Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

اوباما : اوروں کو نصیحت خود میاں فضیحت

اس سے پہلے کہ آگے بڑھیں بعض قارئین کے لئے ایک چھوٹی سی وضاحت شائد
ضروری ہو۔ ایٹمی اور جوہری بم یا وارہیڈ ہم معنی الفاظ نہیں ہیں۔ جوہری بم، نیو کلیئر وارہیڈ کا ترجمہ ہے اور نیوکلیئر بم میں ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم دونوں کے معانی شامل ہیں۔ ایک ہائیڈروجن بم میں ایک ہزار ایٹم بم کی تباہی کے برابر قوت ہوتی ہے۔ ہیروشیما اور ناگاساکی پر جو دو بم گرائے گئے تھے وہ دونوں ایٹم بم تھے۔ اگرہائیڈروجن بم ہوتے تو اس کی تباہی ایک ہزار گنا بڑھ جاتی۔ جب جوہری بم کہا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ ایٹم بم بھی ہو سکتا ہے اور ہائیڈروجن بم بھی!
اس سربراہی کانفرنس میں جیسا کہ آپ جانتے ہیں پاکستان کی نمائندگی وزیراعظم نے کرنی تھی لیکن اقبال ٹاؤن کے سانحے اور اسلام آباد میں ڈی چوک میں ایک مذہبی جماعت کے دھرنے نے انہیں روک لیا۔ ان کی جگہ طارق فاطمی صاحب کو بھیجا گیا۔ اسی روز (31مارچ) پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری نے واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے مین ایک نیوز بریفنگ میں جوہری ہتھیاروں کے موضوع پر جس بھرپور پروفیشنل انداز میں گفتگو کی، وہ قابل تحسین تھی۔ انہوں نے سربراہی کانفرنسوں میں اٹھائے گئے گزشتہ اور موجودہ خطرات و خدشات کا ابطال کیا اور کہاکہ پاکستان کی جوہری تنصیبات بالکل محفوظ ہیں اور ان کو سلامتی کے اس مقام تک لانے کے لئے پاکستان نے بڑی محنت کی ہے۔ اعدادوشمار کا حوالہ دے کر انہوں نے استدلال کیا کہ اب تک دنیا بھر میں 2734 جوہری حادثات ریکارڈ کئے گئے ہیں جن میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) کے مطابق پانچ جوہری حادثات بھارت میں ہوئے، جبکہ پاکستان میں گزشتہ 40برسوں میں ایک حادثہ بھی رونما نہیں ہوا۔

مزید برآں انہوں نے وضاحت کی کہ مارچ 2016ء کے اوائل میں پاکستان نے جوہری موادات کی فزیکل حفاظت کے ترمیم شدہ کنونشن پر بھی دستخط کر دیئے جس سے اس موضوع پر پاکستان کے عزم و اعتماد کا اظہار ہوتا ہے۔ سیکرٹری خارجہ نے اس غلط فہمی کی تردید بھی کی کہ پاکستان پر جو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ اس نے مختصر فاصلے تک مار کرنے کے جو میزائل اور چھوٹی جسامت کے جو ایٹم بم بنائے ہیں، وہ میدان جنگ میں استعمال ہونے والے ہتھیار ہیں اور انہیں آئندہ کسی پاک بھارت جنگ ہیں بطور ’’بیٹل فیلڈ ویپن‘‘ استعمال کیا جائے گا۔ 

انہوں نے کہاکہ ایسا نہیں ہے۔ پاکستان کے پاس مختصر فاصلے تک مار کرنے والے میزائل بھی ہیں اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے بھی اور اسی طرح چھوٹی جسامت کے جوہری ہتھیار بھی ہیں اور بڑی جسامت کے بھی ہیں۔ لیکن انہوں نے کہا کہ یہ ہتھیار ہم نے فیلڈ کمانڈروں کی صوابدید پر رکھ دیئے ہیں۔ یہ فیصلہ وہ کریں گے کہ کون سا ہتھیار کس خطرے کے جواب میں استعمال کرنا ہے۔ پاکستان ان 50 سے زائد ملکوں میں شامل ہے جو موجودہ سمٹ (Summit) میں مل کر فیصلہ کریں گے کہ گلوبل سلامتی کو جوہری تحفظ دینے کے لئے کون کون سے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔

پاکستان پہلے ہی اپنی تمام حساس جوہری تنصیبات پر تابکاری کو مانیٹر کرنے والے جدید ترین آلات نصب کر چکا ہے اور ہماری آئندہ پلاننگ یہ ہے کہ ملک میں جو 72مقامات ایسے ہیں جن سے ملک میں داخل ہوا یا باہر نکلا جا سکتا ہے، ان سب پر بھی تابکاری مانیٹرز نصب کر دیئے جائیں گے۔ سیکرٹری خارجہ نے یاد دلایا کہ پاکستان کی نیشنل کمانڈ اتھارٹی (NCA) جوہری ہتھیاروں کی سٹوریج اور ان کے استعمال کی ذمہ دار ہے اور وزیراعظم اس کے سربراہ ہیں اور دنیا بھر کے ممالک نے پاکستان کے جوہری پروگرام کی حفاظتی تدابیر پر پورے اعتماد اور اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ اس لئے کسی ملک کا یہ سوچنا کہ یہ سربراہی کانفرنس صرف پاکستان کے جوہری اثاثوں کی حفاظت کے موضوع پر ہو رہی ہے، بالکل لغو، غلط اور بے بنیاد ہے۔

امریکہ ایک عرصے سے روس پر الزام لگاتا آ رہا ہے کہ اس کے جوہری پروگرام کا ایک بڑا حصہ سویلین انتظام و انصرام کے ماتحت ہے۔ اس لئے صدر پوٹن نے اس کانفرنس میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ان کانفرنسوں سے دنیا کو یہ تاثر ملتا ہے کہ امریکہ گویا گلوبل جوہری پروگرام کا واحد ٹھیکے دار ہے۔ روس، اس امریکی تاثر اور امیج کو قبول نہیں کر سکتا اور اسی وجہ سے اس سمٹ میں شریک نہیں ہوگا۔ 

انٹرنیشنل نیویارک ٹائمز نے اپنے 31مارچ کے شمارے میں یہ خبر صفحہ اول پر شائع کی ہے کہ پاکستان نے ٹیکٹیکل سکیل کے جو جوہری بم بنائے ہیں اور جن کو اوباما ایڈمنسٹریشن خاص طور پر قابلِ سرقہ (Vulnerable to theft) قرار دیتی ہے تو اس وجہ سے پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام پر امریکی ایڈمنسٹریشن کا پہلے والا موقف تبدیل ہو گیا ہے۔ حالانکہ خود صدر اوباما نے اپنے دورِ صدارت کے اولین ایام ہی میں یہ اعلان کر دیا تھا کہ امریکہ کو یقین ہے کہ پاکستان کے جوہری اثاثے محفوظ ہیں۔ لیکن اب اوباما کی ایڈمنسٹریشن اس استدلال کو زیادہ نہیں دہراتی اور اصرار کرتی ہے کہ پاکستان نے اپنی جوہری تنصیبات پر تحفظ کے جو اقدامات کئے ہیں ان کی پیش رفت اتنی عاجل نہیں ہے جتنی ہونی چاہیے۔

یہ بھی خبریں ہیں کہ امریکی ایڈمنسٹریشن نے پاکستانیوں کے ساتھ خفیہ طور پر بھی ایسے اقدامات پر بات چیت کرنے سے انکار کر دیا ہے کہ پاکستان اپنے چھوٹی جسامت کے جوہری ہتھیار استعمال نہیں کرے گا۔ یہی وہ لائن ہے جو ہمارے سیکرٹری خارجہ نے جمعہ (31مارچ 2016ء) کے روز واشنگٹن میں اپنی پریس بریفنگ میں قطع کی اور کہا کہ ایک تو ماضی میں پاکستان کا جوہری حادثوں کا ریکارڈ بمقابلہ بھارت کہیں بہتر ہے اور دوسرے ہمارے ٹیکٹیکل نیوکلیئر ہتھیار ان بھارتی دھمکیوں کے جواب میں ہیں جن میں کولڈ سٹارٹ، سرجیکل سٹرائیک اور اس قسم کی دوسری خرافات شامل ہیں۔ بھارت اپنے ان ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنی کئی عسکری تنصیبات پاکستانی سرحد کے قریب لا چکا ہے۔ اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لئے پاکستانی فیلڈ کمانڈروں کو اختیار دینا پڑا ہے کہ وہ اس جارحیت کا توڑ کرنے کے لئے جو طریقِ کار مناسب سمجھیں، اس پر عمل کریں۔

چھوٹے سائز کے ایٹمی ہتھیار بنانے کا آغاز بھی خود امریکہ نے کیا۔ تاہم پھر روس نے اس کی پیروی کی اور اس سے آگے نکل گیا۔ آج روس کے ہاں جوہری بم سازی کی اتنی زیادہ سہولیات / تنصیبات ہیں کہ دنیا کے کسی اور ملک کے پاس نہیں۔ لیکن وہ سب گورنمنٹ/ ملٹری کے کنٹرول میں ہیں۔ امریکہ، پاکستان کو یہ نہیں کہتا کہ چھوٹی جسامت کے بم نہ بناؤ۔ اس کا وہم یہ ہے کہ جتنا بم چھوٹا ہو گا، اتنا ہی زیادہ قابلِ سرقہ ہوگا اور چونکہ پاکستان گزشتہ 10،15 برسوں سے بدترین دہشت گردی کا شکار ہے اس لئے اس کے ان جوہری بموں سے دنیا کو خطرہ ہے۔

لیکن دوسری طرف بعض حلقے یہ استدلال بھی کر رہے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کا خالق تو امریکہ ہے۔ امریکہ کا خیال تھا کہ جس طرح عراق کو اس لئے تہس نہس کیا گیا کہ اس کے پاس کثیر تعداد میں تباہی پھیلانے والے ہتھیار تھے(عراقی تباہی کے بعد یہ الزام غط ثابت ہوا) اسی طرح پاکستان کے اعلان شدہ بموں کو بھی دہشت گردوں کے ہاتھوں زیرِ خطرہ قرار دے کر (عراقی طرز پر) ان بموں کو حاصل کرنے کی کوششیں کی جائیں گی۔ وگرنہ افغانستان میں ڈیڑھ لاکھ ناٹو اور ایساف لا کر بٹھانے کا مقصد کیا تھا؟ پاکستان کے بہادر اور دلیر لوگوں کو سلام پیش کرنا چاہیے کہ انہوں نے اس نہایت درجہ خطرناک صورتِ حال کو سنبھالا اور اپنی جوہری تنصیبات کی سیکیورٹی اس درجہ مستحکم کر دی کہ دہشت گرد تو کیا، ناٹو، ایساف اور CIA مل کر بھی ان پر حملے کی جرات نہ کر سکے۔ پاکستان نے صاف صاف بتا دیا تھا کہ وہ تخت یا تختہ کے لئے منتظر ہے اور اس کی نیوکلیئر اور میزائل فورسز کسی بھی صورتِ حال کے رسپانس کے لئے تیار ہیں۔

جیسا کہ اس کالم میں پہلے عرض کر چکا ہوں صدر امریکہ نے ’’تخت نشین‘‘ ہوتے ہی اعلان کیا تھا کہ دنیا کو جوہری خطرے سے پاک کر دیا جائے گا۔ لیکن دنیا کو جوہری خطرہ تو خود اوباما (امریکہ) سے ہے جیسا کہ اگست 1945ء میں اس کا اظہار ہو چکا ہے۔ اوباما دور کی چاروں نیوکلیئر سیکیورٹی کانفرنسیں، (2010ء، 2012ء، 2014ء اور 2016ء) اسی غرض سے منعقد کی گئیں۔ دریں اثناء یہ بھی ملاحظہ فرمایئے کہ اوباما عہد میں امریکہ اپنے جوہری ترکش میں اضافہ بھی کرتا رہا ہے۔انٹرنیٹ پر جا کر معلوم کریں تو ساری تفصیل آپ کے سامنے آ جائے گی اور امریکہ کے سارے چہرے بے نقاب ہو جائیں گے!

دنیا میں آج تک جتنے ہتھیار بھی ایجاد ہوئے (بشمول جوہری بم) وہ حضرت انسان کے ہاتھوں استعمال ضرور ہوئے۔ اسی لئے تو قرآن حکیم میں انسان کو ظلوماًجہولا کہا گیا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ جب ہیروشیما اور ناگاساکی پر بمباری نے جوہری بم کی عالمگیر تباہی کی تصدیق کر دی تھی تو اسی وقت امریکہ اپنی جوہری بم سازی کی ساری تنصیبات منہدم کر دیتا۔ لیکن ایسا نہ کیا گیا ۔اس لئے ازراہِ مجبوری دوسرے ممالک کو بھی نیوکلیرائز ہونا پڑا۔ شمالی کوریا کا جوہری پروگرام دیکھ لیجئے۔ وہ سب کا سب ’’امریکی پہل‘‘ کے جواب میں صورت پذیر ہوا۔ آج بھی امریکہ اگر پے بہ پے جوہری سلامتی کی سربراہی کانفرنسیں منعقد کرنے کی بجائے صرف اپنی چارپائی کے نیچے ’’ڈنگوری‘‘ پھیرلے تو اس کو معلوم ہوگا : ’’کہ ازماست کہ برماست‘‘۔۔۔ ذرا امریکی پریس میڈیا کی درج ذیل رپورٹ بھی دیکھ لیجئے:

’’اگرچہ امریکی ایڈمنسٹریشن درجن بھر سے زیادہ ملکوں میں افزودہ یورینیم کے سویلین ذخائر ان سے لے کر تلف کر چکی ہے لیکن اب بھی 25 سے زیادہ ممالک ایسے ہیں جن کے پاس یہ مواد موجود ہے جس سے ہزاروں جوہری بم بنائے جا سکتے ہیں۔  ویپن گریڈ پر افزودہ کی ہوئی یورینیم، اس کرۂ ارض پر خطرناک ترین مواد ہے۔ صرف پانچ پاؤنڈ (2کلوگرام) افزودہ یورینیم سے ایک ایسا بم بنایا جا سکتا ہے جو لاکھوں انسانوں کو چشم زدن میں ہلاک کر سکتا ہے۔  صدر اوباما جلد ہی یہ اعلان کرنے والے ہیں کہ انہوں نے جاپان سے اتنی مقدار میں افزودہ یورینیم اور پلاٹونیم حاصل کرلی ہے جس سے 40 جوہری بم بنائے جا سکتے تھے۔

اس یورینیم کو چھوٹے سائز کے بسکٹوں میں تبدیل کر لیا گیا تھا جن کے سائز بچوں کی چاکلیٹ کی ٹکیہ کے برابر تھے اور جو بڑی آسانی سے کسی جیب میں ڈالی جا سکتی تھی اور دہشت گردوں کی منزلِ مراد تھی۔  آج سے چار سال پہلے یوکرائن کے شہر کیف (Kiev) میں امریکی اور یوکرائنی سائنس دانوں اور جاسوسوں کی ایک ٹیم نے 500 پاؤنڈ افزودہ یورینیم قبضہ میں لے کر اس کو ایک ٹرین کے ذریعے ملک سے باہر بھجوا دیا تھا۔ یہ تعداد آٹھ دس سٹینڈرڈ سائز کے ایٹم بم بنانے کے لئے کافی تھی۔  ان کامیابیوں کے باوجود آج صورتِ حال یہ ہے کہ یہ مواد دہشت گردوں کی رسائی سے زیادہ دور نہیں لگتا۔

افزودہ یورینیم کے زیرِخطرہ ذخائر اگرچہ سکڑ چکے ہیں لیکن جوہری دہشت گردی کے خطرات نہیں سکڑے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ آج داعش کی سرگرمیوں کا فوکس جوہری تنصیبات، جوہری موادات اور جوہری سائنس دانوں تک پھیل گیا ہے۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ گزشتہ برس بلجیم کی پولیس نے داعش کے ایک ایسے گروہ کا سراغ لگایا تھا جس کے قبضے سے کئی گھنٹوں پر محیط سروے لینس فلم برآمد کی گئی تھی۔ یہ سروے لینس وڈیو، بلجیم کے ایک شہر ’’مول‘‘ (Mol) میں ایک بڑی جوہری تنصیب کی تھی جس میں ویپن گریڈ افزودہ یورینیم کا بہت بڑا ذخیرہ موجود تھا!‘‘

مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جوہری دہشت گردی کا خطرہ مغربی دنیاکو کسی پاکستان واکستان سے نہیں بلکہ ان کے اپنے دہشت گردوں سے ہے۔ ان کے اپنے چراغ ہی ان کے گھروں کوجلا کر راکھ کرنے کے لئے کافی ہوں گے۔

لیفٹیننٹ کرنل(ر)غلام جیلانی خان

Post a Comment

0 Comments