Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

سپریم کورٹ کو معافی مانگنا واجب ہے

بھارتی عدلیہ کو اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے بہت طویل سفر کرنا ہو گا۔ الہ آباد ہائی کورٹ جس نے کہا ہے کہ اختلاف رائے کو ملحوظ خاطر رکھا جائے گا لیکن اس سے ایمرجنسی کے دوران عدلیہ کو جو دھبہ لگا ہے وہ مٹایا نہیں جا سکے گا۔ اس فیصلے کو 35 سال گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک میں اس کی تفہیم سے قاصر ہوں۔

عدلیہ نے مداخلت کرتے ہوئے بنیادی حقوق کے تعطل کو جائز قرار دیا جو آئین کی صریح خلاف ورزی تھی۔ اور تو اور عدالت نے ایمرجنسی کے نفاذ کو بھی جائز قرار دے دیا۔ صرف ایک جج جسٹس آر کے کھنہ نے اختلافی فیصلہ دیا لیکن اس جج کو معطل کر دیا گیا۔ انتخابات میں وزیراعظم اندرا گاندھی کو عوام نے ووٹ کے ذریعے اقتدار سے فارغ کر دیا اور یہی سلوک ان کے صاحبزادے سنجے گاندھی سے ہوا جو آئین سے ماوراء اتھارٹی کا درجہ اختیار کر چکے تھے۔

جس بات سے مجھے مایوسی ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے کبھی بھی اس فیصلے کے خلاف نہ کوئی قرار داد پاس کی ہے یا اس فیصلے پر کوئی تنقید کی ہے جس نے کہ  بھارتی عدلیہ کا نام بدنام کر دیا تھا حالانکہ  اب بھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا۔  بھارتی سپریم کورٹ کے بنچ میں لبرل جج حضرات بھی موجود ہیں، وہ اب بھی یہ قرار داد منظور کر سکتے ہیں کہ ان کا پیش رو بنچ ایمرجنسی کی حمایت کرنے میں غلطی کا مرتکب ہوا تھا۔

کم از کم نریندر مودی کی کابینہ میں ان کا وزیر قانون ارون جیٹلے آزاد خیال سمجھا جاتا ہے۔ انھیں تو گزشتہ حکومت کی ایمرجنسی کے دوران کی جانے والی زیادتیوں پر اظہار افسوس کرنا چاہیے۔

اس زمانے میں اندرا گاندھی نے ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو مقدمہ چلائے بغیر حراست میں لے لیا تھا اور اس وقت کے اٹارنی جنرل نرائن ڈے نے عدالت میں یہ بیان دیا  تھا کہ ایمرجنسی کے تاریک دنوں میں لوگوں کے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے۔ اس قدر خوف و ہراس پھیل چکا تھا کہ عملی طور پر دہلی کے تمام وکیل کچھ بھی بولتے ہوئے ڈرتے تھے۔

ممبئی کے وکیل سولی سہراب جی اور دہلی کے وکیل وی ایم تھرکونڈے نے ہیبیس کارپیئس کی پیٹیشن داخل کر دیں۔ میری پٹیشن پر ان دونوں نے بحث کی جس پر عدالت نے 3 مہینے کے بعد مجھے جیل سے رہا کرا لیا۔ دو جج جسٹس ایس رنگا راجن اور جسٹس آر ایم اگروال کو اس بات کی سزا دی گئی کہ انھوں نے میری رہائی کا فیصلہ کیوں دیا۔ پہلے جج کو گوہاٹی میں ٹرانسفر کر دیا گیا جہاں پر آج بھی لوگ ان کی غیر جانبداری کی تعریفیں کرتے ہیں۔ دوسرے جج کی تنزلی کر کے اسے سیشن کورٹ میں بھیج دیا گیا لیکن ان انتقامی کارروائیوں کے باوجود ان کے رویے میں کوئی فرق نہیں آیا اور انھوں نے اپنا کام آزادانہ طور پر جاری رکھا۔

غالباً اب ججوں پر دباؤ کم ہو گیا ہے کیونکہ میڈیا خاصا چوکس ہو چکا ہے۔  لیکن ایک انتہائی غلط روش اب بھی جاری ہے کیونکہ بنچوں پر ججوں کی تعیناتی حکمرانوں کی خواہشات کے پیش نظر کی جاتی ہے۔ یہ غلط کام کانگریس کی حکومت کے دوران مرکز میں شروع ہوا جو کہ اب بی جے پی کی حکومت میں بھی جاری ہے۔

حقیقت میں یہ رواج اندرا گاندھی نے شروع کیا۔ اندرا نے تین ججوں۔ جسٹس جے ایم شیلٹھ‘ جسٹس کے‘ ایس ہیج اور جسٹس اے این گروور۔ کی سینارٹی کو نظر انداز کرتے ہوئے جسٹس اے این رے کو چیف جسٹس بنا دیا تاہم ان کا اپنا انجام بھی بخیر نہیں ہوا کیونکہ ان کی پارلیمنٹ کی نشست خارج کر دی گئی اور بدعنوانیوں کی وجہ سے انھیں چھ سال کے لیے الیکشن میں حصہ لینے سے نااہل قرار دیدیا گیا لیکن بجائے اس کے کہ وہ اس فیصلے کو تسلیم کرتیں انھوں نے ایمرجنسی لگا دی اور از خود قانون کو تبدیل کر دیا۔

ایمرجنسی کے دوران اندرا اور ان کے صاحبزادے سنجے گاندھی نے جو زیادتیاں کیں وہ اب تاریخ کا حصہ ہیں لیکن وہ ان لوگوں کو اب بھی یاد ہیں جنہوں نے ایمرجنسی کی وجہ سے مصیبتیں اٹھائیں بلکہ انھیں بھی یاد ہیں جنہوں نے جمہوریت کی حمایت کی۔ مسز گاندھی کو شکست دیکر جنتا پارٹی اقتدار میں آ گئی جس نے آئین میں ایسی تبدیلیاں کر دیں جن کے بعد ایمرجنسی کا نفاذ ہی نا ممکن بنا دیا گیا اور جسٹس کھنہ کا یہ اختلافی فیلہ کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کو کسی صورت تبدیل نہیں کیا جا سکتا اب ایک تسلیم شدہ روایت کی صورت اختیار کر چکا ہے۔

اس میں پارلیمانی نظام حکومت کی ضمانت دی گئی ہے اور ہر حکمران پر یہ لازم کر دیا گیا ہے کہ عدلیہ کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی جائے گی۔ اصل میں عدلیہ کی آزادی کا انحصار ججوں کی اہلیت پر ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں مجھے شکوک و شبہات محسوس ہوتے ہیں۔ امریکا میں جس کو سب سے بڑی جمہوریت کہا جا سکتا ہے وہاں پر سپریم کورٹ ریپبلیکن اور ڈیموکریٹک ججوں میں منقسم ہے لیکن چونکہ ججوں کے عہدے کی مدت تاحیات ہے اس وجہ سے ایک پارٹی کی طرف سے تعینات کردہ جج حضرات اپنی پرانی وفاداریوں سے بلند تر ہو کر مکمل طور پر آزاد اور غیرجانبدار ہو جاتے ہیں۔

بھارت میں ہمارے پاس بہترین جج تھے جب حکومت انھیں متعین کرتی تھی لیکن اب اس معاملے میں پارٹی پالیٹکس ملوث ہو چکی ہے۔ کم از کم ہائی کورٹ کے ججز کو دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ حکمران جماعت نے سب سے بہترین وکلاء کو نظرانداز کر دیا ہے اور انھیں جج  مقرر کیا ہے جو اس پارٹی کے وفادار ہیں۔

حتیٰ کہ سپریم کورٹ میں بھی بعض تقرریوں پر شکوک و شبہات کے سائے پھیلے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر سابق اٹارنی جنرل گوپال سبرا منیم جن کی سپریم کورٹ میں تقرری کو نریندر مودی حکومت نے روک دیا۔ اس پر سبرا منیم نے کہا کہ وکیل کی حیثیت سے میری آزاد خیالی نے حکومت کے دل میں یہ احساس پیدا کر دیا تھا کہ میں آنکھیں بند کر کے حکومت کی باتیں نہیں ماننے والا، یہی وجہ ہے کہ میرے تقرر کو مسترد کر دیا گیا ہے۔

اس کے بعد انھوں نے خود ہی اس دوڑ سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ یہی حقیقت تھی کہ گجرات پولیس کو سہراب الدین کے جعلی پولیس مقابلے میں ہلاکت کا مقدمہ درج کرنا پڑا اور جب مقدمے کے بنیادی گواہ تلسی رام پراجپتی کو پر اسرار حالات میں راستے سے ہٹا دیا گیا تو سبرا منیم نے اس مقدمے کو سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) میں ٹرانسفر کرنے کی سفارش کر دی۔ اس حوالے سے یہ بات بطور خاص قابل ذکر ہے کہ سبرامنیم نے یہ بھی تسلیم کیا کہ انھی کی تجویز پر سپریم کورٹ نے ملزم امیت شاہ کی ضمانت پر رہائی منظور  کی تھی جو کہ اب بی جے پی کے صدر ہیں، لیکن ان کے گجرات میں داخلے پر پابندی عائد ہے۔

جب عشرت جہاں کے پولیس مقابلے کی کہانی منظر عام پر آئی تو اس سے ثابت ہو گیا کہ سیاست کس حد تک جرائم میں ملوث ہو چکی ہے۔ اس حوالے سے میں کسی ایک یا دوسری پارٹی کو مورد الزام نہیں ٹھہراتا لیکن یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ جب کوئی پارٹی رکن عدالت کے روبرو پیش ہوتا ہے تو اس کے فیصلے میں اس کی پارٹی کا اثرورسوخ کارفرما ہوتا ہے۔

الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے یہ ریمارکس خاص طور پر قابل غور ہیں۔ چیف جسٹس چندرا چند نے ہائی کورٹ کی سالانہ تقریب کے موقع پر کہا کہ قوانین پہلے سے قائم شدہ مثالوں کی پیروی کرتے ہیں لیکن یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ انصاف کا عمل قوانین کی تشریح پر منحصر ہوتا ہے جو کہ مدتوں پہلے طے کر دی جاتی ہیں جس کے لیے وقت کی ضرورتوں اور چیلنجز کو پیش نظر رکھنا پڑتا ہے۔

تلخ حقیقت یہ ہے کہ معاملات شروع الہ آباد ہائی کورٹ سے ہوتے ہیں کیونکہ اس نے اندرا گاندھی کو منصب سے بے دخل کر کے قانون کی تاریخ کو تبدیل کر دیا جس نے کہ عدلیہ کو ایک نیا رجحان عطا کیا۔ غالباً اب وقت آ گیا ہے جب وزیراعظم مودی کے اس بیان کو قانونی شکل دی جانی چاہیے جس میں انھوں نے کہا کہ فرسودہ قوانین کو کالعدم قرار دے دیا جائے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)
کلدیپ نئیر

Post a Comment

0 Comments