Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

ملک کی تقدیر بدلنے کا نُسخہ

ایک روز میں دفتر میں بیٹھا شیشے کے پار مرگلہ کی خوبصورت پہاڑیوں پر اترے ہوئے بادلوں کا دلفریب منظر دیکھ کر خوش ہورہا تھا مگر پھر یہ سوچ کر مضطرب ہوگیا کہ یہ قدرتی حسن اور نظارے ہم جیسے لوگوں کے لیے سکون آور ہیں جو معاشی مسائل سے آزاد ہیں جن پر خدا کا فضل و کرم ہے اور جو  کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔

ان کروڑوں گھرانوں کے لیے جہاں بسنے والے نوجوان بے روزگار ہیں، جہاں چولہا تب جلتا ہے جب گھرکا کوئی فرد مزدوری کے پیسوں سے سبزی اور گھی لے کر آتا ہے،جہاں صبح روٹی پکے تو شام کو کھانے کے لیے کچھ نہیں بچتا  جہاں غربت اور بے روزگاری نے مستقل ڈیرے ڈال رکھے ہیں ،ان گھرانوں اور وہاں کے مکینوں کے لیے ایسے نظارے بے معنی ہیں۔  ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ روزگار، روزی اور روٹی ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ یورپی ممالک میں بھی بہت غربت تھی۔

بے روزگاری اِن کے لیے بھی بہت بڑا چیلنج تھا۔ انھوں نے اس پر کیسے قابو پایا،  انھوں نے اپنے شہریوں کو غربت کی دلدل سے کیسے باہر نکال لیا؟ میں انھی سوچوں میں گم تھا کہ ایک وزیٹنگ کارڈ موصول ہوا ، ملاقات کے لیے برٹش کونسل سے دو پڑھی لکھی شستہ اور خوش گفتار خواتین آئیں تھیں۔ پاکستان کے ھیومن ریسورس کو کارآمد بنانے پر ان کی گفتگو نے بہت متاثر کیا کہ اس میں عام این جی اوز والی لیپا پوتی اور ہوائی اصطلاحات نہیں بلکہ خلوص اور   کی مہک تھی۔
انھوں نے ملک سے محبّت کے جذبے سے سرشار ہوکر  کے ساتھ تعاون کا عندیہ دیا اور اٹھتے ہوئے برٹش کونسل کے زیرِ اہتمام برمنگھم میں   پر ہونے والی عا لمی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی۔ میں نے کہا نیوٹیک کی طرف سے کسی سینئر افسر کو بھیج دیں گے اس پرکنٹری ڈائریکٹر مسز نشاط ریاض نے کہا  ’’صوبائی  کے سربراہ بھی جارہے ، باقی ملکوں سے بھی اداروں کے سربراہ آئیں گے اس لیے پاکستان کی نمایندگی کے لیے آپ کا شریک ہونا ضروری ہے۔

وہ ممالک جنہوں نے سکل ڈویلپمنٹ کے ذریعے غربت کے جن کو قابو کیا ہے اور اپنے ہیومن ریسورس کے ذریعے سماجی اور معاشی ترقی کے زینے طے کیے ہیں ان کے تجربات سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے ‘‘۔ میں نے حامی بھرلی ۔ سفری دستاویزات ان کے رفیق ِ کار علی نے مکمل کروا کے بروقت پہنچادیں۔
برمنگھم ائیرپورٹ پر اُترے تو ہڈیوں میں اترتی ہوئی یخ بستہ ہواؤں نے استقبال کیا۔ شاعرِ مشرق کے بقول زمستانی ہوا میںواقعی شمشیر کی تیزی تھی۔

 ہوٹل کی سادگی بھی ذرا حوصلہ شکن سی تھی مگر صبح کانفرنس شروع ہوئی تو سارے گِلے جاتے رہے۔ کانفرنس کے ہر مقرر (چاہے وہ خاتون تھی یا مرد) نے موضوع کے مختلف زاویوں پر بڑی خوبصورتی سے اظہارِ خیال کیا۔ دوپہر کے بعد شرکاء کو  مختلف گروپوں میں تقسیم کردیا گیا جہا ں مختلف ممالک کے تجربات سننے اور ان سے استفادہ کرنے کا موقع ملا۔
رات کو برمنگھم شہر کے ایک ٹیکنیکل ادارے (ڈَڈلے کالج) کی طرف سے عشائیے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ جب اسٹیج سیکریٹری نے اعلان کیا کہ سب سے پہلے کالج کے پرنسپل مہمانوں کو خوش آمدیدکہیں گے توذھن میں اپنے ہاں کے ووکیشنل اداروں کا تصوّر تھا اس لیے خیال کیا کہ کسی گھِسے ہوئے پُرزے کی طرح کا بوڑھا انگریز ہوگا جو ٹیکنیکل سی باتیں کرکے بورکرے گا۔ مگر ایک انتہائی باوقار شخص نے مائیک پر آکر چند فقروں میں ہی تمام حاضرین کو اپنی گرفت میں لے لیا۔

پرنسپل صاحب کی چند باتیں یاد رہ گئیں ’’یہاں نوجوان طلباء وطالبات کے کیرئیر ہی نہیں کردار بھی بنائے جاتے ہیں۔ ہم انھیں ہنر ہی نہیں زندگی کے اصول بھی سکھاتے ہیں ۔ مجھے اور میرے کولیگز کو فخر ہے کہ یہ ادارہ جہاں آپ بیٹھے ہوئے ہیں برطانیہ کی ترقّی میں بھرپور حصہ ڈال رہا ہے‘‘کھانے پر ان سے بات چیت ہوئی تو اِنکی باتوں پر یقین آگیا،مختلف زبانیں بولنے والے شرکاء اس پر متفق تھے کہ وہ جنھیں معمارِ قوم کہا جاتا ہے وہ اسی طرح کے استاد ہوتے ہیں۔ زیرِ تربیّت طباء وطالبات نے اپنے ہاتھوں سے تیار کی ہوئی ڈشیں مہمانوں کو بڑے سلیقے سے سرو کیں۔

دوسرے روز شرکاء کو مختلف گروپوں میں تقسیم کرکے مختلف انڈسٹریز کے دورے کرائے گئے۔ جہا ں فیکٹریوں میں زیرِ تربیّت اپرنٹسوں کو کام کرتے ہوئے دیکھا۔ اپرنٹس وہ زیرِ تربیّت ورکر ہوتا ہے جسے انڈسٹری کی طرف سے کچھ معاوضہ بھی دیا جاتا ہے اور تربیّت مکمل ہونے کے بعد اسے اسی انڈسٹری میں پوری تنخواہ کے ساتھ  کرلیا جاتا ہے۔

اس کے بعد ایک اور ووکیشنل کالج کا دورہ کرایا گیا۔کالج کے انفراسٹرکچر، وسعت اور  کے لحاظ سے ہماری کوئی یونیورسٹی بھی اس کا  مقابلہ نہیں کرتی ۔ ہم حکومت کو سفارشات بھیج رہے ہیں کہ ہر ڈویژن کی سطح پر ایک اعلیٰ پائے کا ٹیکنیکل ادارہ قائم کیا جائے جہاں عالمی معیار کی تربیّت فراہم ہوجہاںسے فارغ ہونے والوں کا روزگار سو فیصد یقینی ہوگا۔

تیسرے روز برمنگھم کے ایکسپو سینٹر میں منعقد ہونے والے  کا دورہ کرایا گیا۔ یہ دورہ بلاشبہ سب سے زیادہ   اور  تھا۔ اس کے شرکاء کی تعداد پچاس ہزار سے زیادہ ہوگی۔ نوجوان طلباء وطالبات کے ایک گروپ نے ہمارے گائیڈز کی ذمے داری سنبھال لی۔ گائیڈز ہمیں سیکڑوں کی تعداد میں بنے ہوئے مختلف ٹریڈز کے انکلیوز میں لے جاتے رہے، کہیں   ہورہے تھے کہیں طلباء وطالبات کی  کے 
بارے میں راہنمائی کی جارہی تھی۔

زیرِ تربیّت طلباء و طالبات کے علاوہ ان کے انسٹرکٹر، ان کے والدین اور صنعتکار  اور  بھی بہت بڑی تعداد میں ایک ہی جگہ جمع تھے اور مقابلوں کے دوران نوجوانوں کی صلاحیّت دیکھ کر انھیں اپنی انڈسٹری یا اپنے ادارے میں jobsکی پیشکش کررہے تھے۔ نیوٹیک بھی بہت جلد اس طرح کے مقابلے اور روزگار میلے منعقد کرانے جارہا ہے۔

پرائم منسٹر یوتھ اسکل ڈویلپمنٹ  پروگرام کے تحت پچیّس ہزار خواتین و حضرات ملک کے ہر صوبے اور ہر علاقے میں مختلف ہنر سیکھ رہے ہیں، کراچی اور کوئٹہ کے مختلف اداروں میں زیرِ تربیّت نوجوانوں سے ملاقات ہوئی تو انھیں پرامید پایا۔ سلائی کڑھائی اور پکائی سیکھنے والی بچیوں سے ملا تو وہ لڑکوں سے زیادہ پر عزم تھیں اور بیوٹیشن کے کورس کرنے والی لڑکیوں کوتو سو فیصد یقین تھا کہ وہ اپنی گلی میں بھی اپنا پارلر بنا کر کام شروع کردیں گی تو بہت کامیاب ہوگا۔  کے ضمن میں اتنی ہیں کہ اِن پر کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔

دوسری جانب جس دوست یا واقف کار سے بات ہوئی اسے  کا متلاشی پایا، صنعتکار کہتے ہیں کہ کنسٹرکشن، مَیٹل اور سرامکس میں ہنر مند ورکر نہیں ملتے، کیٹرنگ کا کاروبار کرنے والے دوست کہتے ہیں تربیّت یافتہ نوجوانوں کو ڈھونڈ رہے ہیں ۔

ہر قسم کے ایکسپورٹرز کو پیکنگ کی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی ٹرینڈ ورکر چاہتے ہیں گھر کی بجلی اور باتھ روم ٹھیک کرنے والے الیکٹریشن اور پلمبر کی ضرورت پڑجائے تو اَن ٹرینڈ اورڈنگ ٹپاؤ قسم کے ملتے ہیں جنکی کارکردگی انتہائی ناقص ہوتی ہے اور زراعت سے وابستہ پڑھے لکھے حضرات سمجھتے ہیں کہ فارم منیجر اگر تربیّت یافتہ ہوگا تو زراعت کی پیداوار کئی گنا بڑھ جائے گی اس کے علاوہ ٹنل فارمنگ، باغات کی دیکھ بھال ا ور سائینسی بنیادپر کھیتی باڑی اور لائیو اسٹاک کے لیے تربیّت یافتہ اسٹاف کی ضرورت ہے۔  سب کچھ ممکن ہے ہر چیز قابلِ عمل ہے۔

اس سے لاکھوں نوجوانوں کو ملک کے اند ر روزگار مل سکتا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں مڈل ایسٹ اور یورپ میں معقول نوکریاں حاصل کرسکتے ہیں ھُنر کے ثمر سے سب فیضیاب ہونگے گھروں میں خوشحالی آئیگی باہر سے آنے والی  میں کئی گنا  اضافہ ہوگا غربت کے اندھیرے چھٹ جائیں گے اور ملک ترقّی سے ہمکنار ہوگا۔ چنائی(بھارت) کے پروفیسرڈاکٹر ایس موہن نے اپنے آرٹیکل میں لکھا ہے کہ غربت کے خاتمے اور امن کے فروغ کے لیے    ـ”ماسٹر کی” کا کردار ادا کرتی ہے ۔ ملائیشیا میں منسٹری آف ہائر ایجوکیشن کے ڈائریکٹر ڈاکٹر نعیم یعقوب کہتے ہیں کہ ٹیکنیکل ایند ووکیشنل ٹریننگ نے ملائیشیا سے غربت کے خاتمے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔

مگر ہمارے نوجوان فنّی تربیّت کی طرف کیوں راغب نہیں ہوتے اور والدین بیٹوں اور بیٹیوں کو ووکیشنل تعلیم کیطرف بھیجنے سے کیوں گریزاں ہیں؟ شاید اس لیے کہ یہاں کا تصوّر نہیں ہے ہنرمند کو وہ عزت نہیں ملتی جسکا وہ حقدار ہے۔ ہم حضورؐ کافرمان  ’الکاسب حبیب اﷲ‘  (ہاتھ سے کام کرنے والامحنت کش اﷲکا دوست ہے) پڑھ تو لیتے ہیں اسے حِرزِجاں نہیں بناتے ۔

نبی کریم ﷺ سے عقیدت اور محبّت کا دم تو بھرتے ہیں، پگڑی بھی باندھ لیتے ہیں داڑھی بھی رکھ لیتے ہیں مگر کیا ہم یہ نہیں جانتے کہ سرکارِ دو عالم ہاتھوں سے  کرتے رہے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی ہاتھ سے کام کرنے کو توہین سمجھتے ہیں!!! اس کا علم ہوتے ہوئے بھی فنّی کام کو کمتر سمجھتے ہیں۔

ہمارے نوجوان  بی اے، ایم اے کی بے وقعت ڈگری حاصل کرنے کے لیے کئی سال ضایع کردیتے ہیں مگر تکنیکی ہنر کی تربیّت(جسکے نتیجے میں وہ روزانہ ہزاروں روپے کماسکتے ہیں)حاصل کرنے کے لیے تیار نہیں۔  ہم غلط تصوّرات اور جاہلانہ  سے کب چھٹکارا حاصل کریں گے؟  نوجوانوں کو اس کی جانب راغب کرنے کے لیے والدین اور اساتذہ بھرپور کردار ادا کریں تو میں دعوے سے کہتا ہوں کہ  سیکٹر ملک کی تقدیر بدل سکتا ہے۔

ذوالفقار احمد چیمہ


Post a Comment

0 Comments