Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

باراک اوباما کا دورۂ کیوبا

وطن عزیر پا کستان کے داخلی مسائل یا داخلی جھگڑوں کی شدت اس قدر ہے کہ
عالمی سطح پر وقوع پذیر ہونے والے انتہائی اہم عالمی واقعات پر پا کستانی میڈیا کی توجہ نہ ہو نے کے برا بر ہے۔ جیسے ما رچ کے آخری ہفتے میں امریکی صدر باراک اوباما کے کیو با کے تا ریخی دورے اور اس کے اثرات کو پا کستانی میڈیا نے خاص اہمیت نہیں دی۔ آخر امریکہ جیسی ایک سپر پا ور کو کیوبا جیسے چھوٹے سے مُلک کے ساتھ اپنے تعلقات سنوارنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ 

اور وہ بھی ایک ایسے مُلک کے ساتھ جس کے خلاف امریکی انتظامیہ، پینٹاگون اور سی آئی اے 1959ء کے انقلاب کے بعد سے مسلسل سازشوں میں مصروف رہے۔ سی آئی اے نے 1961ء میں فیڈل کاسترو کی اشتراکی حکومت کے خاتمے کے لئے Brigade 2506(فیڈل کا سترو کے مخالفین) کو مالی اور عسکری امداد دے کر کا سترو حکومت کا تختہ اُلٹنے کی سازش کی جسے Bay of Pigs کہا جا تا ہے، 1976ء میںCubana de Aviaci243n Flight 455کو بم سے تبا ہ کیا،جس میں 78افراد ہلاک ہوئے،1990ء کی دہا ئی میں کیوبا کے ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس میں بمباری کے واقعات سمیت فیڈل کاسترو کو ہلاک کرنے کے لئے درجنوں کوششیں اس امر کی چند مثالیں ہیں کہ امریکی سامراج کے لئے اپنے بغل میں ایک اشتراکی اور امریکی سامراج کی مخالف کاسترو حکومت کسی بھی طور قابل قبول نہیں تھی۔

1928ء کے بعد با راک اوبا ما پہلے امریکی صدر ہیں جنہوں نے کیو با کا دورہ کیا ۔اس سے پہلے سابق امریکی صدر کیلون کولیج نے 1928ء میں کیو با کا دورہ کیا تھا ۔ وہ کیا ایسے محرکات تھے جن کے باعث باراک اوباما 1200افراد کے امریکی وفد کے ساتھ کیوبا کا دورہ کرنے پر مجبور ہو ئے؟ان 1200افراد میں 38کانگرس مین جن میں 8 سینیٹرز اور 30امریکی ایوان نما ئندگان کے ارکان موجود تھے؟ان سب سے بڑھ کر Marriott ،Xerox , PayPal , FUBU ، Airbnb، Kiva, جیسی امریکی کارپو ریٹ سیکٹر کی نمائندہ کمپنیوں کے چیف ایگزیٹوز بھی کیوبا کے اس دورے میں باراک اوباما کے ہمراہ رہے۔
دراصل 2008ء میں راؤل کاسترو کے صدر بننے کے بعد کیوبا کے ساتھ تعلقات کوبہتر کرنے کے لئے امریکہ میں دو طرح کی آرا پائی جاتی تھیں۔ ایک رائے یہ تھی کہ کیو با میں اب فیڈل کاسترو کے بیما ر ہونے اور اقتدار راؤ ل کا سترو کے پا س آنے کے بعد امریکہ کو راؤل کاسترو کا تختہ اُلٹ کر امریکہ نواز حکومت قائم کروانی چاہے اور پھر تعلقات کا باقاعدہ آغاز کرنا چاہے۔ دوسری رائے یہ تھی کہ راؤل کاسترو ، فیڈل کاسترو کے برخلاف سرما یہ داری نظام کی حامل پا لیسیاں اختیا ر کر رہے ہیں اِس لئے اس موقع کا فائدہ اُٹھا کر تیزی سے کیوبا میں سرمایہ کا ری کا آغاز کر دینا چاہئے کیوبا میں بڑے پیمانے پر امریکی سرمایہ کاری ہو نے سے راؤ ل کاسترو امریکہ نواز پالیسی اختیار کرنے پر مجبور ہو جا ئیں گے۔

امریکی کارپوریٹ سیکٹر اسی رائے کا حامی تھا، کیونکہ امریکی کارپوریٹ سیکٹر کے لئے یہ بات ہضم کر نا مشکل ہے کہ یورپی کمپنیا ں، برازیل جیسی اہم علاقائی طاقت اور خاص طور پر چینی کمپنیاں کیوبا میں راؤل کاسترو کی لبرل معیشت کا فا ئدہ اٹھاتے ہوئے منافع کمائیں اور امریکی کمپنیاں صرف مُنہ دیکھتی رہ جائیں۔گزشتہ سال 2015ء میں کیوبا اور چین کے مابین تجا رت میں 57فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے۔ امریکی سامراج کے لئے یہ امر کسی بھی طور قابلِ قبول نہیں ہے کہ اس کے بغل میں چین اور برازیل کا اثرورسوخ اس قدر بڑھ جا ئے کہ امریکہ کو لاطینی امریکہ میں اپنے اثرو رسوخ کے لئے سرد جنگ کے دور کی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔

اوباما کی Pivot to Asia ڈاکٹرائن جس کا بنیادی مقصد مشرق بعید میں چین کے بڑھتے ہو ئے اثر و رسوخ کو کم کرنا ہے اس پر امریکی میڈیا اوباما انتظامیہ کو یہ مشورہ دیتا آیا ہے کہ مشرق بعید کے ساتھ ساتھ امریکہ کو اب لاطینی امریکہ میں بھی چین کے اثرو رسوخ کو ختم کرنا چاہئے اور اس مقصد کے لئے کیوبا کے ساتھ بہترین تعلقات ناگزیر ہیں۔ اس مقصد کے لئے امریکہ کو کیوبا میں راؤل کاسترو جیسا حکمران بھی مل گیا جو اپنے بھائی فیڈل کاسترو کے برخلاف امریکہ کے بارے میں نرم گوشہ رکھتا ہے۔

کیوبا میں راؤل کاسترو کے اقتدار میں آنے کے بعد کیوبا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بہتر ہونے کے ساتھ ہی امریکی کمپنیاں فوری طور پر کیوبا میں سرمایہ کاری کرنے کے قابل ہو جائیں گی۔کبھی امریکیوں کے لئے کیوبا اور اِسی طرح کیوبا کے شہریوں کے لئے امریکہ جانا با قاعدہ ایک مسئلہ ہوتا تھا، مگر اب اس سال کے آخر تک روزانہ کی بنیاد پر 110پروازیں کیوبا اور امریکہ کے مابین چلائی جائیں گی۔اس مقصد کے لئے امریکی ائر لائنز کمپنیو ں نے اعلان کیا ہے کہ کیوبا کی پروازوں کو فوری طور پر امریکہ کے چار بڑے شہروں کے لئے کھول دیا جا ئے گا۔

اپنے دورے میں کیوبا کے عوام سے خطاب کے دوران با راک اوباما نے کہا کہ وہ کیوبا کے حوالے سے سرد جنگ کے دور کے تلخ ماضی کو بھولنا چا ہتے ہیں۔ باراک اوباما نے کیوبا میں امریکی کانگرس سے بھی اپیل کی کہ کیوبا کے خلاف 1962ء سے جاری پابندیوں کو ہٹایا جا ئے، کیونکہ کیوبا کے خلاف ان پابندیوں کے کوئی مثبت اثرات سامنے نہیں آئے۔ باراک اوباما نے تسلیم کیا کہ 1959ء کے کیوبن انقلاب سے پہلے چند امریکی ایسے تھے کہ جو کیو با کے استحصال کے خواہشمند تھے اب ایسا نہیں ہو نا چا ہے۔ باراک اوباما کے اس خطاب کے ردعمل میں کیوبا کے مرد آہن، انقلابی رہنما اور سابق صدر فیڈل کا سترو نے1500الفاظ پر مشتمل ایک خط تحریر کیا ہے ۔

اس خط کو مغربی میڈیا سمیت دُنیا بھر کے میڈیا میں شائع کیا گیا ہے۔ Brother Obama کے عنوان سے لکھے گئے اس خط میں فیڈل کاسترو نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ کیوبا کو امریکہ کے ’’تحائف‘‘ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ باراک اوباما کی تقریر کے اس جملے کہ دونوں ملکوں کے مابین تلخ ما ضی کو اب دفن کر دینا چاہے ۔ اس پر فیڈل کاسترو نے لکھا ہے کہ اس جملہ کو سن کر تو کسی کو بھی ہارٹ اٹیک ہو سکتا ہے۔ فیڈل کاسترو نے امریکہ کی جا نب سے کیو با پر عائد کئے جانے والے مظالم کے حوالے دیئے۔ فیڈل کاسترو کے اس خط سے واضح ہو تا ہے کہ اب عملی طور پر فیڈل کاسترو کا کیو با میں اثرو رسوخ ختم ہو چکا ہے۔ 

راؤ ل کاسترو کی امریکہ نواز پالیسی کے خلاف 89 سالہ فیڈل کاسترو اب کسی بھی قسم کی عملی مزاحمت کرنے کے قابل نہیں رہے۔اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ راؤ ل کاسترو کے مقابلے میں ان کے بڑے بھا ئی فیڈل کاسترو امریکی سوچ اور سامراجی عزائم سے زیادہ آگاہی رکھتے ہیں۔ راؤل کاسترو امریکہ کے ساتھ تعلقات استوار کرتے ہوئے بھلے ہی اپنے بھائی کے تجربات سے فائدہ نہ اٹھائیں، مگر فیڈل کاسترو نے اوباما کے نام اپنے خط میں ہسپانوی قبضے کے خلاف کیوبا کی تحریک آزادی کے ہیرو جوز مارٹی کا بھی ذکر کیا ہے۔ اب راؤل کاسترو، جوز مارٹی کے اس جملے کے با رے میں کیا کہیں گے جو انہوں نے امریکی سامراج کے بارے میں 1895ء میں کہا تھا کہ "Once the United States is in Cuba, who will drive it out?"-Jos233 Mart237, 1895.
یعنی ’’اگر ایک مرتبہ امریکہ ،کیوبا میں آگیا تو پھر اسے با ہر کون نکالے گا؟‘‘

عمر جاوید

Post a Comment

0 Comments