Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

بحیرۂ مردار خشک کیوں ہو رہا ہے ؟

بحیرۂ مردار یا دنیا میں نمکین پانی کی سب سے بڑی جھیل کی سطح میں سالانہ
ایک میٹر سے زیادہ کی کمی ہو رہی ہے۔ بحیرۂ مردار زمین پر سطح سمندر سے سب سے نچلا مقام ہے اور مشرق وسطیٰ میں سورج کی تپیش اور تازہ پانی کی کمی کی وجہ سے آہستہ آہستہ سکڑ رہا ہے۔ خشکی میں گھرے بحیرۂ مردار کی ایک جانب غزہ کا مغربی کنارہ اور اسرائیل ہے اور دوسری مشرق میں اردن ہے۔
اس کے کناروں پر بسنے والوں کو وقت کے ساتھ ساتھ ایک بحران کا سامنا ہے جس میں بحیرۂ مردار کو بچانے کے لیے اس میں پانی کی کمی کے مسئلے کو حل کرنا ایک بہت بڑا چلینج ہے۔

بحیرۂ مردار دنیا کے دیگر سمندروں کے مقابلے میں تقریباً نو گنا زیادہ نمکین ہے اور اس میں نمکیات اور معدنیات کی کثیر تعداد کی وجہ سے اس کا پانی مختلف نظر آتا ہے اور دیکھنے میں ایسا لگتا ہے کہ زیتون کے تیل کو ریت کے ساتھ ملایا گیا ہو۔ دہائیوں سے مقدس سرزمین یا اردن میں تعطیلات اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی تھیں جب تک بحیرۂ مردار کے پانی کی سطح پر لیٹے ہوئے تصویریں نہ بنا لی جائیں جس میں عام طور پر اس کے پانی کی غیر معمولی خصوصیات کی وجہ سے سطح پر لیٹے ہوئے اخبار پڑھنا شامل ہوتا تھا کیونکہ اس میں نمکیات اور معدنیات کی بہتات کی وجہ سے انسان قدرتی طور پر اس کی سطح پر ڈوبے بغیر تیر سکتا ہے۔

اس کے علاوہ بحیرۂ مردار کا منفرد ماحولیاتی نظام اور دنیا میں ماحولیات کی صورتحال سے متعلق ایک حساس پیمانہ بھی تصور کیا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ نے بحیرۂ مردار کے آہستہ آہستہ ختم ہونے کے بارے میں پڑھا ہو لیکن یہ مکمل سچ نہیں ہے کیونکہ جیسے جیسے اس کی سطح میں کمی ہو رہی ہے تو اس کی کثافت اور نمکیات میں اضافہ ہوتا جائے گا اور بلآخر ایک ایسے مقام پر پہنچ جائیں گی جہاں اس کا پانی اتنا وزنی ہو جائے گا کہ بخارات کی شکل میں تبدیل نہیں ہوگا۔ تو ہو سکتا ہے کہ یہ سکڑ کر بہت چھوٹا رہ جائے لیکن مکمل طور پر غائب نہیں ہو گا۔
 تاہم یہ خطرے کی حد تک سکڑ رہا ہے جس میں سطح میں سالانہ ایک میٹر سے زیادہ کی کمی ہو رہی ہے۔ اس تناظر میں یہ بحیرۂ مردار زمین پر سطح سمندر سے سب سے نچلا مقام ہے اور اس وقت یہ سطح سمندر سے 1380 فٹ نیچے ہے ۔
اس کے ساحل پر سفر کرتے ہوئے ہواؤں کے نتیجے میں آپ کے کان کے پردوں پر اسی طرح سے دباؤ پڑ سکتا ہے جیسا کہ جہاز میں سفر کے دوران جب وہ زمین پر لینڈ کر رہا ہوتا ہے۔ بحیرۂ مردار کے حیران کن طبی فوائد بھی ہیں جس میں دمے کے مرض میں مبتلا افراد کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔

معدنیات سے بھرپور پانی، سکون بخش کیچڑ اور سخت دھوپ کی وجہ سے تکلیف دہ جلد کی بیماریوں کا شکار افراد کو افاقہ ہوتا ہے اور اسی وجہ سے بعض ممالک میں صحت اور خیراتی ادارے جلد کے مرض میں مبتلا افراد کو اس شرط پر رقم دیتے ہیں کہ وہ بحیرۂ مردار پر تھیراپی کے لیے جائیں گے۔ بحیرہ مردار کی سطح میں کمی کے ساتھ علاقے میں گڑھوں کی تعداد میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے
اگرچہ بحیرۂ مردار سکڑ رہا ہے اور اس کی شکل تبدیل ہو رہی ہے لیکن پھر بھی اس کی معاشی قدر ہے۔ یہاں آنے کے لیے سیاح اردن یا اسرائیل کا انتخاب کر سکتے ہیں اور یہ دونوں ممالک نمکین جھیل کی معدنیات سے تیار کرہ کاسمیٹک مصنوعات برآمد بھی کرتے ہیں۔

بحیرۂ مردار کی ایک ساحلی پٹی فلسطین کے غرب اردن کے ساتھ لگتی ہے لیکن یہاں پر اسرائیل کے قبضے کی وجہ سے مستقبل میں فلسطین کے اس سمندر کی منفرد معدنی دولت سے فائدہ اٹھا سکے گا۔ اس سمندر کی تاریخی طور پر بڑی اہمیت رہی ہے جس میں مصری ملکہ قلو پطرہ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ بحیرۂ مردار کے علاقے کی خوبصورتی کی وجہ سے یہاں پر خوبصورتی کے لیے تیار کردہ مصنوعات کا استعمال کرتی تھیں جب کہ رومی سلطنت نے جب اس علاقے پر قبضہ کیا تو یہاں پر نمک کے وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھایا کیونکہ اس وقت نمک پرتعیش چیز سمجھا جاتا تھا اور اسے بطور کرنسی بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ اس علاقے میں سیاحت کے کاروبار سے منسلک این گیدی نے ساحل سے دور ایک مقام پر کھڑے ہو کر بتایا کہ جب وہ 18 برس کے تھے تو اس وقت پانی یہاں تک تھا اور یہ کوئی پانچ سو برس یا ایک ہزار برس پرانی بات نہیں ہے لیکن اس وقت پانی یہاں سے دو کلومیٹر دور ہے۔

انھوں نے بتایا کہ سمندر کی سکڑنے کی وجہ سے انھیں اضافی اخراجات بھی برداشت کرنا پڑ رہے ہیں جس میں ٹریکٹر اور پیٹرول، سٹاف کی مد میں سالانہ پانچ لاکھ ڈالر کا اضافی خرچ ہے کیونکہ سیاحتی مقام سے سیاحوں کو دو کلومیٹر دور ساحل پر ٹریکٹر کی مدد سے پہنچایا جاتا ہے۔ ’میں بحیرۂ مردار کے کنارے جوان ہوا اور ساری زندگی یہاں ہی گزاری، لیکن بدقسمتی سے جب آپ اپنے گھر سے سمندری مناظر کو دور ہوتا دیکھتے ہیں تو زندگی افسردہ ہو جاتی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ جب میں نے یہاں پر اپنا مکان تعمیر کرنا تھا تو ان کی بیوی نے کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ گھر سے سمندر نظر آئے لیکن میں نے کہا کہ ہمیں پہاڑوں کے نظارے کو سامنے رکھتے ہوئے اسے تعمیر کرنا چاہیے کیونکہ وہ وہیں رہیں گے لیکن سمندر پیچھے حرکت رہے گا۔

سمندری کے سکڑنے کی وجہ علاقے میں گڑھے بھی پڑ رہے ہیں اور اس وقت ایسے گڑھوں کی تعداد ساڑھے پانچ ہزار کے قریب ہے جس کی وجہ سے یہاں تعمیرات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اسرائیل کے ارضیاتی سروے کے ڈاکٹر گیدی بیر کے مطابق وہ ان گڑھوں کے وجود میں آنے کی پیشگی اطلاع کے بارے میں کام کر رہے ہیں اور یہ معلومات حاصل کرنا بہت اہم ہے کیونکہ ساحل کے پاس سے کئی مصروف سڑکیں گزرتی ہیں تاہم گڑھوں کے مسئلے میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
’ ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ عمل بھی تیز ہو رہا ہے، مثال کے طور پر رواں برس 700 کے قریب نئے گڑھے وجود میں آئے اور گذشتہ برس یہ تعداد کم تھی۔ 1990 کی دہائی میں ان کی تعداد چند درجن تھی اور اب یہ سینکڑوں کی تعداد میں ہیں۔‘

بحیرۂ مردار کی سطح میں کمی کی ایک وجہ علاقے میں تازہ پانی کے وسائل میں بھی کمی ہے جس میں دریائے اردن کا شمالی حصہ بحیرۂ طبريہ میں گرتا ہے جبکہ اس کا جنوبی حصہ بحیرۂ طبريہ کے اوپر سے گزرتا ہوا بحیرۂ مردار کا حصہ بن جاتا ہے۔ تاہم گذشتہ چند دہائیوں سے اس دریا سے بحیرۂ مردار میں آنے والے پانی کی مقدار میں کمی آئی ہے اور ایسا مشرق وسطی کی پانی کے معاملے پر پیچیدہ سیاست ہے۔ اسرائیل نے دریائے اردن کے بحیرۂ طبريہ میں جانے والے جنوبی حصے پر ڈیم بنا رکھا ہے اور یہاں سے پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اسرائیل اس کو پانی کے سٹریٹیجک اثاثے کے طور پر دیکھتا ہے اور اس میں پانی کے ذخیرے میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ یہ بحیرۂ احمر کے پانی کو صاف کر کے استعمال کر رہا ہے۔

اسرائیل نے ڈیم کی تعمیر سے پہلے ایک دہائی قبل 1950 میں ہی وادی اردن کے پانی کے نظام سے پانی حاصل کرنا شروع کیا تھا اور اس کی وجہ سے اردن اور فلسطین کے مغربی کنارے میں آباد کسانوں کی مشکلات شروع ہوئیں کیونکہ انھیں بھی اپنی فصلوں کے لیے پانی کی ضٰرورت تھی لیکن اس میں اسرائیل کے بھی مسئلہ تھا اور مالی اور تکنیکی وسائل ہونے کے باوجود اسے دریائے اردن کے پانی کی ضرورت تھی۔ دریائے اردن میں پانی دریائے یرموک سے آتا ہے اور یہ دریا شام سے گزرتا ہے جس پر شام نے گذشتہ 30 برس کے دوران 40 سے زیادہ ڈیم تعمیر کیے ہیں۔ 

اس میں اردن کے بغص حلقوں کے خیال میں شام نے اردن سے بدلہ لینے کی خاطر یہ ڈیم تعمیر کیے ہیں کیونکہ اردن اور اسرائیل نے 1994 میں امن سمجھوتہ کیا تھا۔ دوسری جانب اردن نے بھی اپنی ضروریات کے لیے ڈیم تعمیر کیے جس میں وادی اردن مشرق وسطیٰ میں واحد جگہ نہیں جہاں ڈیمز کی تعمیر نے دفاعی تنازعے کو جنم دیا ہے۔ ترکی کی جانب سے 1990 کی دہائی میں دریائے فرات پر ڈیم کی تعمیر کے بعد عراق اور شام نے بھی اعتراضات کیے تھے کہ یہ پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کی حکمت عملی کے تحت تعمیر کیاگیا ہے۔

مجموعی صورتحال کا نتیجہ یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں آبی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ پانی کی طلب بڑھتی جا رہی ہے اور ایسے خطے میں جہاں فریقین میں پانی کی منصفانہ تقسیم کا ایک جامع سمجھوتہ ہونا بہت مشکل کام ہے اور یہ وہ عوامل ہیں جو بحیرۂ مردار کی سطح کو متاثر کر رہے ہیں۔ حال ہی میں بحیرۂ مردار کو سوکھنے سے بچانے کے لیے ایک طویل پائپ لائن کے ذریعے بحیرۂ احمر سے پانی بحیرۂ مردار میں ڈالنے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے اور امریکہ اس کے لیے کچھ مالی وسائل بھی مہیا کرے گا۔ اس مصنوبے کے تحت فلسطین اور اسرائیل کو پینے کا صاف پانی بھی دستیاب ہوگا۔
   
اس منصوبے کے تحت بحیرۂ مردار میں پانی ڈالنے سے پہلے اس میں سے نمک کو نکالا جائے گا تاہم تکنکی، مالی اور سیاسی مشکلات کی وجہ سے مستقبل قریب میں اس منصوبے پر کام شروع ہونے کی توقع نہیں ہے اور اس صورتحال میں بحیرۂ مردار کے سکڑنے کا عمل آئندہ کئی برسوں تک جاری رہے گا۔ لیکن یہ مکمل طور پر خشک نہیں ہو گا کیونکہ ایک وقت میں اس میں موجود نمک اور دیگر معدنیات اتنی کثیف ہو جائیں گے کہ اس کے پانی کے بخارات میں تبدیل ہونے کا عمل رک جائے گا اور اس صورت میں اس میں موجود پانی اطراف کی فضا سے پانی کو جذب کو کرنا شروع کر دے گا اور یہ خطرے میں اس قدرتی خزانے کا خود ساختہ حفاظتی نظام ہو گا۔

یہ بحیرۂ مردار کے مرنے کے عمل کی کہانی کا اختتام نہیں ہے بلکہ یہ ایک حوصلہ افزا کہنا ہے کہ ایک ایسے خطے میں قدرت اپنے تحفظ کا راستہ کیسے تلاش کرتی ہے جہاں بسنے والے انسان قدرتی وسائل کی ہمیشہ سے قدر یا احتیاط نہیں کرتے۔

Post a Comment

0 Comments