Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

تبلیغ پر پابندی کیوں؟

حال ہی میں حکومت پنجاب نے دہشت گردوں کی طرف سے توجہ ہٹا کر ایک اور محاذ کھول لیا ہے۔ اس نے تعلیمی اداروں میں تبلیغ اور دروسِ قرآن پر پابندی اور منبر و محراب کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے احکام جاری کردیے ہیں۔ یوں سودی معیشت پر اصرار کے بعد اللہ اور اس کے رسولﷺ کے خلاف ایک اور بغاوت کر دی ہے۔ اللہ کے نبی ؐ نے فرمایا تھا کہ میں تو مبلغ بنا کر بھیجا گیا ہوں اور ساتھ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ مجھ سے جو بات بھی تم تک پہنچے ، اسے آگے پہنچاؤ۔ اسی نبیؐ کے ماننے والے حکمران تبلیغ کو ممنوع قرار دے کر یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ان کے دعوے اور ہیں اور عمل اور۔

 تبلیغی پروگراموں میں کہاں دہشت گردی کی بات ہوتی ہے؟ لوگوں کو نماز کی طرف بلانا، قرآن کی تعلیم دینا اور ان کے عقائد درست کرنا، درحقیقت ان کی بدعملیوں اور بدکرداریوں کے خاتمے کا سبب بنتا ہے، جس کے نتیجے میں لاقانونیت اور دہشت گردی کا خاتمہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اگر لوگوں کو ان مثبت سرگرمیوں سے بھی روک دیا جائے تو ردِ عمل میں کئی خام ذہن کے لوگ پٹری سے اتر جاتے ہیں۔

ہم ہر اس اقدام کی حمایت کرتے ہیں، جو خون ریزی،لاقانونیت اور دہشت گردی کے خاتمے کا سبب بنے۔ اسی طرح ہم ہر اس حکم کی مخالفت و مذمت کرتے ہیں، جو اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے اس پاک وطن میں اسلام کی آواز دبانے کے لئے صادر کیاجائے ۔ حکمرانوں کے اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے مضحکہ خیز ہی نہیں ان کی ناکامی پر مہر تصدیق ثبت کرنے کا باعث بھی ہیں۔ اس افسوسناک سرکاری حکم کے خلاف جماعت اسلامی نے تو قومی اسمبلی اور سینیٹ کے علاوہ پنجاب اسمبلی میں بھی قراردادیں پیش کی ہیں۔

 ہم تحسین کرتے ہیں کہ جماعت کے علاوہ پنجاب اسمبلی میں حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی جماعت مسلم لیگ (ق )کے ایک ایم پی اے سردار وقاص حسن موکل نے بھی ایک قرار داد پیش کی ہے، جس میں اس پابندی کو ناروا قرار دیا ہے۔ ان کی اس قرار دادپر ہر محب وطن پاکستانی اور مخلص مسلمان سراپا تحسین ہے۔ اللہ کرے وہ اپنی قرارداد پر ثابت قدم رہیں اور ایوان میں بیٹھے ہوئے کلمہ گو ارکان کا ضمیر بھی بیدار ہوجائے ۔اس قرار داد کا جو متن ذرائع ابلاغ میں آیا ہے اس کے مطابق انہوں نے کہا ہے 

’’یہ ایوان حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں میں تبلیغی جماعتوں پر پابندی کی شدید مذمت کرتا ہے، جبکہ یہ تبلیغی جماعتیں فرقہ واریت سے پاک ہیں اور دہشت گردی سے روک کر امن کا درس دیتی ہیں اور ان کے کام میں کوئی متنازعہ بات نہیں۔ یہ پوری دنیا میں تعلیمی اداروں کے اندر دین کا کام کر رہی ہیں ،جس کا عملی مظاہرہ رائے ونڈکا اجتماع ہے ۔ اس کی وجہ سے لاکھوں انسانوں کی زندگی میں خوشگوار انقلاب کا آتا ہے۔ پنجاب کے تعلیمی اداروں میں یہ پابندی نہ صرف ناقابل فہم ،بلکہ مذہبی جذبات برافروختہ کرنے کے مترادف ہے۔ لہٰذا یہ ایوان مطالبہ کرتا ہے کہ مذکورہ پابندی کو فی الفور واپس لیا جائے۔  

یہ بہت مثبت سوچ ہے اور ہم صوبائی اسمبلی کے ممبر جناب موکل صاحب کی اس قرار داد پر انہیں مبارکباد دیتے ہیں۔ حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہییں اور ایسی اوچھی حرکتوں سے اپنے اور ملک کے نام پر دھبہ لگانے سے اجتناب برتنا چاہیے۔ ہمارے حکمرانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ترکی میں مصطفی کمال پاشا نے بھی اسلامی اقدار کو عوام کے ذہنوں سے محو کرنے کے لئے اسی طرح کی حرکت کی اور وہاں خلافت کے خاتمے کے بعد سیکولر دستور نافذ کیا تھا۔ عربی زبان ، پردے اور دینی مدارس کو ممنوع قرار دے دیا گیاتھا، حتیٰ کہ حج پر بھی پابندی لگا دی گئی۔

حقائق گواہ ہیں کہ ترک قوم نے اس پابندی کے خلاف بغاوت کی، اگرچہ کئی سال بعد، اور وہ تمام پابندیاں ختم کرائی گئیں، جو اتاترک کے زمانے سے لاگو تھیں۔ ہر چند کہ سیکولر دستور ابھی تک تبدیل نہیں ہوسکا، مگر اس کی طرف بھی پیش رفت جاری ہے۔ پاکستان میں تواللہ کا شکر ہے کہ ملکی دستور اللہ کی حاکمیت اعلیٰ کا اقرار کرتا ہے اور قرآن و سنت کے خلاف کسی قانون کو جائز قرار نہیں دیتا۔ یہ الگ بات ہے کہ اب تک ملک میں پے در پے برسرِ اقتدار آنے والے سیاسی ٹولوں اور باوردی حکمرانوں نے اپنی من مانی کی ہے اور دستور کو پسِ پشت ڈالے رکھا ہے۔

اب موجودہ حکمران جو مسلم لیگ اور قائداعظم کے وارث ہونے کے مدعی بنتے ہیں، ایسی حرکتیں کر رہے ہیں کہ کبھی لبرل ازم کا نعرہ لگتا ہے اور کبھی سیکولرازم کا، کبھی مخلوط تعلیم اور انگریزی زبان کو ملک کا کلچر بنانے کے لئے سرکاری مشینری استعمال کی جاتی ہے تو کبھی صدرِ مملکت کی زبان سے یہ بھی کہلوایا جاتا ہے کہ علماء سود کے حلال کرنے کے لئے کوئی دلائل اور جواز فراہم کریں۔ ایسے تمام اقدامات پر انا للہ ہی پڑھا جاسکتا ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے سوتے غیر ملکی قوتوں سے جا ملتے ہیں۔ آرمی چیف نے ٹھیک کہا ہے کہ’’ دہشت گردوں کو بیرونی مدد ملتی ہے۔

 بلوچستان عالمی اور علاقائی طاقتوں کی پراکسی وار کا گڑھ بن گیا ہے۔‘‘ جنرل صاحب نے یہ بات کوئٹہ میں خوشحال بلوچستان سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اس بیان کی روشنی میں ان قوتوں کے خلاف حکومت کے تمام اداروں کو مشترکہ پالیسی اختیار کرنی چاہیے، جو پراکسی وار کے ذریعے وطن عزیز کو خون کے سمندر میں ڈبونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس عظیم مقصد کے حصول کی خاطر پوری قوم کو بھی اعتماد میں لینا ضروری ہے۔

ہم وقت کے حکمرانوں سے یہی کہیں گے کہ خدا کے لئے بدحواسی یا مایوسی کے عالم میں وہ ایسے اقدام نہ کریں، جو ملک و قوم کو نفع دینے کے بجائے الٹے نقصان دہ ثابت ہوں۔ ایسی حرکتوں سے وہ کہیں کے نہیں رہیں گے ۔نہ خدا ہی ملے گا،نہ وصال صنم ہو گا۔اسلام کے ساتھ وفاداری کے نتیجے میں دنیا اور آخرت دونوں میں بھلائی ملے گی ۔ہم یہ بات حکمرانوں کی خیر خواہی میں کہہ رہے ہیں اور پورے درد دل کے ساتھ بصد ادب عرض کرتے ہیں کہ خدا کے لئے ملک کا قبلہ تبدیل نہ کریں ۔ اسلام کی دعوت و تبلیغ کے لئے آسانیاں پیدا کریں ۔اسی کے نتیجے میں ان شاء اللہ دہشت گردی ختم کرنے میں آسانی ہو گی۔

حافظ ادریس

Post a Comment

0 Comments