Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

ایف سولہ لڑاکا طیاروں کا سودا: امریکہ کی ہارس ٹریڈنگ

ہم امریکہ کی جانب سے پاکستان کی ہزرہ سرائی سن سن کر تنگ آئے ہیں ۔ اس کا
ہر ایرا غیر نتھو خیرا پاکستان کے حکمرانوں پر بار بار الزام لگاتا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر حقانی عسکریت پسندوں کے قلع قمع کرنے کے لئے جو اجرت وصول کر چکا ہے وہ کام اس نے ہنوز نہیں کیا لہٰذا اب اسے امریکہ آٹھ عدد (کھٹارا) F-16 لڑاکا طیاروں کی خریداری کے لئے 43 کروڑ ڈالر کی امدادی رقم کیوں فراہم کرے گا۔ اسے یہ طیارے خریدنا ہے تو ان کی پوری قیمت یعنی 70 کروڑ ڈالر ادا کرے۔ اس کے علاوہ دوسری شرط یہ ہے کہ اگر پاکستان مطلوبہ طیارے رعایتی قیمت 27 کروڑ ڈالر میں خریدنا چاہتا ہے تو اسے عذارِ وطن امریکی مخبر ڈاکٹر شکیل آفریدی کو رہا کرنا ہوگاجس نے پولیو مہم کے ٹیکے لگانے کی آڑ میں امریکہ کے لئے اسامہ بن لادن کی ٹوہ لگائی تھی جس کی بناء پر اس نے چند ضمیر فروش پاکستانی حکام کی سازباز سے پاکستان کے عسکری تربیتی ادارے کاکول اکیڈمی قریب واقع ایک رہائش گاہ پر بمباری اور قتل و غارت گری کی تھی ۔ 

اس کی تیسری شرط یہ ہے کہ پاکستان بھارت کے ممکنہ حملے سے بچاؤ کے لیے اپنی سرزمین کے دفاع کے لئے میدان جنگ میں استعمال کئے جانے والے قریبی مار کرنے والے جوہری بم کیوں بنا رہا ہے۔ باالفاظ دیگر وہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو نہتا کرنا چاہتا ہے اور حکمرانوں کی جانب سے انکار پر برہم ہو کر وہ F16 طیاروں کی بھاری قیمت لینا چاہتا ہے۔ اسے امریکہ کی ہارس ٹریڈنگ یا بکرا پیڑی میں جانوروں کے مول بھاؤ نہ سمجھا جائے تو اور کیا کہا جائے۔

قارئین ذرا غور فرمائیں کہ یہ کتنی گھناؤنی سودے بازی ہے، جو کسی اصول پر مبنی نہیں ہے۔ اگر ہوتی تو امریکہ کا یہ مؤقف ہونا چاہیے تھا کہ چونکہ پاکستان ایٹمی سرزمین ہے مقبوضہ افغانستان پر حریت پسندوں کے حملے نہیں روکتا اس لئے ہم ایسے ملک کو F-16 کیا کوئی سامان حرب فروخت نہیں کریں گے خواہ وہ اس کی کتنی ہی قیمت کیوں نہ ادا کرے۔ اور اگر اسے شکیل آفریدی کی رہائی عزیز ہے تو اسے یہ مؤقف اختیار کرنا چاہیے تھا کہ اگر اسلام آباد اس کے جاسوس کو رہا نہیں کرتا تو اسے کسی قیمت پر یہ طیارے نہیں دیئے جائیں گے۔
اسی طرح اگر وہ ایمانداری سے یہ سمجھتا ہے کہ اگر اس نے پاکستان کو آخر کھٹارا طیارے بیچ دیئے تو وہ انہیں اپنے شہریوں پر حملہ کرنے کی بجائے بھارت کے خلا ف استعمال کرے گا یا نزدیک مار کرنے والے جوہری بم سے وہ بھارت کے حملے کو روکے گا تو اسے پاکستان کو لڑاکا طیارے، ہیلی کاپٹر ٹینک، بکتر بند گاڑیاں تک فروخت کرنے سے انکار کر دینا چاہیے تھا۔ لیکن یہاں معاملہ یہ ہے کہ اگر پاکستان امریکہ کو منہ مانگے ستر کروڑ ڈالر ادا کر دے تو بے شک جو چاہے کرے۔ یعنی یہاں نہ تو اسے اپنی پٹھو حکومت اشرف غنی جنتا کی فکر ہو گی نہ بھارت پاکستان جنگ کا اندیشہ لاحق ہوگا۔ ہمیں یہ سن کر خوشی ہوئی تھی کہ حکومت پاکستان کے مشیر سلامتی جناب سرتاج عزیز نے امریکی بیوپاری کو یہ جِتا دیا تھا کہ اس کے علاوہ اسلحے کی اور مارکیٹیں ہیں جہاں سے ہم اپنی ضرورت کا سامان حرب خرید سکتے ہیں۔

اگر موصوف واقعی اپنے قول پر قائم رہتے ہیں تو وہ سب سے پہلے روس اور چین سے لڑاکا طیارے حاصل کرسکتے ہیں۔ گوفرانس کے میراج 2000 لڑاکا طیارے F-16 سے زیادہ فاصلہ کم وقت میں طے کر لیتے ہیں یعنی ان کی رفتار اور ہدف Range F-16 طیاروں سے کہیں زیادہ طویل ہے لیکن وہ بڑے مہنگے پڑیں گے تاہم اگر پاکستان کے دفاع کے لئے نہ کہ اپنے ہم وطنوں کو نشانہ بنانے کے لئے ضروری ہوا تو قوم ان کی خریداری کے لئے قربانی دینے کے لیے ہمہ وقت تیار ہو گئی ۔ جیسے ان لال منہ والے بندروں کی ناکہ بندی، اقتصادی اور تجارتی پابندیوں کے باوجود اپنے جوہری بم بنا لیا اور اسے گھاس بھی نہیں کھانی پڑی۔ علاوہ ازیں ہمارے ذہن میں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ آئے دن ہم کامرہ طیارہ ساز کارخانے میں چینی اور پاکستانی جہاز سازوں کی جانب سے تبار کردہ لڑاکا طیارہ J-F17-Thunder کی کامیاب کارکردگی کی تعریف سنتے آئے ہیں جن کی نمائش بیرونِ ملک میں کی جا چکی ہے جہاں ماہر ہوا بازوں نے اس کی کارکردگی کی تعریف بھی کی ہے تو اس کے ہوتے ہوئے ہمیں تیس سالہ کھٹارا طیاروں کے لئے امریکہ کے سامنے گڑ گڑانے کی کیا ضرورت ہے، یہ اس کے ستی تو یہ ہوئے کہ JF-17 لڑاکا طیارے صرف نمائش کے لئے ہیں لیکن ہمارے کام کے نہیں ہیں۔

گستاخی معاف چونکہ میں Aeronautical Engneeuity سے نابلد ہوں اس لئے ایسا احمقانہ سوال کر بیٹھا۔ لیکن اس ملک میں میرے جیسے ناقص فہم افراد کی تعداد کافی ہے۔ لہٰذا یہ سوال جو میرے ذہن میں اٹھتا ہے اور جس کا میں برملا اظہار کر دیتا ہوں میرے لکھو کھا ہموطنوں کے ذہنوں میں کلبلا رہا ہے لہٰذا ماہرین سے گزارش کہ وہ JF17 کی افادیت سے آگاہ کریں۔ اگر ہمیں مقامی دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کرنی ہے تو کیا اس کے لئے F16 جیسے انتہائی گراں طیاروں کی خریداری کے لئے اپنی آزادی کا سودا کرنا ضروری ہے۔

اگر انسداد دہشت گردی کی جنگ ہماری ہے تو اس کا فیصلہ حکومت پاکستان کرے گی۔ اگر ہمیں اس بارے میں امریکہ کے حکم اور اس کی نشاندہی پر اپنے ہم وطنوں کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے تو معاف کیجئے یہ ہماری نہیں امریکہ کی جنگ ہو گی ہم امریکہ کی خوشنودی کے لئے اپنے ہم وطنوں کا قتل عام نہیں کرسکتے۔ میری مراد حقانی حریت پسندوں سے ہے۔ میں سوال کرتا ہوں کہ کیا حقانی قبائل پاکستان کے وفادار نہیں ہیں۔ کیا ان کے اور حکومت پاکستان کے مابین دوستی اور بھائی چارے کا معاہدہ نہیں ہے؟یہ امریکی پٹھو اشرف غنی کے دشمن ہو سکتے ہیں لیکن پاکستان کے دشمن ہرگز نہیں ہیں۔ پھر اگر ہم امریکہ کے کہنے پر ان پر بمباری کرتے ہیں تو کیا وہ معاہدہ دوستی کی خلاف ورزی نہیں ہوئی ہے کیا اس صورت میں وہ ہمارے دوست اور بھائی رہ جائیں گے؟

شنید ہے کہ حقانی قبائل پر اتنی شدید بمباری کی گئی ہے کہ یا تو وہ فرار ہو کرافغانستان میں اپنے اعزاء و اقرباء کے یہاں پناہ لئے ہوئے ہیں یا ملک کے دوسرے حصوں میں منتشر ہو گئے ہیں۔ اگر ان کے خلاف بلاجواز کارروائی کی گئی تو قوم اس کی ہرگز حمایت نہیں کرے گی۔ امریکہ کا مقصد اپنی پٹھو حکومت کو افغانستان میں مستحکم کرنا ہے تاکہ وہ اسے فوجی اڈے فراہم کرے جہاں سے وہ روس، چین، ایران اور پاکستان پر ’’نظر‘‘ رکھے اور ان ممالک میں ریمنڈ ڈیوس اور بلیک واٹر جیسے کرائے کے دہشت گرد اور اجرتی قاتل داخل کرکے عدم استحکام پیدا کرے۔

جیسا کہ پاکستان کے وزیر داخلہ نثار چوہدری برطانیہ کے ادارۂ تزویراتی مطالعات کے شرکاء سے دوران خطاب کہہ چکے ہیں کہ ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے پاکستان خود فیصلہ کرے گا کہ اسے کیا کرنا ہے۔ نیز انہوں نے ڈونالڈ ٹرمپ کو انتباہ کیا کہ وہ آزاد ریاستوں کا احترام کرنا سیکھے کیونکہ پاکستان امریکہ کی نو آبادی نہیں ہے۔ کاش کہ یہ رویہ حکومت کی پالیسی پر انداز ہو یہاں تو یہ عالم ہے کہ امریکہ میں پاکستان کا سفیر کسی دفتری بابو کی طرح صفائی پیش کر رہا ہے کہ اس نے نصاب کی تطہیر کردی ہے اور جو کسر رہ گئی ہے وہ جلد پوری کر دی جائے گی۔ شرم کی بات ہے کہ عالمی بینک پاکستان کی تعلیمی پالیسی وضع کرتا ہے اور نام نہاد ماہرین تعلیم ان کی روشنی میں جامعات پر نصاب تھوپتے ہیں اور پی ایچ ڈی افراد کے تحقیقی مقالات کو مغربی ممالک کے ماہرین کی جانچ پڑتال سے مشروط کیا گیا ہے۔

ایسے گھٹن ماحول میں تعلیمی اداروں میں آزاد فکر کیسے پروان چڑھ سکتی ہے۔ پاکستان کی جامعات پر مغرب کا تسلط قائم ہے جو روزبروز مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ مغربی استعمار نے انتہا پسندی ، بنیادی پرستی اور دہشت گردی کی جو صفت بیان کی ہے اس کے زمرے میں اسلامی ممالک آتے ہیں۔ توہین رسالتؐ کے لئے آزادئ اظہار خیال کی آڑ لی جاتی ہے لیکن ہولوکاسٹ کے بارے میں اس کا استعمال ممنوع ہے۔ شاتم رسول کو برطانیہ ملک کا اعلیٰ ترین اعزاز بخشتا ہے لیکن اس پر ہونے والے عوامی ردعمل کو دہشت گردی قرار دیتا ہے۔ امریکی قابض فوج نے افغانستان اور عراق میں کون سے جرائم نہیں کیے۔ قرآنی نسخوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے (نعوذ باللہ) طہارت خانوں میں بہا دیا۔ قرآنی آیات کو فٹبال پر لکھ کر اسے ٹھوکروں پر رکھ لیا۔ پیغمبر اسلام کے تضحیک آمیز خاکے بنائے اور انہیں تقسیم کیا۔ مساجد، مدارس، خانقاہوں کو زمین بوس کردیا۔ سلامتی کونسل نے یہ نہ پوچھا کہ ان انسانیت سوز جرائم کے مرتکبین کو بین الاقوامی تعزیراتی عدالت کے کٹہرے میں کیوں نہیں کھڑا کیا گیا؟

قارئین مجھے معاف کریں گے کہ میں ان باتوں کی تکرار کرتا رہتا ہوں لیکن کیا کروں اور امریکہ بھی گردان کرتا رہتا ہے کہ پاکستان حقانی عسکریت پسندوں کو صفحہ ہستی سے کیوں نہیں مٹا دیتا ہے جبکہ اس کے حکمرانوں نے کام کے لئے اجرت( انسداد دہشت گردی امداد)لی ہوئی ہے ۔اس طرح پروپیگنڈا کرکے امریکہ پاکستان کے عوام کو افواج پاکستان سے بدظن کرتا رہتا ہے۔ امریکہ کے بار بار اصرار کرنے کے باوجود پاکستان ایسا شرمناک کام نہیں کرتا تو اسے F-16 طیاروں کی فروخت میں لیت و لعل کرتا ہے یا افغانستان کی پٹھو جنتا کو اس کے خلاف اکساتا ہے۔ اگر امریکہ چاہے تو اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کو افواج پاکستان پر افغانستان میں دہشت گردی کرانے کا الزام لگانے کی جرات نہ ہو ۔ پاکستان نے اچھا کیا جو امریکہ کو ٹکا سا جواب دے دیا کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی ذمہ داری تنہا پاکستان پر نہیں عائد نہیں ہوتی آخر ارباب اربعہ کیا کر رہے ہیں۔

پروفیسر شمیم اختر

بشکریہ روزنامہ"نئی بات"

Post a Comment

0 Comments