Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

جب روس نے جلا وطن الاسد قبول کیا

سابق شامی نائب صدر فاروق الشرع کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کس طرح روس نے ۱۹۸۴ میں شام کے صدر حافظ الاسد اور ان کے چھوٹے بھائی اور فوج کے سربراہ رفعت الاسد کے درمیان شدید تنازعہ کے باعث پیدا ہونے والے بحران کے خاتمے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔
کتاب کے مطابق حافظ الاسد کی علالت کے دوران اقتدار پر جانشینی کے مسئلہ پر ان کے اور رفعت الاسد کے درمیان اختلافات شدید ہوگئے تھے، اس وقت روس نے رفعت الاسد کو بطور جلا وطن رہنما قبول کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ اس انکشاف سے یہ مطلب بھی اخذ کیا جا رہا ہے کہ اگر روس ماضی کو دہراتے ہوئے حالیہ بحران میں بشار الاسد کو بھی جلاوطنی میں قبول کر لے تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی۔

فاروق الشرع جو ۲۰۱۲ کے بعد سے منظر عام پر دکھائی نہیں دئے ہیں، کے مطابق تنازعہ اس کھڑا ہوا تھا جب رفعت الاسد نے دمشق انتظامیہ پر کنٹرول کی کوششیں کیں جس سے حکمران علوی خاندان تقسیم ہو گیا۔ مگر جب حافظ اور رفعت کے وفادار فوجی گروپوں میں لڑائی چھڑنے ہی والی تھی کہ حافظ الاسد کومے کی حالت سے جاگ گئے۔

سوویت حکومت نے مداخلت کرتے ہوئے اپنے اول نائب وزیر اعظم حیدر علیوف کو عجلت میں دمشق بھیجا جنہوں نے فوری طور پر رفعت الاسد سے ملاقات کا مطالبہ کیا۔ کتاب کے مطابق حافظ الاسد نے سوویت مداخلت کو مسترد نہیں کیا تاہم رفعت سے ملاقات کے لئے فاروق الشرع کو علیوف کے ساتھ بھیجا تاکہ ان کی گفتگو اور منصوبے سے آگاہ رہ سکے۔ بعد ازاں حافظ الاسد نے رفعت کو نائب صدر کے عہدے پر ترقی دے دی مگر ان کے اختیارات کم کر دئے۔
الشرع لکھتے ہیں کہ صدر کی درخواست پر انہوں نے اس تنازعے کا حل نکالا اور رفعت کے شام سے باعزت اخراج کا منصوبہ بنایا جس کے تحت فرانس کے سفیر سے درخواست کی گئی کہ وہ رفعت کے پیرس کے سرکاری دورے کا بندوبست کریں جس کے بعد وہ وہاں طویل قیام کر سکیں۔ مگر فرانس نے جلا وطن رفعت کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ کچھ عرصہ بعد فرانس سے پھر یہی درخواست کی گئی مگر پیرس حکام نے اپنا فیصلہ بدلنے سے انکار کردیا جس کے باعث دونوں ملکوں کے تعلقات میں تناؤ پیدا ہوگیا۔

پیرس سے مایوس ہو کر الشرع نے ماسکو سے رجوع کیا جہاں سے فوراً مثبت جواب آیا۔ پھر حافظ الاسد نے رفعت کو نائب صدر کی حیثیت سے ایک اعلی سطحی وفد کے ہمراہ ماسکو بھیجا۔ اپنے ۷۰ وفادار افسران کے ہمراہ یہ رفعت کا الوداعی دورہ تھا جس کے بعد انہوں نے تا حکم ثانی جلا وطن ہی رہنا تھا۔ رفعت نے تنازعہ کے حل کے لئے شام کو چھوڑنا منظور کر لیا تھا مگر حافظ الاسد حالات پر مکمل قابو رکھنا چاہتے تھے جس کے لئے انہوں نے الشرع کو بھی ان کے ساتھ ماسکو بھیجا۔ حافظ الاسد نے کئی سیکیورٹی افسروں کو بھی رفعت کے وفادار افسروں کے ساتھ ماسکو بھیج دیا جو ’لازمی تفریح اور دلبستگی‘ کے لئے روس بھیجے جا رہے تھے۔ الشرع کے مطابق ماسکو نے ان کی میزبانی بھی قبول کر لی تھی۔

الشرع لکھتے ہیں کہ سفر کے دوران جہاز میں رفعت اور تھرڈ ڈویژن کے کمانڈر شفیق فائد کے درمیان کسی بات پر جھگڑا ہو گیا جو اتنا بڑھ گیا کہ بندوقیں نکل آئیں۔ مگر فضائیہ انٹیلی جنس کے سربراہ محمد الخولی کی مداخلت پر معاملہ ٹھنڈا ہوا۔

کریملن نے پروٹوکول کے مطابق رفعت کا استقبال کیا اور دونوں حکومتوں کے درمیان سرکاری بات چیت بھی ہوئی۔ الشرع لکھتے ہیں کہ رفعت ماسکو حکام سے اپنی ملاقاتوں اور روسی میڈیا کو دئے بیانات سے حافظ الاسد کو آگاہ کرتے رہتے تھے۔ یہ بیانات الشرع کی مدد سے تشکیل دئے جاتے تھے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ انہیں خطرہ تھا کہ رفعت کے کسی غیر محتاط بیان کو روسی حکام اپنے مفادات کے لئے استعمال نہ کر لیں یا رفعت شام کے بحران کے بارے میں کوئی نامناسب بات نہ کہ دیں۔

تب اور اب

ماضی میں روس کی مداخلت نے شام کو خانہ جنگی اور انتشار سے بچایا تھا۔ ان حالات کو یاد کرتے ہوئے یہ واضح دیکھا جاسکتا ہے کہ ماضی اور آج کے ماسکو اور پچھلے اسد اور موجودہ اسد میں کیا فرق ہے۔

مشرق وسطی کی بدترین سیاسی اور انسانی تباہی کی بنیادی وجہ بشار الاسد ہے۔ اس کو ہٹانا اب ناگزیر ہوچکا ہے کیونکہ اس نے قتل عام اور وسیع تباہی پھیلا کر مصالحت کے ذریعے شام کے بحران کے حل کے تمام امکانات کو بھی تباہ کر دیا ہے۔ بشار کے اقتدار میں رہنے سے دہشت گردی اور تباہی بڑھتی جائے گی جو سیاسی نظام، اس کے خاندان، فرقے، ملک، اور پورے خطے اور دنیا کے لئے ذیادہ بڑی تباہی کا باعث ہوگی۔

اگر روسیوں نے آج بھی وہی کیا ہوتا جو انہوں نے ۱۹۸۴ میں کیا تھا، اور اگر انہوں نے بشار سے مستعفی ہونے کے مطالبہ کی حمایت کی ہوتی، تو وہ خطے اور دنیا کو اس تباہی و بربادی سے بچا سکتے تھے۔ آخر میں سب یہ جان لیں گے کہ بشار اقتدار میں ذیادہ دیر نہیں رہ سکتا کیونکہ اس کی حکومت تباہ ہوچکی ہے۔ اگر روسی آج ایک مثبت کردار ادا کرتے ہیں اور بشار کو ہٹانے میں مدد کرتے ہیں، تو وہ نہ صرف اس انسانی المیے کو ختم کریں گے بلکہ شام اور اپنے امیج کی تعمیر نو بھی کریں گے۔

عبدالرحمان الراشد

Post a Comment

0 Comments