Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

ایران کے سیاسی نظام پر ایک نظر...شاہنواز فاروقی

فروری کے مہینے میں ایران میں دو اہم انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات کے نتائج
مستقبل میں خطے پر گہرے اثرات مرتب کریں گے۔ ایران کا نظام اپنے اندر ایک انفرادیت رکھتا ہے۔ اس نظام میں آمریت اور جمہوریت ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اس کا غور طلب پہلو یہ ہے کہ کون زیادہ طاقتور ہے۔ ایران کے سیاسی نظام میں ویسے تو غیر انتخابی اداروں کی اہمیت اور اثر و رسوخ بہت زیادہ اور واضح ہے، ان اداروں میں رہبرِ معظم  ، سپاہ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی، مجلس خبرگانِ رہبری اور شوریٰ نگہبان  شامل ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ جمہوری ادارے یعنی صدر اور پارلیمان کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ویسے تو اخبارات میں انتخاب کے تفصیلی نتائج سامنے آجائیں گے لیکن ان نتائج کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ایران کے سیاسی اور انتخابی نظام کو ذہن میں رکھا جائے۔

مجلسِ شوریٰ اسلامی
ایرانی پارلیمان کا سرکاری نام ’’مجلسِ شوریٰ اسلامی‘‘  ہے اور یہ ۲۹۰ نشستوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے پانچ نشستیں غیر مسلم اقلیتوں کے لیے مختص ہیں۔ ایران پر نگاہ رکھنے والے اکثر تجزیہ نگار پارلیمان کی اہمیت کو نظرانداز کر جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران کے غیر منتخب اداروں نے پارلیمان کے اختیارات کو ہمیشہ کم کر نے کی کوشش کی ہے، اور سیاسی جماعتوں کے کمزور ہونے کی وجہ سے انہیں کبھی کسی خاص مزاحمت کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑا، لیکن اس کے باوجود پارلیمانی انتخابات ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال پر گہرے اثرات ڈالتے ہیں۔ ایرانی پارلیمان مجموعی طور پر حکومت کی نگرانی کرتی ہے۔ ایرانی خبر رساں اداروں کے مطابق موجودہ اسمبلی نے روحانی انتظامیہ کو مختلف داخلی مسائل اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے تقریباً آٹھ ہزار خطوط لکھے۔
 اس کے علاوہ مجلسِ شوریٰ نے پارلیمانی کمیشن برائے قومی سلامتی و خارجہ پالیسی کے ذریعے روحانی حکومت پر مستقل دبائو قائم رکھا اور ایٹمی معاہدے کا جائزہ لینے کے لیے ایک الگ کمیشن بھی تشکیل دیا گیا۔ سب سے اہم کام، جو پارلیمان کی ذمہ داری ہے، وہ قانون سازی کا ہے، پارلیمان قانون بنا کر شوریٰ نگہبان کو منظوری کے لیے بھیجتی ہے، جو اس قانون کا مذہبی نقطۂ نظر سے جائزہ لے کر اس کی حتمی منظوری دیتی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ پارلیمانی انتخاب موجودہ اور آئندہ آنے والے صدر پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں اگر اصلاح پسند بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل کرتے ہیں تو مستقبل میں صدر روحانی کو اپنی پالیسیوں میں تسلسل قائم رکھنے میں مدد ملے گی۔ بصورت دیگر قدامت پسند کامیاب ہوتے ہیں تو صدر روحانی کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ اس لیے صدر روحانی کی کوشش ہے کہ پارلیمان میں زیادہ سے زیادہ اصلاح پسند جگہ حاصل کریں تاکہ ۲۰۱۷ء کے صدارتی انتخابات کے لیے بنائی گئی حکمتِ عملی پر وہ آسانی سے عملدرآمد کرسکیں۔

 موجودہ پارلیمان کے سخت دبائو کا صدر روحانی نے جس آسانی سے سامنا کیا، اس کی بڑی وجہ اسمبلی کے اسپیکر علی لاریجانی کی حمایت بھی ہے۔ اب نئے انتخاب کی صورت میں اگر صدر روحانی اسمبلی کے اسپیکر کی حمایت کھو دیتے ہیں تو مستقبل میں ان کے لیے مجلسِ شوریٰ کا دبائو برداشت کرنا مشکل ہو جائے گا۔
مجلس خبرگان رہبری
ایران کے سیاسی نظام میں ’’مجلس خبرگان رہبری‘‘ کا کردار بڑی حد تک رسمی سمجھا جاتا ہے۔ مستقبل میں شاید اس کی حیثیت ایسی نہ رہے۔ یہ واحد آئینی ادارہ ہے جسے رہبرِ معظم کے تقرر کا اختیار حاصل ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس سارے عمل میں پاسدارانِ انقلاب اور رہبرِ معظم خود بھی اثر انداز ہوتے اور اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مجلسِ خبرگان رہبری کا قیام ۱۹۸۲ء میں ایرانی قانون کی دفعہ ۱۰۸ کے تحت عمل میں لایا گیا۔ اس مجلس کے ۸۶؍ارکان ہیں، جو آٹھ سال کے عرصے کے لیے براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں۔

 ۲۰۱۵ء میں ان کی تعداد بڑھا کر ۹۹ کرنے کی تجویز سامنے آئی، جسے رد کر دیا گیا اور طے کیا گیا کہ اس معاملے کو ۲۰۲۴ء میں دیکھا جائے گا۔ قانون کے مطابق اس ادارے کی ذمہ داریوں میں رہبرِ معظم کے چنائو کے علاوہ اس کے کام کی نگرانی اور ساتھ ہی اس بات کا تعین بھی کرنا شامل ہے کہ کیا وہ اپنے فرائض انجام دینے کے قابل ہیں یا نہیں۔ لیکن عملی طور پر دیکھا جائے تو آج تک اس مجلس نے رہبرِ معظم کے کسی کام یا ان کے احکامات سے کبھی اختلاف تک نہیں کیا۔

اس دفعہ پارلیمانی انتخابات اور مجلس خبرگان رہبری کے انتخاب ساتھ ساتھ ہو رہے ہیں۔ اس دفعہ جو مجلس منتخب ہو گی، وہ بہت اہم ہو گی۔ کیونکہ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس مجلس کو نئے رہبرِ معظم کا چنائو کرنا پڑے۔ موجودہ رہبرِ معظم کی عمر ۷۶ برس ہوچکی ہے اور وہ اب بیمار بھی رہنے لگے ہیں۔ چند ماہ قبل مجلس کے رکن آیت اللہ علی اکبر ہاشمی رفسنجانی نے ایک انٹرویو میں یہ تجویز پیش کی کہ مجلس کو رہبرِ معظم کے بجائے لیڈر شپ کونسل بنا دینی چاہیے لیکن اس بیان پر انہیں قدامت پسندوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

 اس کے بعد ان کا یہ بیان بھی سامنے آیا کہ مجلس ایسے ماہرین کی فہرست تیار کر رہی ہے جو اس عہدے کی قابلیت رکھتے ہیں۔ یاد رہے ہاشمی رفسنجانی اس مجلس کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ ’’مجمع تشخیص مصلحت نظام‘‘  کے سربراہ بھی ہیں۔ یہ کمیٹی شوریٰ نگہبان اور پارلیمان  کے تنازعات میں ثالثی کا کردار ادا کرتی ہے۔

بنیادی طور پر تو مجلسِ خبرگان رہبری پر قدامت پسندوں کا اثر و رسوخ زیادہ ہے۔ ۱۹۸۳ء یعنی مجلس کے قیام سے ۲۰۰۶ ء تک اس کی سربراہی علی اکبر فیض مشکینی نے کی۔ ان کی وفات کے بعد مجلس کی سربراہی کے لیے پہلی دفعہ باقاعدہ انتخاب ہوئے۔ اس انتخاب میں علی اکبر ہاشمی رفسنجانی نے آیت اللہ احمد جنتی کے مقابلے میں فتح حاصل کی۔ احمد جنتی اُس وقت شوریٰ نگہبان کے معتمد تھے۔ ۲۰۰۹ء میں رفسنجانی دوبارہ سربراہ منتخب ہوئے۔

 ۲۰۱۱ء میں ہونے والے انتخاب میں ایک قدامت پسند شخصیت اور ایران کے معتبر عالم دین اور کئی عہدوں پر رہنے والے محمد رضا مہدوی سربراہ منتخب ہوئے۔ محمد رضا مہدوی ایران کی بہت معتبر شخصیت تھے، اس لیے جب انہوں نے انتخاب لڑنے کے لیے رضا مندی ظاہر کی تو رفسنجانی نے ان کے مقابلے پر انتخاب میں حصہ نہ لیا۔ رضا مہدوی کی وفات کی وجہ سے ۲۰۱۴ء میں دوبارہ انتخاب ہوئے لیکن اس دفعہ رفسنجانی کو آیت اللہ محمد یزدی کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ محمد یزدی سابق چیف جسٹس اور قُم کے اساتذہ کی انجمن کے معتمد ہیں۔ انہیں رہبرِ معظم کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے۔

شوریٰ نگہبان
شوریٰ نگہبان ۱۲؍ارکان پر مشتمل ہوتی ہے۔ ان میں سے چھ فقہاء، یعنی مذہبی ماہرین کو براہ راست رہبرِ معظم مقرر کرتے ہیں جبکہ بقیہ چھ قانون دان ہوتے ہیں، جنہیں اسمبلی منتخب کرتی ہے۔ لیکن اسمبلی یہ انتخاب ان افراد کی فہرست سے کرتی ہے، جو اسے چیف جسٹس کی طرف سے دیے جاتے ہیں اور چیف جسٹس کا تقرر رہبرِ معظم کرتے ہیں۔ تمام اراکین چھ سال کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔ ہر تین سال بعد آدھے ارکان کا نئے سرے سے انتخاب ہوتا ہے، جیسا کہ پاکستان کی سینٹ کے آدھے اراکین کا انتخاب ہوتا ہے۔

شوریٰ نگہبان کا شمار ایران کے طاقتور ترین غیر منتخب اداروں میں ہوتا ہے۔ ایران کے قانون کے مطابق الیکشن کے سارے عمل کی نگرانی شوریٰ نگہبان کرتی ہے، اس میں پارلیمانی الیکشن، مجلس خبرگان رہبری کے انتخاب اور صدارتی انتخاب شامل ہیں۔ تمام فورمز کے امیدواروں کی حتمی منظوری شوریٰ نگہبان ہی دیتی ہے۔ اس کے علاوہ پارلیمان کی جانب سے منظور کیے گئے بل حتمی منظوری کے لیے شوریٰ نگہبان کے پاس بھیجے جاتے ہیں، شوریٰ ان 
قوانین کا مذہبی اور قانونی پہلو سے جائزہ لے کر حتمی فیصلہ کرتی ہے۔

شوریٰ نگہبان کو انتخابی امیدواروں کی اہلیت جانچنے کے حوالے سے غیر معمولی اختیارات حاصل ہیں۔ اگرچہ امیدواروں کی جانچ پڑتال کے عمل میں وزارتِ داخلہ بھی اپنا کردار ادا کرتی ہے، جس کا سربراہ صدر کی کابینہ کا رکن ہوتا ہے، لیکن شوریٰ نگہبان کے اختیارات اس سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ ان اختیارات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ شوریٰ نگہبان نے رفسنجانی کو ۲۰۱۳ء کے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے سے روک دیا تھا اور اس کی واحد وجہ ضعیف العمری بتائی گئی تھی، حالانکہ وہ اس سے پہلے ملک کے صدر اور اسمبلی کے اسپیکر بھی رہ چکے ہیں اور اب بھی یہ افواہیں گردش میں ہیں کہ انہیں مجلسِ خبرگان رہبری کی سربراہی کے لیے ہونے والے انتخاب سے بھی روک دیا جائے گا، باوجود اس کے کہ وہ اس مجلس کے رکن ہیں۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ شوریٰ نگہبان بنیادی طور پر رہبرِ معظم کے ہم خیال لوگوں پر مشتمل ہے، اس لیے وہ ایسے افراد کو نااہل قرار دے دیتی ہے جو رہبرِ معظم کے ہم خیال نہ ہوں یا موجودہ نظام کی مخالفت کرتے ہوں۔

انتخابی نظام
ایران کا انتخابی نظام انتہائی پیچیدہ ہے۔ انتخابی امیدواروں کی جانچ پڑتال کا کام بنیادی طور پر بیورو کریسی کرتی ہے۔ یہ کام مقامی، صوبائی اور قومی سطح پر تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امیدواروں کی تمام معلومات کا تبادلہ وزارتِ داخلہ اور شوریٰ نگہبان سے بھی متوازی جاری رہتا ہے۔ اس طرح امیدواروں کی اہلیت کا فیصلہ شوریٰ نگہبان ہی کرتی ہے۔

یہ تمام کام تین مراحل میں ہوتے ہیں۔
کاغذاتِ نامزدگی جمع کروانے والے افراد کی فہرستیں وزاتِ داخلہ کو دی جاتی ہیں، وزارتِ داخلہ وہ معلومات خفیہ اداروں کو بھیج دیتی ہے۔ خفیہ اداروں سے کلیئرنس کے بعد فہرستیں وزارتِ داخلہ اور شوریٰ نگہبان کو بھیج دی جاتی ہیں۔ وزارتِ داخلہ وہ فہرست مقامی ایگزیکٹو کمیٹی کو فراہم کر دیتی ہے۔ اس کے بعد مقامی ایگزیکٹو کمیٹیاں جن کی سربراہی وزارتِ داخلہ کا نمائندہ، یعنی کہ ضلع کا گورنر کررہا ہوتا ہے، ان امیدواروں کی قابلیت پر نظرثانی کرتی ہیں اور اہل اور نااہل امیدواروں کی فہرست بنا کر صوبائی سپروائزری بورڈ کو بھیجی جاتی ہیں۔

یہ بورڈ شوریٰ نگہبان کے زیرِ نگرانی کام کرتے ہیں۔ ایگزیکٹو کمیٹیوں کی جانب سے نااہل قرار دیے جانے والے امیدوار اس بورڈ کے سامنے اپیل دائر کرتے ہیں۔ صوبائی سپروائزری بورڈ اس عمل کے ساتھ ساتھ شوریٰ نگہبان کے مقامی نمائندوں سے بھی امیدواروں کی تفصیلی معلومات لیتا ہے۔ اس طرح وہ تمام معلومات اور ضروری دستاویزات کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد حتمی فہرست شوریٰ نگہبان کو دیتا ہے۔

شوریٰ نگہبان نااہل قرار دیے جانے والے امیدواروں کی اپیلوں پر نظرثانی کرتی ہے اور اہل امیدواروں کی قابلیت کا جائزہ لے کر ایک فہرست جاری کرتی ہے، جس پر اگر کسی کو اعتراض ہو تو وہ وزارتِ داخلہ کو درخواست دیتا ہے اور شوریٰ نگہبان ان اعتراضات کا جائزہ لے کر امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کرتی ہے جسے صوبائی گورنر شائع کرتے ہیں۔

اس کے برعکس اگر قوانین کی رو سے دیکھا جائے تو مجلسِ خبرگان رہبری کے اراکین کے انتخاب کا عمل آسان ہے۔ اس انتخابی عمل میں شوریٰ نگہبان واحد ادارہ ہے، جو سارے عمل کی نگرانی کرتا ہے۔ قانون کے مطابق اس انتخاب میں حصہ لینے والے افراد مذہبی بھی ہو سکتے ہیں اور سیاسی بھی۔ امیدواروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسلامی قوانین کی تشریح کرسکتے ہوں، ان کا ایران کے سیاسی نظام پر مکمل یقین ہو اور ان کا سیاست مخالف یا غیر سماجی پس منظر نہ ہو۔

شوریٰ نگہبان امیدواروں کی اسلامی فقہ کے حوالے سے معلومات جانچنے کے لیے تحریری امتحان کا انعقاد کرتی ہے۔ مجلس کے موجودہ اراکین جو دوبارہ منتخب ہونے کے لیے انتخاب میں حصہ لے رہے ہوں اور وہ امیدوار جو یہ امتحان پہلے پاس کرچکے ہوں، اس ٹیسٹ سے مستثنیٰ ہوتے ہیں۔ شوریٰ نگہبان نے ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ افراد جنہوں نے مدارس کی تعلیم حاصل نہیں کی، اس امتحان میں نہیں بیٹھ سکتے، اس لیے وہ انتخابات کے لیے نااہل ہیں۔ (اس الیکشن میں شوریٰ نگہبان نے ۸۰۰ میں سے ۵۳۷؍افراد کو ٹیسٹ میں بیٹھنے کی اجازت دی اور ان میں سے ۴۰۰؍امیدواروں نے امتحان میں حصہ لیا)۔

عام طور پر تو مجلسِ خبرگان رہبری کا انتخاب لڑنے کے لیے امیدوار کا مجتہد ہونا ضروری ہوتا ہے، لیکن اس بار شوریٰ نگہبان کے اراکین کا کہنا ہے کہ صرف مجتہد ہونا ضروری نہیں بلکہ فرد کی مذہبی علوم میں قابلیت کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا۔

اس دفعہ کے انتخابات میں اصلاح پسندوں نے بڑے پیمانے پر کامیابیاں حاصل کی ہیں، جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عوام نے ایٹمی معاہدے اور معاشی پابندیوں کے خاتمے کا خیرمقدم کیا ہے اور وہ صدر روحانی کی پالیسیوں کا تسلسل دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن آنے والے وقت میں پاسدارانِ انقلاب، رہبر معظم اور شوریٰ نگہبان کا کردار نہایت اہم ہوگا۔

شاہنواز فاروقی

Post a Comment

0 Comments