Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

طالبان میز پر کیسے آئیں گے؟

نواز حکومت کے مشیرِ خارجہ سرتاج عزیز نے واشنگٹن کے حالیہ دورے میں برسوں سے موجود اس تاثر کی بالاخر باضابطہ تصدیق کر دی کہ پاکستان افغان طالبان قیادت کا میزبان ہے لہذا ان پر تھوڑا بہت اثر رکھتا ہے اور انھیں مذاکراتی میز پر آنے کے لیے مجبور کر سکتا ہے۔ البتہ جو طے کرنا ہے وہ افغان حکومت اور طالبان کو ہی طے کرنا ہو گا۔ پاکستان طالبان کو کلیتاً ڈکٹیٹ کروانے کی پوزیشن میں کبھی بھی نہیں رہا۔

تاہم دفترِ خارجہ سرتاج عزیز کے اس نیم انکشافی بیان کو بھی اپنانے پر تیار نہیں۔ دفترِ خارجہ کے بقول ’’ہم سیاسی قیادت کے بیان پر تبصرہ نہیں کرتے۔ سرتاج عزیز نے جو کہنا تھا کہہ دیا ہم مزید کچھ نہیں کہیں گے‘‘۔ مگر یہ وہی دفترِ خارجہ ہے جو ماضی میں سرتاج عزیز کے ہر بیان کی وضاحت و توجیہہ پیش کرتا رہا ہے۔

سرتاج عزیز اور دفترِ خارجہ کے اس بیانیہ فرق سے یہ مترشح ہے کہ آج بھی افغانستان کے بارے میں پاکستانی پالیسی سازی کا محور ایک سے زائد ہے۔ یہی وہ تاثر ہے جو بیشتر بیرونی دنیا میں برسوں سے پایا جاتا ہے لہٰذا پاکستان کی سیاسی قیادت اور بیورو کریٹک سیٹ اپ کی جانب سے اس ضمن میں جو بھی پبلک موقف اختیار کیا جاتا ہے دنیا اسے ہو بہو قبول کرنے کے بجائے خوردبین تلے رکھ کے چیک کرتی ہے۔
پاکستان کی سیاسی قیادت لاکھ کہتی رہے کہ افغان مسئلہ افغانوں کا دردِ سر ہے مگر پاکستانی عسکری اسٹیبلشمنٹ کے نزدیک افغانستان ہمیشہ سے پاکستان کی ’’سافٹ انڈر بیلی‘‘  رہا ہے اور اسی سبب افغانستان کے معاملے میں اسٹرٹیجک ڈیپتھ کا نظریہ برقرار ہے۔ یہ الگ بات کہ اس نظریے کا بنیادی محور انڈین فیکٹر ہے۔

طالبان انتظامیہ کے چھ سالہ دور کو چھوڑ کے افغانستان کی ہر حکومت کا جھکاؤ ان قوتوں کی جانب رہا ہے جو پاکستان کی ناپسندیدہ قوتیں رہی ہیں۔ جیسے سابق سوویت یونین اور بھارت۔ ’’سافٹ انڈر بیلی‘‘کے نظریے کو متنازعہ ڈیورنڈ لائن، پشتونستان کے تصور، سرحد کے آرپار پشتون قبائل کی مشترکہ آبادی و ناطے اور قبائلی علاقے (فاٹا) کی جغرافیائی حساسیت  نے عسکری احساسِ عدم تحفظ کو مزید جلا دی۔

چنانچہ پاکستان کی بیشتر توجہ اور کوشش اسی دائرے میں گھومتی رہی کہ اگر افغانستان کو دوست نہیں بنایا جا سکتا تو اسے پاکستان کے حق میں غیر جانبدار ضرور بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ کوشش جس انداز سے کی گئی اس کے سبب افغانستان اور پاکستان کے درمیان بلا امتیازِ حکومت و دور شکوک کی خلیج کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی چلی گئی۔

بھلے وہ باچا خان کا خاندان یا پیرو کار ہوں یا پاکستانی وفاق سے بیزار قوم پرست بلوچ قیادت یا پیپلز پارٹی کے الذولفقاری جیالے یا پاکستانی طالبان کی مفرور قیادت یا پھر وفاقی پالیسیوں سے تنگ آئے قبائلی پناہ گزیں۔ افغان حکومتوں نے ان سب کی میزبانی کی جو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو ایک آنکھ نہ بھاتے تھے۔

چنانچہ ادلے کا بدلہ کی سوچ کے تحت بھٹو صاحب کی حکومت نے گلبدین حکمت یار اور رسول سیاف جیسے کابل حکومت مخالفین کو جگہ دی۔ ضیا الحق نے تو پورا خیبر پختون خوا ہی کابل کی مارکسسٹ حکومتوں کے دشمن مجاہدین کے لیے اس امید پر کھول دیا کہ کل جب احسان مند مجاہدین کابل پر قبضہ کر لیں گے تو ڈیورنڈ لائن سمیت تمام افغان دردِ سر حل ہو جائیں گے اور افغانستان پر پاکستانی اثر و نفوذ بھی تشفی بخش ہو جائے گا۔

چنانچہ اسٹرٹیجک ڈیپتھ اور استحکام کی تصوراتی گاجر حاصل کرنے کے چکر میں پاکستان نے تین ملین سے زائد افغان پناہ گزینوں، درجن بھر مجاہدین تنظیموں، ان کے ہمدرد ہزاروں عرب رضاکاروں، کلاشنکوف کلچر اور منشیات کے پھیلاؤ کا بوجھ بھی ہنسی خوشی کمر پر لاد لیا۔ مگر افاقہ ہونے کے بجائے مرض نت نئی شکلیں اختیار کرتا ہوا پھیلتا چلا گیا اور نیٹ پرافٹ ’’کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے‘‘ کی شکل میں پاکستان کے ہاتھ آیا۔ پاکستان نے جس فریق کی بھی مدد کی وہی تشکیک اور دشمنی کا شکار ہوتا چلا گیا۔ بھلے وہ سابق افغان مجاہدین ہوں کہ ان سے مایوسی کے نتیجے میں پروان چڑھائے جانے والے طالبان۔

مگر وہ اسٹیبلشمنٹ ہی کیا جو ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر دل چھوٹا کر لے۔ آج بھی طالبان اسٹرٹیجک سرمائے کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ وہی طالبان ہیں جنہوں نے افغانستان پر چھ برس حکومت کے دوران بھی پاکستان کی ایک نہیں سنی اور اب جب کہ وہ ایک مدت سے پاکستان کے مہمان ہیں تو بھی پٹھ پر ہاتھ نہیں رکھنے دے رہے۔ مگر پاکستان کے پالیسی سازوں کو آج بھی امید ہے کہ اس بار اگر یہ کامیاب ہو گئے تو پاکستان کی ضرور سنیں گے۔

میرؔ کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

اتنا کشٹ کاٹنے کے باوجود آج بھی افغانستان میں بھارت اور ایران کا اثر و نفوذ اتنا ہی ہے جیسا کہ رہا ہے اور آج بھی پاکستان سے افغانی اتنے ہی بدظن ہیں جتنے کل تھے اور آج بھی افغانستان کی بساط پر بین الاقوامی اسٹرٹیجک شطرنج اسی طرح جاری ہے جیسے پہلے تھی۔

سرتاج عزیز نے کوئی نیا انکشاف نہیں کیا۔ طالبان یا غیر طالبان کا سوال نہیں پاکستان کی کبھی بھی افغانیوں پر پوری طرح نہیں چلی اور سارا وقت پاکستان  افغان مینڈک ترازو میں تولنے کی ہی کوشش کرتا رہا۔ مگر لکھنو کے بانکوں کی طرح وضع داری کا تقاضا بھی نبھاتا رہا کہ چرکے پہ چرکہ کھائے چلے جائیں گے پر مجال ہے کہ منہ سے اف نکل جائے۔

سوال یہ ہے کہ طالبان ایک کنفیوز پاکستانی اسٹیبلشمنٹ، کمزور افغان حکومت اور رخصت ہوتے امریکا سے ایسے وقت بات چیت کیوں کریں جب وہ گزشتہ پندرہ برس میں ہر طرح کی مشکلات کے باوجود خود کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ کابل حکومت کہ جس کی رٹ چند گنے چنے شہروں تک محدود ہے وہ جنوب تا شمال بیشتر دیہی افغانستان پر قابض طالبان کو ایسی کیا پرکشش پیش کش کر سکتی ہے جو طالبان کو نظریاتی اختلاف پسِ پشت ڈال کے بات چیت کی میز پر سنجیدگی سے بیٹھنے پر مجبور کر دے۔

اگر کوئی امید بندھی ہے تو وہ چین سے ہے جس کے اقتصادی و اسٹرٹیجک مفادات کا تقاضا ہے کہ اس خطے سے روڈ اینڈ بیلٹ گزرے۔ مگر یہ خواب امن کے قیام کی تعبیر سے جڑا ہوا ہے۔ اس وقت چین کے پاس ہر فریق کو رام کرنے کے لیے وافر گاجریں بھی ہیں اور وہ انھیں بانٹنے پر بھی آمادہ ہے۔

پاکستان تو خیر چین کا یار ہے ہی مگر کابل حکومت اور کسی حد تک ملا منصور والے طالبان کے دل میں بھی چین کے لیے نرم گوشہ ہے۔ امریکا بھی چاہتا ہے کہ اگر آیندہ کا علاقائی بوجھ مع خرچہ چین ہی اٹھائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ روس کو بھی اس بابت کوئی ریزرویشن نہیں اور ایران چین تعلقات بھی آڑے وقت کے امتحان سے کامیاب نکلے ہیں۔ لہذا چھٹ بھئیوں کی باہمی رقابت اور لڑائیوں سے قطع نظر آج پہلے سے زیادہ قوی امید ہے کہ چین کی قیادت میں جو پنچایت بیٹھے گی وہ افغان مسئلے کا اگر مستقل نہیں تو وقتی حل نکال ہی لے گی۔ یوں پاکستان کو بھی سرخروئی کا موقع مل جائے گا کہ دیکھا ہم نہ کہتے تھے ایک نہ ایک دن میری کوششیں بارآور ہوں گی۔

وسعت اللہ خان

Post a Comment

0 Comments