Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

سیلانی ٹرسٹ… ایک انوکھا طرز امداد

لوگ ہمیں کہتے ہیں کہ آپ  یہ جو روزانہ 65 ہزار افراد کو دو وقت کا کھانا کھلاتے ہو، اس طرح آپ انھیں نکما اور ہڈ حرام بنا رہے ہو۔ میں انھیں جواب دیتا ہوں کہ کبھی آپ ہمارے دسترخوانوں پر آ کر تو دیکھیں آپ کو اسی فیصد لوگ ایسے ملیں گے جو روزانہ  مزدوری کرتے ہیں اور اس مزدوری سے بمشکل ان کے گھر کا خرچ نکل سکتا ہے۔ یہ لوگ عموماً دوپہر کو بھوکا رہتے تھے یا پانی میں نمک مرچ گھول کر گھر سے لائی ہوئی خشک روٹی کھا کر دوبارہ کام میں لگ جاتے تھے۔

اب یہ ہمارے دسترخوان پر بہترین کھانا کھاتے ہیں اور ایک نئی توانائی سے کام پر لگ جاتے ہیں۔ باقی 20 فیصد واقعی وہ ہیں جو بالکل کام نہیں کرتے لیکن ہمارے دسترخوان پر آ کر کھانا کھاتے ہیں۔ اگر انھیں یہ سہولت میسر نہ ہو تو وہ یقیناً اپنی پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے چوری کرتے، بھیک مانگتے یا پھر کسی اور دھندے کا شکار ہو جاتے۔
یہ الفاظ تھے محمد بشیر فاروق قادری کے جو سیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ کے سرپرست اعلیٰ ہیں۔ اللہ نے عجز و انکسار اور خلق خدا کا درد انھیں اس قدر وافر دیا ہے کہ رشک آتا ہے۔ میں ٹھیک دو سال بعد انھیں ملنے بہادر آباد کراچی چورنگی کے ساتھ والی گلی میں کئی منزلہ سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کی بلڈنگ میں گیا۔ دو سال قبل جب میں یہاں آیا تھا تو اس سے پہلے میں اس ٹرسٹ کے تمام منصوبوں کو دیکھ کر آیا تھا۔ ایسا حسن انتظام تو ایک خواب ہے۔

ایسے کارکن کہاں سے میسر آتے ہیں کہ حرص و ہوس کی اس دنیا کے باسی ہی معلوم نہیں ہوتے۔ جامعہ کلاتھ مارکیٹ سے گزرتے ہوئے سول اسپتال پہنچا تو دروازے پر کارپارکنگ کی جانب سے سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کے مستعد کارکنان اسٹریچر اور ویل چیئر ہاتھوں میں پکڑے کھڑے تھے۔ ٹرسٹ کے لوگوں کو علم ہوا کہ اسپتالوں میں اسٹریچر اور وہیل چیئر پر قبضے کا ایک مافیا بن چکا ہے اور لوگوں کو اپنے پیاروں کے لیے اسٹریچر یا وہیل چیئر لینے کے لیے خطیر رقم ان اہلکاروں کو دینی پڑتی ہے جنہوں نے ان پر قبضہ کیا ہوتا ہے۔

سیلانی کے کارکنان ایسے مریضوں کو وہیل چیئر یا اسٹریچر پر بٹھاتے اور جب تک ان کا اسپتال کا تمام کام مکمل نہ ہو جاتا اس کے ساتھ رہتے اور پھر مین گیٹ پر کسی سواری تک چھوڑ کر آتے۔ پارکنگ کے ساتھ لگے اسٹینڈ میں وردیوں میں ملبوس یہ کارکنان ان کی استعداد اور لگن دنیا کے کسی بھی مہذب معاشرے کی عکاس تھی۔

سیلانی کا دسترخوان بھی ایک خوش کن تجربہ تھا۔ بکرے کا گوشت اور وہ بھی اس قدر صاف کیا ہوا۔ باورچیوں نے مکمل حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق لباس پہنا ہوا۔ کھانے کی خوشبو اشتہا انگیز تھی اور گرم گرم روٹیوں کا تصور ہی آدمی کو بہترین کھانے کی لذت سے آشنا کر دیتا ہے۔ ان کے اسٹور میں لوگ بکرے خرید کر بھی دے جاتے ہیں اور ان سے بھی خریدتے ہیں۔ جہاں ان کا اپنا مذبحہ خانہ ہے، میں نے اس قدر خوبصورت انتظام کسی مذبحہ خانے میں نہیں دیکھا۔

ان دسترخوانوں پر روزانہ 65 ہزار افراد کھانا کھاتے ہیں اور اس کھانے پر زکوٰۃ کی رقوم سے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا جاتا۔ دو سال قبل یہ دسترخوان کراچی میں تھے اور آج یہ حیدر آباد، اسلام آباد، فیصل آباد اور لاہور میں بھی ہیں۔ انھی دسترخوانوں پر رمضان کے مہینوں میں افطاری اور سحری کا بھی بندوبست ہوتا ہے۔ یہ تو ان افراد کی بات ہے جو ان دسترخوانوں پر آ کر کھانا کھاتے ہیں۔

ہزاروں گھرانے ایسے ہیں جن کے ہاں گوشت کھانا ایک خواب ہے، سیلانی ٹرسٹ روزانہ کئی سو بکرے جو صدقے کے ہوتے ہیں انھیں ذبح کرتا ہے اور ان کا گوشت ان گھرانوں تک پہنچاتا ہے جو کراچی کی دور افتادہ بستیوں میں رہتے ہیں۔ یہ امداد صرف گوشت پہنچانے تک محدود نہیں بلکہ سیلانی ٹرسٹ سات ہزار پانچ سو خاندانوں کو ماہانہ راشن فراہم کرتا ہے۔

سیلانی کا ایک شعبہ ایسا ہے جو میں نے صرف یورپ اور امریکا میں دیکھا ہے۔ امریکا میں اسے گڈول سروسز کہا جاتا ہے۔ اس میں لوگ اپنے پرانے کپڑے اور بعض اوقات نئے کپڑے عطیہ کرتے ہیں تا کہ ایسے لوگوں کے کام آئیں جو کپڑے نہیں خرید سکتے۔ سیلانی کلاتھ بینک بھی ایسی ہی ایک سروس ہے۔ قرض حسنہ کا یہ طریق کار تو حیران کن تھا۔ سیلانی والوں کو علم ہوا کہ ایک رکشہ ڈرائیور کرائے پر رکشا لیتا ہے جس کا اسے روزانہ تقریباً دو ہزار روپے کرایہ دینا ہوتا ہے۔

انھوں نے اس رکشہ ڈرائیور کو رکشہ لے کر دے دیا اور روزانہ ایک ہزار روپے اس سے قسط کر لی اور یوں وہ چند مہینوں بعد رکشے کا مالک بن گیا۔ ہنر سکھانے کا سیلانی کا پروگرام بھی کمال کا ہے۔ جب تک کوئی شخص کوئی ہنر سیکھ رہا ہوتا ہے اس وقت اس کے تمام اخراجات ٹرسٹ اٹھاتا ہے یہاں تک کہ اس کے گھر سے ادارے تک جانے کا سفر خرچ بھی۔

یوں جب وہ ایک کارآمد فرد بن جاتا ہے تو اپنا روزگار خود کما لیتا ہے۔ دو سال قبل امریکا سے ایک صاحب ضیاء الدین خان صاحب تشریف لائے تھے جو انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بے شمار ڈگریوں سے آراستہ تھے۔ وہ وہاں  ٹیکنالوجی کی تربیت دے رہے تھے جو اس وقت پاکستان میں ناپید تھی۔ آج دو سال بعد ان کی کمپیوٹر لیب کی وسعت دیکھ کر کسی بڑے ادارے کا گمان ہوتا ہے۔ سیلانی والوں نے مجھے وہ موٹر سائیکل بھی دکھائے جو ایک مکمل فائر بریگیڈ کا کام کرسکتے تھے۔ فائر بریگیڈ تنگ گلیوں میں نہیں جا سکتا اس لیے خاص طور پر انھوں نے یہ موٹر سائیکل ڈیزائن کیے۔

عدالتوں میں روزانہ کئی سو گھرانے خلع اور طلاق کے مقدمات میں حاضر ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ چھوٹے چھوٹے بچے ہوتے ہیں۔ عدالت کے احاطے میں سیلانی نے جھولوں اور بچوں کی تفریح کا بندوبست کیا تا کہ والدین ایک ساتھ انھیں ہنستا کھیلتا دیکھ کر شاید اپنا ارادہ بدل دیں۔ بڑے شہروں کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ وہاں انسان کے مر جانے کے بعد کسی کو تجہیز و تکفین کا پتہ نہیں ہوتا۔ سیلانی کی چوبیس گھنٹہ میت سروس ایسے لوگوں کے مسئلے حل کرتی ہے۔

سیلانی کا بلڈ بینک اور تھیلیسیمیا سینٹر اپنی جگہ کام کر رہا ہے۔ دو سال قبل انھی دنوں میں جس نئے پراجیکٹ کے افتتاح میں مجھے شرکت کا موقع ملا وہ قائداعظم کے مزار کے سامنے ایک ڈسکونٹ اسٹور تھا۔ یہ ایک بہت بڑا ڈیپارٹمنٹ  اسٹور ہے جس پر آپ بہت کم قیمت پر اشیا خرید سکتے ہیں اس کے لیے کسی فرد کی آمدنی دیکھ کر ایک کارڈ بنایا جاتا ہے اور پھر وہ انتہائی عزت و تکریم کے ساتھ وہاں سے سودا سلف لیتا ہے۔ یہ اسٹور کسی بھی بڑے اسٹور کے ہم پلہ ہے اور یہاں ضرورت کی ہر چیز میسر ہے۔

بشیر فاروق قادری صاحب کی شخصیت ایک روحانی شخصیت ہے‘ ان سے مل کر سکون حاصل ہوتا ہے‘ دل کو طمانیت ملتی ہے۔ اس بار بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ ایک ایسا فرد جسے دیکھ کر اللہ یاد آ جائے۔ گزشتہ ملاقات پر انھوں نے دو کتابیں تحفے میں دیں۔ ایک ان کے آئیڈیل حضرت عمر بن عبدالعزیز کی شخصیت پر کتاب تھی اور دوسری غیبت کی برائی پر۔ یقین جانئے دونوں کسی فرد کو بدلنے کے لیے کامل کتب ہیں۔

اس دفعہ ملے تو کہنے لگے میں نے اپنے تمام ملازمین کے بارے میں وہ تمام سہولیات فراہم کرنے کا حکم دے رکھا ہے جو حضرت عمر فاروق دیا کرتے تھے۔ ہر ملازم کے بچے کا پیدا ہوتے ہی وظیفہ مقرر کر دیا جاتا ہے جو اس کی تعلیم مکمل ہونے تک قائم رہتا ہے۔ کہنے لگے گزشتہ دنوں مجھے پتہ چلا ہماری ایک ملازمہ اپنا چند ماہ کا بچہ گھر چھوڑ کر آتی ہے کیونکہ اس کے خاوند نے بیرون ملک شادی کر لی ہے۔ مجھے بہت شرمندگی ہوئی کہ مجھے اپنے ملازموں کے حالات کا بھی علم نہیں۔ اس خاتون کو کہا گیا کہ جب تک تمہارے بچے بڑے نہیں ہو جاتے تو تنخواہ لو گی لیکن کام یہ ہے کہ صرف بچے پالو گی۔

میں نے کہا مجھے آپ کی اس بات سے سیدنا عمر فاروقؓ کا واقعہ یاد آ گیا۔ آپ کے ایک جاننے والے نے ایک دن ان سے مدد کا سوال کیا تو حضرت عمرؓ دھاڑیں مار کر رونے لگے کہ اے عمر ہر شخص ضرورت مند تھا‘ تیرے قریب تھا اور تجھے اس کا احساس تک نہ ہو سکا اور اسے دست سوال دراز کرنا پڑ گیا۔ سیلانی کے دروازے سے باہر نکل رہا تھا تو سوچ رہا تھا کہ میں یہ دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ بحیثیت امت مسلمان دنیا میں سب سے زیادہ خیرات دینے والی امت ہے۔

یہاں کوئی بل گیٹس طرح خیرات نہیں کرتا کہ اس کے اپنے حصص قائم رہیں اور منافع خیرات کر دے۔ کارپوریٹ ویلفیئر سسٹم نہیں ہے یہ۔ لیکن شاید ہمیں عادت ہو چکی ہے مرعوب ہونے کی‘ ہمیں اپنی خوبیوں پر فخر کرنا ہی نہیں آیا۔ میں دنیا کے کسی بڑے ڈونر کو بشیر فاروق قادری کی طرح چوبیس گھنٹے محتاجوں‘ غریبوں اور ناداروں کے درمیان نہیں دیکھا۔ ہمارا طرز زندگی بھی مختلف ہے اور طرز امداد بھی۔ ہم طلب دنیا اور ناموری کے لیے نہیں اللہ کی رضا کے لیے خیرات کرتے ہیں۔ ہماری فیس بک نہیں جو ہماری امداد ہماری شخصیت کا قد بلند کرتی پھرے۔

اوریا مقبول جان

Post a Comment

0 Comments