Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

مُردہ قومی ہیروز کے مجاوز

دنیا بھر میں یہ رجحان ہے کہ معروف شخصیات اور قومی ہیروز کے زیر استعمال اشیاء نیلامی کے لئے پیش کی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر برطانوی موسیقار جان لینن نے گبسن کمپنی کا  ماڈل کا جو گٹار ایک سال تک استعمال کیا ،اسے امریکی ریاست کیلی فورنیا میں نیلامی کے لئے پیش کیا گیا تو اس کی بولی 24لاکھ ڈالر تک جا پہنچی۔

مائیکل جیکسن نے 1983ء میں اپنی مقبول ترین ویڈیو تھرلر میں جو چمڑے کی جیکٹ پہنی ،وہ نیلامی کے دوران 18لاکھ ڈالر میں فروخت ہوئی۔ سفید رنگ کا ایک لباس جو مارلن منرو کے پہننے سے انمول ہو گیا ،اسے ایک نیلامی کے دوران 46لاکھ ڈالر میں خریدا گیا۔ محمد علی اور سونی لسٹن نے تاریخی مقابلے کے دوران جو باکسنگ گلوز پہنے ،انہیں نیلام کرنے کے لئے پیش کیا گیا تو ان کے ایک طلبگار نے 9لاکھ 65ہزار ڈالر میں یہ یادگار دستانے خرید لئے۔
 نیو یارک کے نیلام گھر میں گاندھی کے زیر استعمال عینک،گھڑی ،جوتا اور پیالہ 18لاکھ ڈالر میں حاصل کئے گئے۔ایک اور نیلامی کے دوران گاندھی کا ایک نایاب خط 15ہزار پائونڈ میں خریدا گیا۔ نپولین کا ہیٹ ایک زمانے میں بہت مقبول ہوا کرتا تھا،ان کی وفات کے بعد 19ہیٹ نیلامی کے لئے پیش کئے گئے تو ان میں سے ایک ہیٹ کی نیلامی 19لاکھ یورو تک جا پہنچی۔ ہٹلر کو ناپسندیدہ شخصیت سمجھا جاتا ہے مگر لاس اینجلس میں اس کی خود نوشت کا مسودہ نیلامی کے لئے پیش کیا گیا تو اسے بھی ایک چاہنے والے نے 65ہزار ڈالر میں خرید لیا۔

 احمدی نژاد کی 33سال پرانی کار نیلامی کے دوران 2.5ملین ڈالر میں فروخت ہوئی۔ یوراگوئے کے صدر ہیوزے موہکا کو ان کی کھٹارا فوکسی گاڑی کے عوض 10لاکھ ڈالر کی پیشکش کی گئی۔ ملالہ یوسفزئی کی ایک تصویر نیویارک میں 82ہزار ڈالر میں فروخت ہوئی۔اسی طرح شاعروں اور ادیبوں کی دستخط شدہ کتابیں ،ان کی غیر مطبوعہ یا ہاتھ سے لکھی شاعری اور دیگر اشیاء کے طلبگار بھی ہر ملک میں پائے جاتے ہیں۔ مثلاً رابندرناتھ ٹیگور کی ایک نظم 30لاکھ ڈالر میں فروخت ہوئی ۔ برطانوی مصنف چارلس ڈکنز کی کتاب کا ایک نسخہ جس پر ان کے دستخط تھے،3لاکھ پائونڈ میں خریدا گیا۔ 
امریکی مصنف اور شاعر کی اپنے ہاتھ سے لکھی ایک نظم 3لاکھ ڈالر میں فروخت ہوئی۔ آئرش ادیب جیمز فوئس کے خطوط 24ہزار ڈالر میں نیلام ہوئے ۔امریکی شاعر  کی ایک غیر مطبوعہ نظم 7500 پائونڈ میں خریدی گئی۔

غالباً انہیں باتوں سے شہہ پا کر نیشنل بک فائونڈیشن پاکستان نے احمد فراز کے زیر استعمال کار کو نیلام کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔اخبار میں نیلامی کے لئے جو اشتہار دیا گیا اس میں احمد فراز کے ہی ایک مصرعے کو عنوان بنایا گیا’’اور فراز چاہئیں کتنی محبتیں تجھے‘‘خدا جانے اس نیلامی سے حاصل ہونے والی رقم کا مصرف کیا تھا مگر اس اشتہار بازی میں لینے کے دینے پڑ گئے۔

 اگر آپ مارکیٹ میں 96ماڈل کی 1300سی سی کرولا گاڑی خریدنے نکلیں تو اچھی کنڈیشن کی گاڑی چھ لاکھ روپے کے لگ بھگ دستیاب ہے۔ مگر نیلامی کے لئے پیش کی جانے والی گاڑی چونکہ دس سال تک مقبول ترین شاعر احمد فراز کے زیر استعمال رہی ،اس لئے توقع کی جا ر ہی تھی کہ ان کے چاہنے والے اس یادگار گاڑی کی خریداری کے لئے بڑھ چڑھ کر بولی دیں گے ۔10دسمبر کو ایک تقریب کے دوران اس گاڑی کی نیلامی کے لئے بولی کا آغاز ہوا تو حیرت انگیز طور پر بولی صرف تین لاکھ روپے سے شروع ہوئی۔

 ہانپتے کانپتے بولی آگے بڑھتی رہی مگر چھ لاکھ پچیس ہزار پہ بولی دینے والوں کی سانسیں اکھڑ گئیں۔ یوں یہ گاڑی کم و بیش مارکیٹ ویلیو کے حساب سے ہی فروخت ہوئی ۔اشتہارات کی مد میں جو اخراجات ہوئے ،وہ اس کے علاوہ ہیں۔ منتظمین اس صورتحال پر خاصے مایوس نظر آئے ۔حالانکہ انہیں معلوم ہونا چاہئے تھا کہ جس معاشرے میں زندہ ہیروز کی کوئی قدر نہیں ،جیتے جاگتے شاعروں کو کوئی نہیں پوچھتا ،وہاں ان ہیروزکے زیر استعمال اشیاء کی کیا قدر ہو گی۔

ہمارا ٹریک ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ ہم اپنے ہیروز کو رسواء کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ زندہ قومیں اپنے ہیروز کو مرنے نہیں دیتیں مگر ہم انہیں جینے نہیں دیتے۔ زندہ قومیں اپنے معاشرے کے کامیاب افراد کو سر آنکھوں پر بٹھاتی ہیں اور ہم حسد کی آگ میں جلتے، کڑھتے رہتے ہیں۔ بونوں کے دیس میں کوئی ابھرتا ہوا انسان قد نکالنے لگے تو سب مل کر اس کی ٹانگیں کھینچنے لگتے ہیں ۔ گوروں کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ وہ شاہراہ کامیابی پر ایک دوسرے کو آگے دھکیلتے ہیں اور اس دھکم پیل میں چند قدم خود بھی آگے بڑھ جاتے ہیں مگر ہمارے ہاں آگے بڑھنے والوں کو پیچھے کھینچنے کی کوشش کی جاتی ہے خواہ اس کوشش میں خود ہی پیچھے کیوں نہ رہ جائیں ۔لوگ اپنے ابھرتے ہوئے ہیروز کی پذیرائی کرتے ہیں مگر ہمارے ہاں جگ ہنسائی کا چلن ہے۔

دنیا بھر میں ملک کانام روشن کرنے والوں پر اعزازت و انعامات کی برسات ہوتی ہے مگر ہمارے ہاں ان کی بے قدری و بے توقیری کا رجحان ہے۔ اس بے حسی کی تازہ ترین مثال ملاحظہ فرمائیں۔ گزشتہ ماہ لاس ویگاس میں باڈی بلڈنگ کی چیمپئن شپ کا مقابلہ تھا جس میں دنیا بھر کے اتھلیٹ شریک ہوئے۔ اس میں تین کیٹیگریز تھیں ،لائٹ ویٹ ،سپر ویٹ اور ہیوی ویٹ۔ پاکستان سے اپنے طور پر شریک ہونے والے سلمان احمد نے پہلے لائٹ ویٹ چیمپئن شپ میں گولڈ میڈل لیا  پھر دیگر دونوں کیٹیگریز جیتنے والوں کو شکست دیکر مسٹر ورلڈ کا ٹائٹل اپنے نام کر لیا۔

اس نوجوان کا تعلق ا سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے حلقے سے ہے۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران تو ایازصادق اس نوجوان سے ملنے گئے مگر بعد میں پلٹ کر حال تک نہ پوچھا۔ گزشتہ روز یہ نوجوان مجھے ملا تو روہانسے لہجے میں بتانے لگا کہ بھارتی اتھلیٹ جس نے صرف اپنی کیٹیگری جیتی،اسے واپس آتے ہی سرکاری ملازمت بھی مل گئی ،گھر بھی دید یا گیا مگر مجھے کسی حکومتی شخصیت نے تھپکی دینا بھی گوارہ نہیں کی۔ وزیر اعظم نواز شریف خود کھلاڑی رہے ہیں ،کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ ملک کے ماتھے کا جھومر بننے والے سلمان احمد کی حوصلہ افزائی فرماتے مگر انہیں کرکٹ کے علاوہ کوئی اور کھیل یا کھلاڑی دکھائی ہی نہیں دیتے۔ 

ایک معروٖف بزنس مین جو اپنی دریا دلی اور سخاوت کے حوالے سے مشہور ہیں۔ کرکٹ کے کھلاڑیوں پر عمدہ کارکردگی کے عوض نوازشات کا اعلان کرتے رہتے ہیں مگر دنیا بھر میں ملک کا نام روشن کرنے والے اس باصلاحیت نوجوان پر ان کی نظر بھی نہیں پڑی۔ایاز صادق کا اپنا حلقہ ہے مگر انہیں اسلام آباد سے ہی فرصت نہیں ملتی۔

زندہ قومیں اپنے ہیروز کو مرنے نہیں دیتیں اور ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم انہیں جینے نہیں دیتے ۔ہمارے ہیروز گمنامی کی موت مر جاتے ہیں یا پھر ان کے مرنے کے بعد ان کی قدرکا احساس ہوتا ہے۔یہاں تک کہ ہمارے ملک میں بہادری کا سب سے بڑا ایوارڈ نشان حیدر بھی دنیا سے رُخصت ہونے کے بعد ملتا ہے ۔کڑواسچ تو یہ ہے کہ ہم حیات قومی ہیروز کے یاور نہیں بلکہ مُردہ ہیروز کی قبروں کے مجاور ہیں۔

بشکریہ روزنامہ"جنگ"
محمد بلال غوری


Post a Comment

0 Comments