Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

پاکستان کے دو کروڑ نامعلوم مزدور

پاکستان میں غیر سرکاری تنظیموں کے اندازوں کےمطابق ملک بھر میں گھروں میں خام مال لا کر کام کرنے والے ہوم بیسڈ ورکرز کی تعداد دو کروڑ ہے جس میں ایک کروڑ 20 لاکھ خواتین شامل ہیں۔

تاہم غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والے اِن مزدوروں کو 67 سال بعد بھی نہ ہی مزدور کا درجہ مل سکا اور نہ ہی ان کے حقوق اور زندگیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کوئی قانون موجود ہے۔
کراچی کی رہائشی سمیرا دو سالوں سے اپنے سات بچوں سمیت کولر کی ٹوٹیاں بنانے کا کام کرتی ہیں۔انھیں شکوہ ہے کہ اس کام میں محنت زیادہ ہے اور اجرت کم ہے۔

 ایک سو پیس بنائیں تو 40 روپے اجرت ملتی ہے۔ میں صبح سے بیٹھ جاتی ہوں اور اسی میں سارا دن گزر جاتا ہے۔ مشین سے زور لگانے کی وجہ سے ہاتھوں میں بہت درد ہوتا ہے۔ انگلیاں بالکل ٹیڑھی ہوجاتی ہیں۔ 

سمیرا کی طرح، ریحانہ گذشتہ 22 سالوں سے گھر میں خام مال لا کر جوتے بنانے کا کام کررہی ہیں۔ پورے کنبے کی محنت مشقت کی اجرت تین ہزار روپے ہفتہ ہے۔ ان کا خاندان سخت محنت مشقت کے ساتھ ساتھ، خطرات میں بھی گھرا رہتا ہے۔
 ہم سلوشن لگاتے ہیں توآگ نہیں جلا سکتے۔ یہ کام بند کمرے کے بجائے کُھلے مقام پر ہوتا ہے۔ اگر ہم کمرے میں لگائیں تو کمرے میں گیس بھرجائے گی تو آگ لگنے کا ڈر ہے، ایسے میں ہم ماچس بھی نہیں جلا سکتے۔ 

گھروں میں خام مال لاکر کام کرنے کی وجہ سے سرکایہ کار کے لیے پیداواری لاگت کئی گنا کم ہوجاتی ہے اور غیر محسوس طریقے سے کام کرنے کی جگہ، اس کی مینٹیننس اور بجلی سمیت دیگر اخراجات کا بوجھ بھی مزدور کے کاندھوں پر آن پڑتا ہے۔ ساتھ ساتھ ان مزدور خواتین و حضرات اور بچوں کی صحت اور دیگر سماجی تحفظات سے بھی سرمایہ کار کی جان بخشی ہوجاتی ہے۔
گھروں میں کام کرنے والے ان ورکرز کی عام مزدور جیسی شناخت اور مراعات کے لیے مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں ایک طویل عرصے سے کوشاں ہیں۔
  
ان کے ادارے نےدیگر غیر سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر ہوم بیسڈ ورکرز کے حقوق کے لیے ایک بِل تیار کیا ہے جس میں ان مزدوروں کی شناخت کو تسلیم کرتے ہوئے انھیں رسمی مزدور کا درجہ دینا، انکا اندراج، کم سے کم آمدنی کا تعین، معاشی اور سماجی تحفظ، پنشن اور ان کی مارکیٹ تک براہ راست رسائی جیسی بنیادی سفارشات شامل ہیں۔
سندھ میں ان مزدوروں کو رسمی شعبے میں شامل کرنے کے لیے مزدور تنظیموں کو کچھ کامیابی ملی اور سندھ اسمبلی میں اس بارے میں قراردادیں بھی منظور ہوئیں۔
تاہم ان کی سفارشات پر مشتمل جو مسودہ تیار کیا گیا اسے قانونی شکل دینے کے لیے دو سال گزر جانے کے باوجود اب تک صوبائی اسمبلی میں پیش نہیں کیا گیا۔
اس کام میں تاخیر کی وجوہات بتاتے ہوئے صوبہ سندھ کے محکمہ محنت کے جوائنٹ ڈائریکٹر گلفام نبی میمن نے بتایا کہ ’یہ پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ ایک غیر رسمی شعبہ کو رسمی شعبہ کی طرف لایا جارہا ہو۔ تو اس میں ہمیں بہت سی مشکلات در پیش ہیں۔ 

زہرہ اکبر نے پاکستان میں غیر رسمی مزدوروں کے حقوق کے لیے’ہوم بیسڈ ویمن ورکرز فیڈریشن‘ کے نام سے پہلا غیر سرکاری ادارہ قائم کیا
انھوں نے کہا کہ ’ایک تو ہوم بیسڈ ورکر کے لیے نئی قانون سازی کرنی ہے، دوسرا یہ کہ اس ہوم بیسڈ ورکر کو موجودہ قوانین میں شامل کرنا ہے۔ تو یہ چیلنجز اور مسائل ضرور ہیں اور اس پہ ہم نے کافی حد تک قابو پالیا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ 2016 میں ہم ہوم بیسڈ ورکرز کے حوالے سے آپ کو کوئی خوشخبری سُنائیں گے۔ 

پاکستان میں ایک طرف وفاقی حکومت ہوم بیسڈ ورکرز کے حقوق کے حوالے سے اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے مزدور ’آئی ایل او‘ کے کنونشن C-177 کی توثیق کرنے سے گریزاں ہے دوسری جانب سندھ سمیت چاروں صوبوں کی اسمبلیوں میں ایسے مزدوروں کی شناخت اور مراعات سے متعلق بل التوا کا شکار ہیں۔

پاکستان میں مزدوروں کے برعکس صعنت کار ایک مؤثر آواز ہیں جن کی ایوانوں میں بھی نمائندگی موجود ہے۔ مزدوروں کے لیے اٹھنے والی آواز محدود اور کمزور ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے حق میں بہت کم قانون سازی نظر آتی ہے۔

شمائلہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

Post a Comment

0 Comments