Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

اسحاق ڈار کی نظر میں ٹیکس گزار کون ہے؟

آج صبح سویرے ایک معاصر کی شہ سرخی پڑھ کر دماغ گھوم گیا۔ گرمی سے پہلے ہی پارہ چڑھا رہتا ہے، ایسی شہ سرخیوں سے پارہ بندے کے دماغ کو آسمان پر پہنچا دیتا ہے۔ شہ سرخی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے ایک بیان پر مشتمل تھی،جس میں انہوں نے یہ انوکھی خوشخبری سنائی کہ بجٹ میں ٹیکس گزاروں پر نیا بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔ مَیں اُن کی اِس بات کا مطلب نہیں سمجھ سکا۔ پاکستان میں ٹیکس گزار کن لوگوں کو سمجھا جاتا ہے، پانامہ لیکس کے آنے سے تو یہ عقدہ ہی حل ہو گیا ہے کہ پاکستان میں بڑے لوگ ٹیکس ہی نہیں دیتے، اپنا سرمایہ باہر بھیج دیتے ہیں اور وہاں آف شور کمپنی بنا کے عیش کرتے ہیں۔ اسحاق ڈار کے اس بیان کا مطلب ہر گز یہ نہیں نکلتا کہ وہ آنے والے بجٹ میں عوام کو کوئی ریلیف دینا چاہتے ہیں۔

انہوں نے صرف ٹیکس گزاروں کو یہ خوشخبری بناتی ہے کہ اُن پر کوئی نیا بوجھ نہیں ڈالا جائے گا، لیکن جب مَیں ایف بی آر کے اعداد و شمار میں ٹیکس گزاروں کی تعداد دیکھتا ہوں تو وہ صرف آٹھ دس لاکھ کھائی دیتی ہے۔ گویا 20 کروڑ کی آبادی میں اسحاق ڈار صاحب صرف 10 لاکھ لوگوں کو نئے ٹیکسوں سے بچانے کی سخاوت کر رہے ہیں، صاحبو یہ تو نِرا ڈرامہ ہے۔ کیا پاکستان ان دس لاکھ ٹیکس گزاروں کے سہارے چل رہا ہے، جن میں آدھے سے زیادہ تو تنخواہ دار ملازمین ہیں، جن کا سالانہ ٹیکس زیادہ سے زیادہ دو چار لاکھ ہوتا ہے، نہیں صاحب نہیں، کوئی اور بھی ہے جو اِن سارے ٹیکسوں کا بوجھ اُٹھاتا ہے اور اس کا نام عام آدمی ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے وزیر خزانہ ٹیکس گزاروں کو ریلیف دینے کی آڑ میں پھر سارا نیا بوجھ اس عام آدمی پر ڈال دیں گے اور اس کی رہی سہی زندگی بھی اجیرن ہو جائے گی۔
پاکستان میں ٹیکسوں کا سب سے بڑا اور ظالمانہ کلہاڑا جنرل سیلز ٹیکس کے نام پر چلایا جاتا ہے۔ یہ وہ کُند چھری ہے، جس سے صرف غریب ذبح ہوتے ہیں سرمایہ دار، دولت کے انبار لگانے والے، کارخانوں کے مالکان اور بڑے بڑے تاجر اس سے محفوظ رہتے ہیں۔ یہ ٹیکس زیادہ تر ماجھے گامے اور شیدے میدے نے ادا کرنا ہوتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ فیکٹری مالکان اور سرمایہ دار اپنے سالانہ گوشواروں میں اس ٹیکس کو ظاہر کر کے جو اصل میں وہ عوام سے واپس لے چکے ہوتے ہیں۔ یہ احسان جتاتے ہیں کہ انہوں نے اتنے کروڑ روپے کا ٹیکس ادا کیا، حالانکہ پلے سے انہوں نے ایک دھیلہ بھی ادا نہیں کیا ہوتا، انکم ٹیکس کے خانوں میں تو اپنی آمدنی کو ٹیکس فری ہی رکھتے ہیں، بلکہ خسارہ دکھا کر مظلوم بھی بن جاتے ہیں۔

بالواسطہ ٹیکس کی اس معیشت میں کوئی ایک شہری بھی ایسا نہیں جو ٹیکس ادا نہ کرتا ہو، ایک ماچس خریدنے والا بھی اُس کی قیمت میں شامل17 فیصد سیلز ٹیکس اپنی جیب سے ادا کرتا ہے، موبائل فون چاہے ارب پتی سرمایہ دار استعمال کرے یا شیدا ریڑھی والا، دونوں کو ٹیکس برابر دینا پڑتا ہے ایسے میں اسحاق ڈار کو بیان تو یہ دینا چاہئے تھا کہ اس بار عوام پر ٹیکسوں کا کوئی نیا بوجھ نہیں ڈالا جائے گا، مگر انہوں نے ایسا کرنے کی بجائے صرف ٹیکس گزاروں کو ریلیف دینے کا اشارہ دے کر عوام کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔

ویسے تو ہماری اشرافیہ بہت ظالم ہے وہ عوام کے سینوں پر مونگ دلنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی ایسے ایسے وار کرتی ہے کہ عقل ان کے کرتوتوں پر دنگ رہ جاتی ہے۔ جب پورے مُلک میں کلرک، ٹیچرز، ڈاکٹرز اور مزدور و کسان معاشی مشکلات کے ہاتھوں مجبور ہو کر چلچلاتی دھوپ میں مظاہرے کر رہے ہیں۔ اپنے جسموں پر روٹیاں باندھ کر احتجاج کر رہے ہیں۔ اس اشرافیہ نے یہ ضروری سمجھا کہ اپنی مراعات و تنخواہوں میں کئی گنا اضافہ کرے۔ قومی اسمبلی کے ارکان پر مراعات کی بارش کر دی گئی ہے، تاکہ وہ ٹھنڈے ایوان میں بیٹھ کے جو مشقت بھرا کام کرتے ہیں، اس کا انہیں خاطر خواہ اجر مل سکے۔ 

اسحاق ڈار بجٹ میں سرکاری ملازمین کے لئے 10 فیصد اضافے کا اعلان بھی کر دیں تو اسے معجزہ سمجھا جائے گا، لیکن دوسری طرف انہوں نے ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں 300 فیصد اضافے پر ذرہ بھر اعتراض نہیں کیا۔ یہ نہیں کہا کہ معیشت دباؤ میں ہے اور یہ نہیں فرمایا کہ قومی خزانہ اتنے بڑے اضافے کی اجازت نہیں دیتا۔ بجٹ سے ایک ماہ پہلے قومی اسمبلی کے ارکان کو یہ ’’رشوت‘‘ دے کر آنے والے بجٹ پر مُنہ بند رکھنے کی ٹیپ لگا دی گئی ہے۔ حیرانی تو اس بات پر ہے کہ ایسی مراعات پر سب اکٹھے ہو جاتے ہیں کم از کم عمران خان کو تو اس اضافے پر بولنا چاہئے تھا۔ اسے عوام دشمن فیصلہ قرار دے کر مسترد کر دینا چاہئے تھا، مگر بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے اور جمہوریت کو بچانے کے نعرہ لگانے والے اس نکتے پر اکٹھے ہو گئے۔ ایسی اسمبلیوں میں جب جمہور کی بات ہو تو سب علیحدہ اینٹ کی مسجد بنا لیتے ہیں، لیکن جب بات اشرافیہ کے مفاد کی ہو تو سب گدھوں کی طرح مردار گوشت پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔  سینٹ میں رضا ربانی نے اس قرار داد کو پیش نہیں ہونے دیا۔ سینٹرز یقیناًپیچ و تاب کھا رہے ہوں گے اور جلد ہی انہیں بھی آسمان سے اترنے والا یہ من و سلویٰ مل جائے گا۔

پاکستان میں بجٹ ہمیشہ ایک خوف کی علامت رہا ہے۔ اس میں عوام کے لئے کبھی اچھی خبر نہیں ہوتی مرے کو مارے شاہ مدار والی سکیم پر عمل کیا جاتا ہے۔ غریب غریب ہو رہا ہے اور امیر امیر تر، مڈل کلاس جو کسی بھی معاشرے کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتی ہے، اب معدوم ہو چکی ہے۔ ایک طرف انتہا کی امارت ہے اور دوسری طرف انتہا کی غربت، یہ سب کچھ کیوں ہوا؟ اِس لئے کہ ہم نے اپنے بجٹ کو کبھی زمینی حقیقتوں کے مطابق نہیں بنایا، ہمارا بجٹ ہمیشہ آئی ایم ایف کی شرائط اور قرضوں کی آئندہ ملنے والی قسطوں کو پیش نظر رکھ کر بنایا جاتا رہا ہے۔ ہمارے بجٹ سازوں کو کبھی اِس بات سے کوئی غرض نہیں رہی کہ ہمارے عوام پر کیا گزر رہی ہے، وہ ہر چیز کو سیلز ٹیکس کے دائرے میں لانا چاہتے ہیں وہ بڑے فخر سے اِس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ مزدور کی کم سے کم اجرت 12ہزار روپے کر دی گئی ہے۔

اول تو وہ اسے بھی یقینی نہیں بناتے اگر مل بھی جائے تو آج کے دور میں کون عقل کا اندھا ہے جو اِس بات پر یقین کرے کہ اس رقم میں ایک معمولی درجے کی فیملی بھی مہینہ بھر گذارا کر سکتی ہے۔ میری آمدنی ایک مزدور کی آمدنی سے دس گنا زیادہ ہے، مگر یقین کریں مہینے کے آخر میں میری حالت بھی مزدور جیسی ہو چکی ہوتی ہے۔ ایسے میں جب وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا یہ بیان پڑھنے کو ملتا ہے کہ ٹیکس گزاروں پر کوئی نیا بوجھ نہیں ڈالا جائے گا، تو میرا دماغ اس لئے گھوم جاتا ہے کہ اسحاق ڈار کن ٹیکس گزاروں کی بات کر رہے ہیں، وہ لوگ جو سیلز ٹیکس کو گوشواروں میں درج کر کے بڑے ٹیکس گزار بن جاتے ہیں یا وہ غریب عوام جو سانس کے سوا ہر چیز پر ٹیکس دیتے ہیں، مگر پھر بھی اسحاق ڈار کی نظر میں ٹیکس گزار نہیں بن پاتے، کاش کوئی اِن غریب ٹیکس گزاروں کا بھی سوچے، جو زندہ رہنے کے لئے قدم قدم پر تاوان ادا کر رہے ہیں۔

نسیم شاہد

Post a Comment

0 Comments