Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

بہت ہوچکا : ہندوتوا کو طلباء کا چیلنج

ہندوستان میں ویسے تو ہمیشہ ہی اعلیٰ ذات کے ہندو حکومت میں رہے ہیں، مگر
اس کو سیکولر ازم کا لبادہ اوڑھا کر غیر مذہبی حکومت قرار دیا جاتا رہا ہے۔ مگر بی جے پی کے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت میں جس طرح سے ہندو توا اور برہمن ازم کی سوچ کو تحریک ملی ہے، اس نے نچلی ذات اور مسلمانوں کو دبایا ہے، اس سے مزاحمتی تحریک بھی انہی دونوں کے اشتراک سے نمو پا رہی ہے۔

نریندر مودی کو سیاسی چیلنج کسی کہنہ مشق سیاستدان یا سیاسی جماعت کی طرف سے نہیں بلکہ طلبہ کی جانب سے آ رہا ہے، اور اس کا مرکز دلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی یا جے این یو ہے۔ اس یورنیورسٹی میں ہندوستان مخالف اور پاکستان کے حق میں لگنے والے نعروں پر ہندوستانی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت غصے میں ہے، اور طلبہ پر وطن سے غداری کا الزام عائد کر کے جیل بھیجا گیا۔
عدالتوں سے ضمانتوں پر رہا ہونے کے بعد یہ تمام طلبہ بھرپور قوت کے ساتھ مودی حکومت کو للکار رہے ہیں۔ جے این یو کی طلبہ یونین کے صدر کنہیا کمار اس تحریک میں ایک نئی قیادت کے طور پر ابھرے ہیں، مگر ان کے ساتھ مسلمان طلبہ کی بڑی تعداد بھی خود کو منوانے میں کامیاب رہی ہے، جس میں عمر خالد اور شہلا رشید سرفہرست ہیں۔ اس تحریر میں کوشش کروں گا کہ شہلا رشید کے حوالے سے کچھ بیان کیا جائے۔

شہلا رشید جے این یو کی طلبہ یونین کی نائب صدر ہیں۔ شہلا طلبہ سیاست میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ تعلیم کے میدان میں بھی اول پوزیشن حاصل کرتی رہی ہیں۔ نہایت سادہ لباس میں ملبوس شہلا دلیل دینے اور تقریر میں اپنی الگ ہی شناخت رکھتی ہیں۔ ہندوستانی سیاست میں مسلمانوں کی جانب عمومی بغض و عناد اور دیگر مسائل کی وجہ سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ نوجوان مسلمان خود کو لبرل یا کمیونسٹ سیاست کی طرف لے جا رہے ہیں، اور ایسا ہی شہلا رشید نے کیا ہے، مگر وہ بڑی خوبصورتی سے ہندوتوا، برہمن ازم اور ذات پات کے خلاف بات بھی کرتی ہیں، اور تحریک کا نہ صرف حصہ ہیں بلکہ قیادت بھی کر رہی ہیں۔
شہلا رشید نے اس تحریک کے دوران متعدد ٹیلی ویژن چینلز پر بحث، میڈیا کانفرنسوں اور احتجاجی مظاہروں سے خطاب میں خود کو منوایا ہے۔ ہندوستانی میڈیا گروپ انڈیا ٹوڈے کے پروگرام میں شہلا رشید کی گفتگو نے ان کی صلاحیتوں اور قیادت کو بہت زیادہ اجاگر کیا ہے۔ انہوں نے ہندوستانی کے حساس ترین موضوعات پر نہایت نپے تلے انداز میں بات کی، نہ آواز اونچی کی اور نہ ہی آستین چڑھائی مگر بہت ہی آسانی سے مشکل ترین بات کہہ دی۔ اس پروگرام میں شہلا نے ہندی اور اردو کے بجائے نہایت ہی عمدہ انگریزی زبان میں اپنا موقف بیان کیا.

"ہم پر الزام لگایا جاتا ہے کہ افضل گرو کی پھانسی پر بات کی، یہ غداری ہے۔ اور اکھیل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے وی بی پی) نعرہ لگاتی ہے خون سے تلک کریں گے گولیوں سے آرتی، جو افضل گرو کی بات کرے گا، وہ افضل گرو کی موت مرے گا۔ تو پھر مار دیجیے ان ججوں کو جو کہ افضل گرو کی پھانسی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ مار دیجیے نیشنل لاء یونیورسٹی کے طلبہ اور وکلاء کو جو کہ اس پھانسی پر بات کر رہے ہیں۔

"کشمیر میں اس بات کا فیصلہ کس طرح ہوگا کہ وہ ہندوستان کا اٹوٹ انگ ہے۔ ہندوستانی فوجیوں کے کشمیر میں خواتین سے زیادتی کی بات ہم نے نہیں کی ہے، یہ تو جسٹس ورما کی رپورٹ میں کہا گیا ہے۔ جسٹس ورما رپورٹ حکومت نے تیار کروائی ہے۔ اس پر انکوائری ہوتی مگر فوج کے خصوصی تحفظ کے قانون کے تحت اس پر کوئی تحقیقات نہیں ہونے دی گئی۔"

آگے چل کر شہلا رشید مزید ایک وار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ مجھے پر ایف آئی آر بھی درج ہوسکتی ہے، اور مقدمہ بھی قائم ہوسکتا ہے، مگر پوری ایمانداری سے کہتی ہوں کہ میں نے ہندوستان کے ایک نہایت ہی بھیانک اور پرتشدد چہرے کے ساتھ پرورش پائی ہے۔ کشمیریوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تو فوجی ہمارے گھر بوٹوں سمیت داخل ہوئے اور میری بوڑھی دادی جو کہ بستر پر پڑی تھیں، کو کہتے ہیں اس بڑھیا نے ووٹ ڈالا ہے یا نہیں، اس سے بھی ووٹ ڈلواؤ۔ میں پاکستان زندہ باد کہہ سکتی ہوں اگر وہاں پر اقلیت اور خواتین کو مساوی حقوق ملیں، پاکستان میں ایسا نہیں ہے تو ہندوستان میں بھی ایسا نہیں ہے۔

انڈیا ٹوڈے کے اس پروگرام میں شریک گفتگو آر ایس ایس اور اے وی بی پی طلبہ یونین کے عہدیداران بھی تھے۔ کوئی بھی شہلا رشید کی باتوں کا براہ راست جواب نہیں دے سکا۔ اب ہندوستانی میڈیا اور سیاستدان جے این یو کی حالیہ تحریک میں نئی نوجوان قیادت کو ابھرتا دیکھ رہے ہیں۔ ہندوستان جیسے ملک میں جہاں وطن پرستی دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور بھارت ماتا کے نام پر ہندو برہمن قتل کرنے کو تیار ہیں، وہاں ایسی بات کہنے کے لیے حوصلے اور ہمت کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ علم کی بھی ضرورت ہے۔ شہلا رشید نے اس بات کو بہت اچھی طرح ثابت بھی کیا ہے۔ اب ہندوستان میں مسلمانوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں کا گٹھ جوڑ کمیونسٹ تحریک کی صورت میں سامنے آرہا ہے، اور یہ ہندوستانی سیاست میں ایک نئے باب کا اضافہ ثابت ہوسکتا ہے۔
 راجہ کامران

Post a Comment

0 Comments