Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

پاکستان سیکولرکیوں نہیں ہو سکتا؟ - شاہنواز فاروقی

دنیا میں پاکستان کے سوا کوئی ملک ایسا نہیں جس کے نظریاتی تشخص کے
بارے میں کوئی ابہام یا کوئی بحث موجود ہو۔ سوویت یونین پہلے دن سے سوشلسٹ ری پبلک تھا اور وہ 70 سال تک سوشلسٹ ری پبلک رہا، اور اس کے بارے میں کبھی یہ بحث شروع نہ ہوسکی کہ وہ سوشلسٹ ری پبلک ہے یا نہیں؟ امریکہ پہلے دن سے سیکولر ہے اور اس کے بارے میں کبھی یہ سوال نہیں اٹھایا گیا کہ بانیانِ امریکہ اسے کیا بنانا چاہتے تھے.... سیکولر ری پبلک یا عیسائی ری پبلک؟

لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سیکولر اور لبرل عناصر پانچ دہائیوں سے یہ بحث چلائے ہوئے ہیں کہ پاکستان کو اسلامی ہونا تھا یا سیکولر؟ قائداعظم پاکستان کو اسلامی جمہوریہ بنانے کے خواہش مند تھے یا سیکولر ری پبلک؟ ریاستوں کی تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو سیکولر اور لبرل طبقات کا یہ پروپیگنڈہ ریاست کے نظریاتی تشخص کے خلاف سازش، بغاوت اور سبوتاژ کی سب سے بڑی مثال ہے۔ کہا جاتا ہے کہ لوگ رائی کا پہاڑ بنا لیتے ہیں، مگر پاکستان کے نظریاتی تشخص کے حوالے سے ابہام کا ایک ذرہ بھی موجود نہیں۔ چنانچہ سوال یہ ہے کہ پھر سیکولر اور لبرل طبقے کے پروپیگنڈے کی بنیاد کیا ہے؟

اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ سیکولر عناصر فوجی اور سول بیوروکریسی میں گہری جڑیں رکھتے ہیں اور پاکستان کے ابلاغی منظرنامے پر ان کا غلبہ ہے۔ سیکولر عناصر اپنی اس قوت کے ذریعے دن کو رات، سچ کو جھوٹ، حسن کو قبح اور اسلامی کو سیکولر ثابت کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس سوال کا دوسرا جواب یہ ہے کہ مشرق و مغرب کی بہت سی طاقتوں کا ایجنڈا یہ ہے کہ پاکستان کے نظریاتی کردار کو تبدیل کیا جائے، چنانچہ وہ اس حوالے سے پاکستان کے سیکولر طبقات کو شہہ دیتی رہتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس سلسلے میں کوئی تاریخی شہادت بھی موجود ہے یا نہیں؟
سیکولر طبقات اس سلسلے میں قائداعظم کی 11 اگست کی اُس تقریر کا حوالہ دیتے ہیں جس میں قائداعظم نے جو کچھ فرمایا تھا اس کا لب لباب یہ تھا کہ پاکستان بن گیا ہے اور پاکستان میں آباد تمام لوگوں کو کامل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ جس طرح مسلمان اپنی مساجد میں جانے کے لیے آزاد ہیں اسی طرح ہندو اپنے مندروں اور عیسائی اپنے گرجا گھروں میں جانے کے لیے آزاد ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سیکولر طبقات اس تقریر کا حوالہ تو دیتے ہیں مگر ان سیکڑوں تقریروں اور انٹرویوز کو نظرانداز کردیتے ہیں جن میں قائداعظم نے صاف کہا ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہوگا اور قرآن اس کا دستور ہوگا۔ چونکہ سیکولر طبقات کے ہاتھ میں ذرائع ابلاغ کی طاقت ہے اس لیے انہوں نے ایک کو ہزار بنادیا ہے اور سیکڑوں کو ایک کے مقام پر بھی فائز نہیں ہونے دیا۔

دوسری بات یہ ہے کہ قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر اسلام کی حقیقی روح اور مسلمانوں کی تہذیبی و تاریخی روایات کے عین مطابق ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ انسان کوئی بھی عقیدہ رکھنے میں آزاد ہے۔ وہ چاہے تو ایمان کو اختیار کرے، چاہے تو کفر اور شرک کو گلے لگالے۔ مسلمان اس سلسلے میں ”تبلیغ“ سے کام لے سکتے ہیں، مکالمے سے استفادہ کرسکتے ہیں، لیکن کسی کو لاٹھی، ڈنڈے یا لالچ کی بنیاد پر مسلمان نہیں بناسکتے۔ اس لیے کہ انہیں معلوم ہے یہ کام اللہ نے اپنے رسولوں کے حوالے نہیں کیا تو عام مسلمانوں کے حوالے کیا کرتا! چنانچہ مسلمانوں نے اپنی تاریخ کے کسی بھی دور میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ جبر سے کام نہیں لیا۔ یہ مسلمانوں کی خوبی نہیں ہے۔ یہ اسلام کی خوبی اور اس کا حسن و جمال ہے، اور قائداعظم نے اپنی تقریر میں اسلام کی اسی خوبی اور اسی حسن و جمال کا ذکر کیا ہے۔ مطلب یہ کہ قائداعظم کی اس تقریر کا نہ سیکولرازم سے کوئی تعلق ہے نہ اس تقریر سے یہ دلیل برآمد کی جاسکتی ہے کہ قائداعظم پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے۔

سیکولر عناصر قائداعظم کے اس بیان کا حوالہ بھی دیتے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان ”تھیوکریٹک ریاست“ نہیں ہوگا۔ لیکن اس بات کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان ”اسلامی ریاست“ نہیں ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تھیوکریسی عیسائی دنیا کا تجربہ اور عیسائی تاریخ سے برآمد ہونے والا تصور ہے، اور عیسائیت کی تاریخ میں پوپ مذہب کی تشریح و تعبیر کے سلسلے میں حتمی اتھارٹی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور پوپ غیر نبی ہے۔ لیکن اسلامی تاریخ عیسائیت کی تاریخ سے مختلف ہے۔ عیسائی تہذیب کا مرکزی حوالہ حضرت عیسیٰؑ کی ذات ہے۔ لیکن اسلامی تہذیب کا مرکز قرآن مجید ہے۔

چونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کی عملی تفسیر ہیں اس لیے اسلامی تہذیب میں قرآن مجید کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل کی اہمیت ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اسلام میں واقعتاً کوئی ”پوپ“ نہیں ہے، اور اگر اس مقام پر کوئی فائز ہے تو اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت۔ لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے ثابت ہے کہ مسلمانوں کو اگر قرآن و سنت سے کوئی واضح رہنمائی نہ ملے تو وہ پھر ”قیاس“ سے کام لیں، اور قیاس کے اصول کو مسلم اور غیر مسلم سبھی مانتے ہیں، اس لیے کہ قیاس کا مطلب ہے: کسی شعبہ علم کے ماہر کی رائے۔

مثال کے طور پر کوئی بیمار ہوتا ہے تو ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے۔ کسی کو گھر کا نقشہ بنوانا ہوتا ہے تو انجینئر سے رجوع کرتا ہے۔ کسی کو کپڑے سلوانے ہوں تو درزی سے رابطہ کیا جاتا ہے۔ ہم نے آج تک نہیں دیکھا کہ کوئی بیمار ہوا ہو اور خود کو دکھانے کے لیے وہ درزی کے پاس گیا ہو۔ یا کسی کو گھر کا نقشہ بنوانا ہو اور اس نے ڈاکٹر سے رابطہ کیا ہو۔ مطلب یہ کہ ایک اسلامی ریاست میں جب قرآن و سنت کی تشریح و تعبیر کی ضرورت پیدا ہوگی تو انہی لوگوں سے رجوع کیا جائے گا جو ایک سطح پر تقویٰ اور علم کا مجموعہ ہوں گے اور دوسری سطح پر قرآن و سنت کے جاننے والے ہوں گے۔ تجزیہ کیا جائے تو یہ معاشرے میں تقویٰ اور علم کی بالادستی کا تصور ہے، لیکن سیکولر لوگ تقویٰ اور علم کی مخالفت تو کر نہیں سکتے چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں علماءکی بالادستی نہیں ہوگی۔

اسی کو وہ تھیوکریسی کہتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ قائداعظم نے تھیوکریسی کی اصطلاح عیسائیت کی تاریخ کے پس منظر میں استعمال کی ہوگی۔ اگر کوئی ان سے پوچھتا کہ آپ قرآن و سنت کی تعبیر کا حق کس کو دیں گے، قرآن و سنت کے ماہر کو یا کارل مارکس اور نٹشے کے ماہر کو؟ تو قائداعظم کا واضح جواب ہوتا کہ قرآن و سنت کی تشریح و تعبیر کا حق صرف اسی کو ہے جس کی زندگی قرآن و سنت کا نمونہ ہے اور جو قرآن و سنت کا سب سے زیادہ جاننے والا ہے۔

سیکولر طبقات یہ تو کہتے ہیں کہ قائداعظم پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے مگر وہ اس حقیقت کا انکار کرنے کی پوزیشن میں نہیں کہ پاکستان دو قومی نظریے کا حاصل ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دو قومی نظریے کی حقیقی تعبیر کیا ہے؟ دو قومی نظریے کے سوال پر جس اعتبار سے بھی غور کیا جائے صرف ایک حقیقت ہی سامنے آتی ہے، اور وہ یہ کہ ہندو اور مسلمان مذہب کی بنیاد پر دو مختلف قومیں ہیں۔

اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ پاکستان اسلام کی بنیاد پر قائم ہوا تو اب اسے کس بنیاد پر سیکولر ملک بنادیا جائے! جس وقت دو قومی نظریہ پیش ہوا تو بعض لوگ کہہ رہے تھے کہ قومیں مذہب کی بنیاد پر نہیں وطن یا اوطان کی بنیاد پر بنتی ہیں۔ مگر قومیت کی اس تعریف کو جو ہر اعتبار سے غلط ہے، برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم اکثریت نے مسترد کردیا اور کہا کہ ہم نسل، جغرافیے اور زبان کی بنیاد پر نہیں لاالہٰ الااللہ محمد الرسول اللہ کی بنیاد پر ایک قوم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر دو قومی نظریہ توحید اور رسالت کی بنیاد پر وضع ہوا اور پاکستان توحید اور رسالت کی امانت ہے تو اسے سیکولر بناکر امانت میں کیونکر ”خیانت“ کی جائے؟ اور اس کے لیے کہاں سے ”جواز“ مہیا کیا جائے؟

اسلام کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ وہ صرف یہی نہیں بتاتا کہ خدا ایک ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے۔ اسلام کا اپنا جامع نظامِ عبادات ہے۔ یہ نظام اتنا مکمل ہے کہ اس میں رتی برابر کمی بیشی کی گنجائش نہیں۔ اسلام کی ہمہ گیری اور ہمہ جہتی کا یہ عالم ہے کہ وہ یہ تک بتاتا ہے کہ کھانے سے پہلے کیا پڑھو اور کھانے کے بعد اللہ تعالیٰ سے کیا کہو۔ وہ بتاتا ہے کہ چھینک آجائے تو الحمدللہ کہنا ضروری ہے اور جماہی آجائے تو لاحول پڑھنا ناگزیر ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ بیماری میں دوا پیو مگر دوا لینے سے پہلے کہہ دو کہ ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہے اور وہی شفا دینے والا ہے۔

یہاں تک کہ اسلام بتاتا ہے کہ بیت الخلاءمیں جانے کی دعا کیا ہے اور وہاں سے نکلنے کی دعا کیا ہے؟ اتنے جامع اورکامل دین میں بھلا ریاست اور سیاست کو کیسے سیکولر بنایا جاسکتا ہے؟ کیا سیکولر لوگوں کے نزدیک ریاست اور سیاست چھینک اور جماہی سے بھی کم اہمیت کی حامل ہیں؟ اور جو دین زندگی کے معمولی سے معمولی عمل کو دین کے دائرے میں لانے کا حکم دیتا ہے وہ ریاست، سیاست اور معیشت جیسے شعبوں کو سیکولرازم کے مطابق چلانے کی اجازت دے دے گا؟ اگر نہیں تو پھر پاکستان کو کس بنیاد پر سیکولر کہا یا بنایا جائے؟

قوموں کی تاریخ ان کے بارے میں سب سے بڑی، سب سے اہم اور سب سے نمایاں شہادت ہوتی ہے، اور برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ میں سیکولرازم ایک اجنبی، لایعنی اور گمراہ کن نظریہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ اوّل و آخر اسلام کی تاریخ ہے۔ یعنی اس تاریخ کا ”اصولِ حرکت“ اسلام ہے۔ اس تاریخ کا ”مثالیہ یا Ideal“ اسلام ہے۔ اس تاریخ کی ”معنویت“ اسلام ہے۔ اس تاریخ کا ”حسن و جمال“ اسلام ہے۔ غرض یہ کہ اس تاریخ کا سب کچھ اسلام ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ محمد بن قاسم برصغیر میں اسلام کی وجہ سے آئے۔ اورنگ زیب اور داراشکوہ کی کشمکش کا سبب ”اسلام“ تھا۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ نے اسلام کی بنیاد پر اور اسلام کی وجہ سے جہانگیر کو چیلنج کیا۔ برصغیر میں برپا ہونے والی عظیم الشان خلافت تحریک اسلام اور اس کے حوالے سے خلافت کی محبت میں برپا ہونے والی تحریک تھی۔ 1857ءکی جنگ ِآزادی مسلمانوں نے مذہبی جوش و جذبے اور جہاد کے تصور کے تحت لڑی۔ 

برصغیر میں پے درپے جہادی تحریکیں برپا ہوئیں، ان کا محرک اسلام تھا۔ برصغیر
کے مسلمانوں نے شاعری کی عظیم روایت پیدا کی ہے اور اس شاعری پر تصوف کا اتنا گہرا اثر ہے کہ اسے نظرانداز کرکے اس شاعری پر گفتگو ممکن نہیں۔ سیکولرازم اپنی نہاد میں لادینیت کے سوا کچھ نہیں، اور برصغیر کے مسلمان ”ناقص العمل“ تو بہت رہے ہوں گے مگر ”ناقص الایمان“ کبھی نہیں رہے۔
مطلب یہ کہ سیکولرازم نہ مسلمانوں کی تاریخ میں ہے، نہ تہذیب میں ہے، نہ ان کے آرٹ میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو چیز کہیں نہیں ہے وہ اچانک سیاست میں کہاں سے در آئی؟ اور اگر محمد علی جناح کو سیکولر کہا جائے تو کس بنیاد پر کہا جائے؟ کیا وہ اپنی اجتماعی تہذیب اور تاریخ سے کٹی ہوئی شخصیت تھے؟

کیا مسلمانوں کی تاریخ میں کبھی کوئی شخص اپنی تہذیب اور تاریخ سے کٹ کر بڑا آدمی بنا ہے؟ اورکیا اس کے باوجود اسے مسلمانوں کے سوادِ اعظم نے قبول کیا ہے؟ مغل تاجدار اکبر نے دینِ الٰہی ایجاد کیا، اور اگرچہ اس کی حکومت پورے ہندوستان پر تھی اور ہندو اسے ”اکبراعظم“ کہتے ہیں، مگر مسلمانوں نے اس کے مذہبی انحراف کی وجہ سے اسے کبھی اہمیت نہ دی۔ اس کے مقابلے پر انہوں نے اورنگ زیب عالمگیر کو رحمة اللہ کہا۔ ٹیپو سلطان کی عظمت کے ترانے گائے۔
برصغیر کے مسلمان اپنی تاریخ کے سفر میں کتنے مذہبی رہے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ شائستہ اکرام اللہ سہروردی کا خاندان انگریزوں کا وفادار اور ان کی تہذیب کے زیراثر تھا۔ لیکن شائستہ اکرام اللہ نے اپنی کتاب ”پردے سے پارلیمنٹ تک“ میں لکھا ہے کہ جب میری شادی ہوئی تو مجھ سے پوچھا تک نہیں گیا کہ میں اس شادی پر رضامند ہوں یا نہیں۔ یہاں تک کہ میرے دل میں یہ خیال بھی نہیں آیا کہ شادی کے سلسلے میں میری بھی ایک ”رائے“ ہے۔ ان کی ایک انگریز دوست نے جب ان سے اس سلسلے میں بات کی تو وہ اس کی بات پر حیران ہوئیں۔

اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر 1930ءاور 1940ءکی دہائی میں "Most Modern" خاندان کی لڑکی کا یہ حال تھا تو عام مسلمانوں کی ”قدامت پسندی“ کا کیا حال ہوگا! سوال یہ ہے کہ کیا ایسے معاشرے میں سیکولرازم کی بنیاد پر کوئی تحریک برپا کی جاسکتی تھی؟ اور اس تحریک کو عوامی پذیرائی حاصل ہوسکتی تھی؟ اگر نہیں تو پھر پاکستان کے سیکولر اور لبرل طبقے قائداعظم کو سیکولرازم کا عَلم بردار کیوں اور کس بنیاد پر کہتے ہیں؟ اور انہیں پاکستان کو سیکولر بنانے کے خیال کی اخلاقی جرا ¿ت کہاں سے فراہم ہوتی ہے؟

پاکستان کی اسلامی بنیاد اور پاکستان کے لوگوں کی مذہب سے وابستگی کی ایک مثال ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت اور ان کی سیاست ہے۔ بھٹو صاحب قائداعظم کے بعد ملک کے سب سے مقبول عوامی رہنما تھے۔ وہ سیکولر تھے۔ لبرل تھے۔ لیکن انہوں نے پاکستان پر حکومت کے لیے جو فلسفہ ایجاد کیا اس کا نام انہوں نے ”اسلامی سوشلزم“ رکھا۔ یہ ایک مضحکہ خیز اصطلاح تھی۔ اس لیے کہ اسلام سوشلزم کی ضد تھا اور سوشلزم اسلام کی ضد تھا۔ لیکن بھٹو صاحب جانتے تھے کہ اگر وہ یہ کہیں گے کہ پاکستان کو سوشلزم کے فلسفے کے تحت چلایا جائے گا تو چند ہی ہفتوں میں ان کے خلاف عوامی بغاوت ہوجائے گی۔

چنانچہ انہوں نے پاکستان کے عوام کو دھوکا دینے کے لیے ”اسلامی سوشلزم“ کی ”فکری دھند“ میں لپٹی ہوئی اصطلاح ایجاد کی۔ حالانکہ بھٹو صاحب کی عوامی مقبولیت بے پناہ تھی۔ بھٹو صاحب نے ملک کو 1973ءکا ”اسلامی آئین“ دیا، حالانکہ انہیں ملک کو سیکولر یا سوشلسٹ آئین دینا چاہیے تھا، لیکن وہ ایسا کرتے تو پاکستان کے عوام کا مذہبی شعور چار ہفتوں میں بھٹو صاحب کا تختہ الٹ دیتا۔ بھٹو صاحب کو اسلام سے کوئی محبت نہ تھی مگر انہوں نے پاکستان کے لوگوں کو اتوار کے بجائے جمعہ کی سرکاری تعطیل کا ”اسلامی تحفہ“ دیا۔ وہ خود شراب پیتے تھے مگر پاکستان کے عوام کی مذہبیت کو دیکھتے ہوئے انہوں نے شراب پر پابندی لگائی۔ انہوں نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔ اگر بھٹو جیسے سیکولر اور لبرل رہنما کا یہ حال تھا تو پھر سیکولرازم کے لیے پاکستان میں کیونکر گنجائش نکالی جائے!

یہ آج سے کئی برس پہلے کا واقعہ ہے، اردو کی ممتاز ناول نگار قرة العین حیدر کراچی آئی ہوئی تھیں۔ ہم اپنے ایک دوست کے ساتھ ان سے ملاقات کے لیے پہنچے۔ گفتگو جاری تھی کہ معروف سیکولر صحافی اور دانش ور ایم ایچ عسکری جو اب مرحوم ہوچکے ہیں، وہاں آپہنچے۔ گفتگو میں پاکستان اور پاکستان کی نئی نسل کی مذہب پسندی کا ذکر ہوا تو وہ کہنے لگے کہ ”عینی آپا دیکھ لیں قائداعظم نے تو پاکستان کو سیکولر بنانا چاہا تھا مگر ہماری نئی نسل تو داڑھیاں رکھ رہی ہے اور ملک میں مذہبی انتہا پسندی بڑھ رہی ہے اور پاکستان کا مستقبل مخدوش ہے۔“

قرة العین حیدر خود مذہبی نہیں تھیں اور ہم سوچ رہے تھے کہ شاید وہ ایم ایچ عسکری کی ہاں میں ہاں ملائیں گی۔ مگر انہوں نے کہا کہ ”عسکری صاحب! اصل بات یہ ہے کہ پاکستان اسلام ہی کے نام پر بنا تھا، چنانچہ یہ کہنا کہ پاکستان اسلام کے نام پر نہیں بنا تھا جھوٹ ہے۔ یا پھر یہ کہنے والا جناح صاحب پر الزام لگاتا ہے کہ انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں سے جھوٹ بولا۔ یعنی انہوں نے نعرہ تو اسلام کا لگایا مگر وہ پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے۔“

یہ بات قرة العین حیدر کے سوا کسی اور نے کہی ہوتی تو ایم ایچ عسکری صاحب بال کی کھال نکالتے، مگر قرة العین حیدر کی بات سن کر وہ ایسے چپ ہوئے کہ جب تک ہم بیٹھے رہے وہ خاموش ہی رہے۔ سیکولر لوگوں کا یہی معاملہ ہے۔ وہ کمزور اور کم علم لوگوں کے سامنے جھوٹ کو سچ بنانے کی کوشش کرتے ہیں 
اور مضبوط لوگوں کے سامنے خاموش ہوجاتے ہیں۔

شاہنواز فاروقی

Post a Comment

0 Comments