Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

ترکی میڈیا پر قدغن : حقیقت یا افسانہ

کچھ عرصے سے بعض پاکستانی اخباروں میں ترکی کے حوالے سے یہ خبریں وقفے وقفے سے گردش کررہی ہیں کہ ترکی حکومت نے (یہاں مراد صدر رجب طیب اردو ان کی حکومت سے ہے) میڈیا پر قدغنیں لگا کر آزادانہ اظہار رائے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں۔ ناپسندیدہ کالم نگاروں کو عدالتی کارروائی کے ذریعے نہ صرف جیلوں میں بھیجا جارہا ہے، بلکہ اخباری انتظامیہ کو ہٹا کر ان کی جگہ ہم خیال میڈیا نمائندوں کو مقرر کیا جارہا ہے۔ اس ضمن میں دو ترک روزناموں’’ زمان‘‘ اور ’’جمہوریت‘‘کی مثالیں دے کر یہاں کے کچھ کالم نگار ترکی حکومت پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ حکومت اپنے مخالفوں کی آواز دبانے کے لئے یہ حربہ استعمال کررہی ہے۔

 پاکستان میڈیا میں ترکی مخالف خبروں کی ترسیل حیرت انگیز بات ہے۔ یہاں کے کالم نگار حضرات ایسا جان بوجھ کر نہیں کررہے ۔ شاید اس کی وجہ ترکی کے سیاسی و معاشرتی حالات سے ان کی کم خبری ہے، چونکہ وہ اپنے کالم کا پیٹ بھرنے کے لئے یورپی میڈیا کا سہارا لیتے ہیں اوریورپ ہمارے ساتھ کتنا مخلص ہے؟ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے، اس لئے وہ ترکی کے موجودہ حالات کی یک رخی تصور کشی کررہے ہیں۔ یہ بات ناقابل سمجھ ہے۔

 کسی بھی باوقار میڈیا کے لئے مناسب نہیں کہ وہ کسی برادر ملک کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے مصدقہ ذرائع کو اختیار نہ کرے۔ ایک ایسا ملک جس نے یہاں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کر رکھی ہو، اس ملک کے حالات کی یک رخی تصویر دکھانا کسی طور پر بھی مناسب نہیں ہے۔ اس سے دونوں ملکوں کے عوام میں غلط فہمیاں جنم لے سکتی ہیں، اس لئے ضروری ہے کہ تصویر کا دوسرارخ بھی پیش کیا جائے تاکہ لوگوں کے سامنے صحیح صورت حال آسکے۔
ترکی حکومت پرلگائے جانے والے الزامات کی اصل حقیقت درج ذیل ہے 

’’زمان اخبار‘‘ نام نہاد اسلامی تنظیم جو پوری دنیا میں گولن تحریک کے نام سے معروف ہے، کا نمائندہ اخبار ہے۔ اس تحریک کے کرتا دھرتا فتح اللہ گولن امریکہ میں پناہ گزیں ہیں۔ ترکی کی ایک عدالت نے چند مہینے پہلے ان کے ریڈ وارنٹ جاری کئے تھے۔ ان پر الزام ہے کہ وہ ترکی میں ایک ایسی دہشت گرد تنظیم کے سربراہ ہیں، جس نے موجودہ ترکی حکومت، یعنی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کا تختہ جبر اور تشدد کے ذریعے الٹنے کی کوشش کی ہے۔ واضح رہے کہ آج کل ترکی میں’’ متوازی ریاستی ڈھانچہ‘‘ اور ’’ فتح اللہ گولن دہشت گرد تنظیم‘‘ کے نام سے مشہور اس تنظیم کے خلاف نہ صرف اندرون ملک، بلکہ بیرونی ممالک میں بھی عدالتی کارروائی شروع ہو چکی ہے۔ اس ضمن میں ایک مثال ہی کافی ہوگی۔ اس تنظیم سے منسلک ’’کانسپٹ اسکولز‘‘ کے تحت امریکا کے مختلف شہروں میں سرگرم عمل اس تنظیم کے انیس سکولوں کے بارے میں ایف بی آئی نے جون2014ء میں ’’ سنگین فراڈ‘‘ کی تحقیقات شروع کی تھیں۔

ایک عدالتی فیصلے کی رو سے مذکورہ متوازی ریاستی ڈھانچے نے پولیس، عدلیہ اورفوج جیسے حساس ادارے میں اپنے حامی پیدا کئے ، مسلح دہشت گرد تنظیم قائم کی ، دھمکی کے ذریعے لوگوں سے پیسہ لوٹا اوراپنے مذموم مقاصد کے لئے خرچ کیا۔ قومی سلامتی کے متعلق ایسی معلومات، جن کا اخفا رکھنا ضرور تھا، جاسوسی کی غرض سے حاصل کیا گیا، پھر انہیں اخبارات میں شائع کروایا گیا۔ ان الزامات کے ثابت ہونے پر عدالت نے ان لوگوں کو ملازمتوں سے برخواست کردیا، بعض کو جیل بھیج دیا گیا۔ چند لوگ جن میں ’’ زمان اخبار‘‘ کے صحافی،، چیف ایڈیٹر اورپبلک پر اسیکیوٹر بھی شامل ہیں، فرار ہو کر یورپ میں پناہ گزیں ہو گئے۔

 قومی سلامتی کے خلاف بر سر پیکار ہونے کی وجہ سے ’’متوازی ریاستی ڈھانچے‘‘ کو ملکی سلامتی کے خلاف عناصرکی کیٹگری میں شامل کرلیا گیا ہے۔ چونکہ یہ اخبار اور اس کی انتظامیہ مذکورہ بالا متوازی ریاستی ڈھانچے کی سرگرمیوں میں ملوث اورسہولت کار کے طور پر کام کررہی تھی، چنانچہ استنبول کے پبلک پر اسیکیوٹر نے مارچ کے شروع میں ’’زمان اخبار‘‘ کی انتظامیہ کو مضبوط دلائل کی بنیاد پر ہٹاکر ان کی جگہ غیر جانب دار انتظامیہ کو مقرر کردیا۔ جہاں تک ’’ جمہوریت اخبار‘‘ کے کالم نگار جان دوندار، اردم گل اوران جیسے دیگر صحافیوں کا تعلق ہے، وہ بھی قریب قریب مذکورہ بالا الزامات کے تحت گرفتار کر کے جیل میں بھیج دیئے گئے تھے۔

اب عدالتی کارروائیوں کے نتیجے میں یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو گئی ہے کہ ترکی کی عدالتوں میں جن صحافیوں کے خلاف آج کل مقدمہ چل رہا ہے، ان میں سے کوئی بھی صحافی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کی وجہ سے جیل میں نہیں ہے۔ اس کے برعکس وہ مذکورہ بالا جاسوسی کی سرگرمیوں کی وجہ سے جیل میں ہیں۔ رہی بات صدر رجب طیب اردوان کی طرف سے چند صحافیوں اور سیاست دانوں کے بارے میں عدالت میں چلائے گئے مقدمات کی، تو کوئی بھی غیرت مند اورباوقار آدمی اپنی ذات یا اپنے کسی فیملی ممبر کے بارے میں ہتک آمیز زبان استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اب سوال یہ ہے کہ مذکورہ بالا عدالتی کارروائیوں کو ان صحافیوں اورسیاست دانوں سے منسوب کر کے تنہا صدر رجب طیب اردوان کی ذات کو مجروح کرنے کی کوشش کیوں کی جارہی ہے؟ ان الزامات نے اس وقت جنگ کی صورت اختیار کیوں کی ہے؟

اس کا جواب ایک الگ مضمون کا متقاضی ہے۔ یہاں اتنا بتانا ہی کافی ہے کہ اندرونی و بیرونی میڈیا نے دنیا بھر میں بسنے والے مظلوم مسلمانوں کے حق میں بین الاقوامی سطح پر مسلسل آواز بلند رکھنے کی پاداش میں صدر رجب طیب اردوان کو تختۂ مشق بنایا ہوا ہے ۔ واضح رہے کہ ’’متوازی ریاستی ڈھانچہ‘‘ نامی دہشت گرد تنظیم 2012ء سے مسلسل جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی حکومت کے خلاف سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے اوراپنے مذموم مقاصد کے حضول کے لئے مختلف مزاجوں اورپیشوں کے لوگوں کو بطور آلہ کار استعمال کررہی ہے۔ مزید یہ کہ یہ تنظیم ترکی کے خلاف عالمی سازش کا بھی حصہ ہے۔ آخری بات یہ کہ حال ہی میں ہونے والی ایک رائے شماری سے ظاہرہوتا ہے کہ ترکی کے عوام کی بڑی اکثریت (تقریباً 65 فیصد)’’متوازی ریاستی ڈھانچے‘‘ کے خلاف کی جانے والی عدالتی کارروائی کی حمایت کرتی ہے۔

ڈاکٹر درمش بگلر

Post a Comment

0 Comments