Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

کیوں مذاق کرتے ہو؟

کسی اہم مسئلے کو حل کرنے کے بجائے دفنانا زیادہ آسان ہوتا ہے اور اس سے بھی زیادہ آسان یہ ہے کہ مسئلے پر کمیشن بٹھا دو ۔ یقین نہ آئے تو پچھلے 70 برس میں بننے والے تحقیقاتی و اصلاحی کمیشنوں کا حال دیکھ لیں۔ بیشتر کی رپورٹیں اہم قومی مفاد کے رازدارانہ ڈیپ فریزر میں محفوظ ہیں۔ اگر تاریخِ پاکستان کو 25 برس فاسٹ فارورڈ کر لیا جائے تو بھی نتیجہ وہی ہے۔

1972 میں حمود الرحمان کمیشن نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ذمہ داروں کا تعین نام لے کر کیا۔ بھارتی جریدے انڈیا ٹوڈے نے 30 برس بعد ( سنہ 2002 ) کمیشن کی رپورٹ شائع کردی مگر حکومتِ پاکستان نے آج تک اس لیک رپورٹ کو بھی نہیں مانا۔

اوجڑی کیمپ کس کی غفلت سے پھٹا؟ اس بابت جونیجو حکومت نے دو تحقیقاتی کمیٹیاں بنائیں۔ ایک کی رپورٹ کبھی نہیں آئی اور لیفٹننٹ جنرل ( ریٹائرڈ ) عمران اللہ کی قیادت میں دوسری کمیٹی نے اسے محض ایک حادثہ قرار دیا۔ پھر بھی جونیجو حکومت اوجڑی کیمپ کی طرح اڑا دی گئی اور جنرل عمران اللہ کی بے ضرر رپورٹ بھی کبھی شائع نہ ہو سکی۔

جنرل ضیا الحق سترہ اگست 1988 کو فضائی حادثے میں ہلاک ہوئے۔ کہیں پانچ برس بعد ان کے فکری وارث میاں نواز شریف نے جسٹس شفیع الرحمان کی قیادت میں انکوائری کمیشن بنایا۔ آج 23 برس بعد بھی کمیشن رپورٹ سربمہر ہے۔
بے نظیر بھٹو نے انٹیلی جینس ایجنسیوں کو کسی ضابطہ کار کے تحت لانے کے لئے سابق ایئر چیف مارشل ذوالفقار علی خان کی سربراہی میں ایک کمیشن بنایا۔ مگر ذوالفقار کمیشن کی اس طرح کی بے ضرر سفارشات پر بھی عمل نہ ہو سکا کہ ایک بااختیار مشترکہ انٹیلی جنیس کمیٹی ایجنسیوں کی کارکردگی پر نظر رکھے اور آئی ایس آئی کا سربراہ باری باری تینوں مسلح افواج سے لیا جائے ۔
 
جولائی 2007 میں لال مسجد آپریشن میں 103 ہلاکتیں ہوئیں۔ جسٹس شہزادو شیخ کی سربراہی میں قائم عدالتی کمیشن نے واقعہ کے چھ برس بعد مارچ 2013 میں رپورٹ مکمل کی۔ سپریم کورٹ نے رپورٹ کا ایک حصہ اور دستاویزات سربمہر کردیں اور باقی رپورٹ کی جزوی اشاعت کی اجازت دے ۔ مگر یہ جزوی اشاعت بھی نہ ہو پائی۔

17 جون 2014کو ماڈل ٹاؤن لاہور میں پولیس فائرنگ سے پاکستان عوامی تحریک کے چودہ کارکن ہلاک اور 80 سے زائد زخمی ہوئے۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس باقر علی نجفی کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن نے دو ماہ کے اندر رپورٹ حکومتِ پنجاب کے حوالے کردی ۔ اگرچہ ایک نیوز چینل نے اپنے طور پر یہ رپورٹ لیک کردی مگر حکومتِ پنجاب نے آج تک یہ رپورٹ باضابطہ جاری نہیں کی۔

دو مئی 2011 کو اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں امریکی کمانڈو ایکشن میں ہلاک ہوا۔ ڈیڑھ ماہ بعد جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں چار رکنی تحقیقاتی کمیشن بنایا گیا۔ الجزیرہ چینل نے تین سو چونتیس صفحات کی کمیشن رپورٹ فاش کردی مگر حکومت آج بھی کڑک مرغی کی طرح اس پر بیٹھی ہے۔

جبری گمشدگی کے معاملے میں گذشتہ چھ برس میں جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال ، جسٹس منصور عالم اور جسٹس غوث بخش کی سربراہی میں تین عدالتی کمیشنوں کے علاوہ کئی چھان پھٹک کمیٹیاں اور ٹریبونلز تشکیل دئیے گئے۔ دو سابق چیف جسٹسوں نے اس انسانی المیے میں ذاتی دلچپسی بھی لی۔ مگر زندہ گواہیوں کے باوجود ذمہ داروں کی پکڑ تو خیر کیا ہوتی ان کا ٹھیک سے تعین بھی نہ ہو سکا۔
 
معروف صحافی سلیم شہزاد کی لاش 29 مئی 2011 کو منڈی بہاؤ لدین کی ایک نہر سے ملی۔ سپریم کورٹ کے جج ثاقب نثار کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن نے سلیم شہزاد کی 33 ہزار ای میلز کا ریکارڈ چھان مارا۔ 23 سماعتوں میں 41 گواہوں کو قلم بند کیا۔ مگر رپورٹ کاخلاصہ کم وبیش یہ تھا کہ یہ سلیم شہزاد کا قتل کسی قاتل نے کیا ہے لیکن ٹھیک ٹھیک نشاندہی بوجوہ محال ہے۔

اور اب سرکردہ صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملے کے دو برس بعد وہ رپورٹ سوشل میڈیا پر لیک ہوگئی ہے جو جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سہہ ججی کمیشن نے پانچ ماہ پہلے حکومت کے حوالے کی تھی۔ اس رپورٹ میں بھی یہی نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ناقص تفتیش کے سبب حملہ آوروں کا تعین مشکل ہے۔ مگر حکومت رپورٹ کی باضابطہ اشاعت سے آج بھی ڈر رہی ہے۔

تازہ ترین یہ کہ میاں نواز شریف نے پانامہ پیپرز کے پانی سے اپنا دودھ الگ کرنے کے لئے ایک عدالتی کمیشن کے قیام کا عندیہ دیا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ اب تک کوئی جج راضی نہیں ہو رہا۔

کیوں مذاق کرتے ہو گرمیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے ، اس طرح کے کاموں میں

( شعیب بن عزیز مجھے معاف کردیجئے گا)

وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی


Post a Comment

0 Comments