق بھی جائے گا سکاٹ لینڈ بھی

پختونخواہ حکومت نے اکوڑہ خٹک کے جامعہ حقانیہ کے لئے 30 کروڑ روپے
امداد کا اعلان کیا کہ طوفان آ گیا۔ کیا دائیں بازو والے کیا بائیں بازو والے، سبھی محبان وطن نے ایک ہی قوالی شروع کر دی کہ یہ' غداری 'ہے۔ دہشت گردوں کے مدرسے کو رقم دے کر عمران خان نے دہشت گردی کی سرپرستی کی۔ لیکن کوئی بھی قوال یہ نہیں بتا رہا اور کوئی پوچھ بھی نہیں رہا ہے کہ قوالی رکے تو یہ پوچھنے کی نوبت آئے کہ مدرسہ حقانیہ کو دہشت گرد کس گزٹ کے تحت قرار دیا گیا ہے۔ ایک وفاقی وزیر نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ اس مدرسے نے بےنظیر کو قتل کیا اور یہ بیان دے کر اپنی ہی پارٹی کے موقف پر پانی پھیردیا کہ بےنظیر کا قتل مشرف کا کرشمہ تھا۔

مشرف نے بےنظیر کا قتل ہوتے ہی موقع واردات پر پانی پھیر دیا تھا۔ محاورتاً نہیں، سچ مچ تا کہ کوئی شہادت یا ثبوت نہ مل سکے۔ اب یہ دوسرا پانی ہے جو وفاقی زیر نے پھیرا ہے۔ وفاقی وزیر کو پتہ ہے کہ بےنظیر کا قتل مدرسہ حقانیہ نے کرایا تھا تو انکا فرض بنتا ہے کہ وہ یہ اطلاع اپنے قائد نواز شریف کو دیں جنہوں نے انتخابی مہم میں بےنظیر کے قاتل پکڑنے کا وعدہ کیا تھا۔ ایک معزز کالم نویس نے لکھا کہ مدرسہ حقانیہ نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی اور اب بھی یہ مدرسہ بھارت کا ہمدرد ہے۔ بھارت کا ہمدرد یعنی بھارت کا ایجنٹ ۔ پھر تو سرکاری ادروں سے بڑی بھول ہورہی ہے کہ وہ کراچی میں را کے ایجنٹ تلاش کرتے پھرتے ہیں انہیں پہلی فرصت میں حقانیہ پر چھاپہ مارنا چاہیے۔ 

حیرت ہے کہ اتنے درجنوں سکیورٹی ادارے جس راز کو نہ پا سکے وہ ایک کالم نویس نے فاش کر دیا لیکن ایک کالم لکھنے اور پھر ایک دن کا وقفہ دے کر دوسرا کالم لکھنے میں ایک خرابی یہ ہو جاتی ہے کہ پہلے کالم میں کیا لکھا تھا، یہ بات اکثر بھول جایا کرتی ہے معزز کالم نویس نے پہلے کالم میں مدرسہ حقانیہ کو بھارت کا ایجنٹ قرار دیا اور ایک دن چھوڑ کر جو کالم لکھا اس میں بڑے صدمے سے یہ سوال اٹھایا کہ طالبان کے مدرسے کو 30 کروڑ روپے دینے سے بھارت کو منفی پیغام جائے گا۔ منفی پیغام کیسے؟ بھارت تو خوش ہوگا کہ اس کے ایجنٹ مدرسے کو رقم مل رہی ہے۔ ویسے یہ اپنی جگہ سوچنے کی بات ہے کہ کیا مقام آگیا ، اب ہمیں کوئی قدم اٹھاتے ہوئے یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ بھارت کو کیا پیغام ملے گا؟ پہلے یہ مقام صرف امریکہ کے لئے خاص تھا، اب بھارت بھی شریک ہوگیا۔

سبحان تری قدرت! معزز کالم نویس نے دہشت گردی کی جنگ میں 60 ہزار شہیدوں کا خون بھی مدرسہ حقانیہ پر ڈال دیا ہے۔ یہ بھی وہ نکتہ ہے جو اداروں کے نکتہ ورحل نہ کر سکے کالم نگار نے حل کر دیا ۔ ایک دلیل یہ ہے کہ مدرسہ حقانیہ والوں نے پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ تو کیا جس نے پاکستان بننے سے پہلے مخالفت کی تھی، اسکا دانا پانی بند کر دیا جائے؟ کیا قائد اعظم ، مولانا شبیر احمد عثمانی، لیاقت علی خاں، سردار عبدالرب نشتر، نواب بہادر یار جنگ سمیت کسی بھی تحریک پاکستان کے رہنما نے یہ فتویٰ دیا تھا کہ جو لوگ قیام پاکستان کی مخالفت کر رہے ہیں، وہ کافر ہو گئے۔ کیا کوئی ایسا حکم بھی جاری ہوا تھا کہ بھارت سے صرف وہی مسلمان پاکستان آنے کی زحمت کریں جنہوں نے تحریک پاکستان کی حمایت کی تھی، مخالفت کرنے والے وہیں رہیں؟

یو پی بہار اور سی پی کے 90 فیصد مسلمانوں نے تحریک پاکستان کی حمایت کی تھی۔ وہ سارے کے سارے پاکستان نہیں آئے، زیادہ تر بھارت ہی میں رہ گئے۔ کیا بھارتی حکومت نے کوئی حکم دیا کہ یہ سارے لوگ اب بھارت سے نکل جائیں ۔ مشرقی بنگال کے 90 فیصد مسلمانوں نے تحریک پاکستان میں فعال حصہ لیا۔ اب وہ پاکستان کے مخالف ہو کر الگ ملک بن گئے تو کیا وہاں رہنے والے سترہ کروڑ مسلمان بھی کافر ہو گئے؟ پاکستان کی مخالفت پاکستان بننے سے پہلے اور بعد تھی، اب اور بات ہے۔ کیا افغان جہاد حکومت اور اداروں نے نہیں شروع کیا تھا؟ کیا اس وقت ادارے نہیں جانتے تھے کہ مدرسہ حقانیہ بھارت کا ایجنٹ ہے۔ سب سوالوں کے جواب صاف ہیں لیکن نکتے کی بات بس اتنی ہے کہ کچھ لوگوں کا اعتقاد اس بات پر ہے ہی نہیں کہ انہیں ایک دن قبر میں جانا ہے، جہاں ہر بات کی پوچھ گچھ ہونی ہے۔

اعتراض یہ ہونا تو ٹھیک تھا کہ ایک مدرسے کو کیوں، سب کو امداد ملنی چاہیے اور ایک مکتب فکر کے مدرسے ہی کو کیوں، دوسرے مسلک کے مدرسے بھی ایسی ہی خدمات انجام دے رہے ہیں انہیں کیوں مدد نہیں دی گئی۔ جو سوال بنتا ہے اسے کوئی اٹھا نہیں رہا اور جو نہیں بنتا، اسے سبھی اٹھائے جا رہے ہیں۔ خبر لیجئے صاحب، کہیں ضمیر کے ساتھ عقل و دانش بھی تو نہیں اٹھ گئی؟ خبر ہے کہ ممتاز قوال امجد صابری کو شہید کرنے والے مجرموں کا سراخ لگانے میں کچھ کامیابی ملی ہے۔ اللہ کرے پوری کامیابی ملے اور اللہ کرم کرے کہ اصل قاتلوں کی گرفتاری ہو، کسی کو قربانی کا بکرا نہ بنایا جائے۔ غیر متعلقہ بات سمجھے مگر اس خبر سے دھیان اس طرف بھی چلا گیا کہ کمال صاحب نے کیا کمال کی پارٹی بنائی ہے۔ جو اس میں آجائے وہ قتل کے الزام سے بری ہوجاتا ہے جو اس میں آنے سے انکار کرے وہ خود قتل ہوجاتا ہے۔ ہے نا کمال کی بات؟ یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی پر دنیا بھر میں کھلبلی مچی ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ برینڈن برگ گروپ جو یہ سمجھتا ہے کہ اس کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل سکتا، اسکا پول کھل گیا ہے کہ وہ تو یورپی یونین کو متحد رکھنا چاہتا تھا لیکن بھئی اصل بات کچھ اور بھی تو ہو سکتی ہے یعنی یہ کہ یہ پتہ بھی اسکی مرضی اور حکم سے ہلا ہو۔

یہ گروپ بابلی خانوادے پر مشتمل ہے یعنی رائل بابی لون فیملی جو بابل کی تباہی کے بعد یورپ چلی گئی تھی۔ جرمنی کی اشرافیہ بھی اسی خانوادے کی ہے لیکن سب سے زیادہ یہ خون برطانیہ، کینیڈا اور امریکہ والوں میں ہے۔ برطانیہ یورپی یونین سے نکلے گا تو وہ اس خالص بابلی خون والے گروپ سے جا ملے گا یعنی امریکہ، برطانیہ، کینیڈا ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور سری نام کا گروپ بن جائے گا۔ گویا دنیا میں ابھی کافی اتھل پتھل ہوگی۔ یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے ، دوسرا رخ برطانیہ کے لئے اچھا نہیں۔ ایک تو سکاٹ لینڈ میں ریفرنڈم کا مطالبہ اٹھے گا۔ وہ الگ ہوگیا تو برطانیہ صرف انگلینڈ کا نام رہ جائے گا۔ یعنی یونائیٹڈ کنگڈم آف گریٹ بریٹن اینڈ آئرلینڈ تو کبھی کی سکڑ گئی۔ جنوبی آئرلینڈ الگ ہوگیا جو آئرلینڈ کا زیادہ حصہ ہے۔ شمالی آئرلینڈ ایک چھوٹا سا ٹکڑا اس سلطنت میں رہ گیا ہے ، وہ بھی الگ ہو جائے گا۔ اسکاٹ لینڈ بھی جاتا نظر آتا ہے۔ پھر یہ یونائیٹڈ کنگڈم آف انگلینڈ اینڈ اونلی انگلینڈ رہ جائے گی۔

ادھر سپین نے مطالبہ کیا ہے کہ جبل الطارق ہمارے حوالے کرو۔ جبل الطارق، سپین کا وہ کونہ ہے جس کے بالمقابل چند کلومیٹر دور مراکش ہے۔ مسلمان جرنیل طارق بن زیادہ نے اسے فتح کیا تھا اور یہ پہاڑی کو نہ اسی کے نام سے منسوب ہے۔ یعنی یہاں بحیرہ روم ایک پتلی سی آبنائے کے ذریعے بحراوقیانوس سے ملتا ہے اور جو بھی جبرالٹر پہ بیٹھا ہو، وہ بحر روم کی ناکہ بندی کرسکتا ہے۔ اس کونے پر برطانیہ کا قبضہ ہے۔ سپین نے اسے واپس لینے کی کوشش شروع کر دی ہے۔ یوں سلطنت انگلینڈ اب اس آخری نو آبادیاتی کونے سے بھی محروم ہوسکتی ہے۔ جبرالٹر میں دو ہی قسم کی مخلوق مشہور ہے۔ ایک وہاں رہنے والے انگریز، دوسرے ہندوستانی بندر جو انگریز وہاں لے گئے تھے اور پھر وہ خوب پھلے پھولے۔

عبداللہ طارق سہیل
 بشکریہ روزنامہ "جہاں پاکستان"

Post a Comment

0 Comments