Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

امریکہ میں دہشت گردی اور ہم

جب بھی یورپ یا امریکہ میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو ان ملکوں میں مقیم پاکستانی تارکین وطن دل ہی دل میں دعائیں مانگنا شروع کر دیتے کہ کہیں اس کا تعلق ان کے ملک سے نہ جڑ جائے۔ یہ ان کی بد قسمتی ہے کہ بسا اوقات تقریباً ہر واقعہ میں کہیں نہ کہیں سے پاکستان کا ذکر ضرور آجاتا ہے۔ ابھی تک پاکستان سے اسامہ بن لادن سمیت اتنے دہشت گرد برآمد ہوئے ہیں کہ اس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ ویسے تو پاکستان سے درجنوں عالمی دہشت گردوں کا پکڑا جانا خود پاکستانی تارکین وطن کے لئے پشیمانی کا سبب ہوتا ہے لیکن اگر تعلق بہت دور کا بھی ہو تو امریکی میڈیا اس کے تانے بانے پاکستان سے ملانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ 

یہی کچھ کیلیفورنیا میں ہونے والے اس دہشت گرد واقعہ کے حوالے سے ہورہا ہے جس میں ایک پاکستانی خاتون تاشفین ملک اور اس کے خاوند سید رضوان فاروق نے چودہ لوگوں کو فائرنگ کر کےہلاک اور اکیس کو بری طرح زخمی کر دیا تھا۔ اس دہشت گردی کی واردات کا زیادہ تر ملبہ تاشفین ملک پر ڈالا جا رہا ہے اور دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس میں انتہا پسندی کے رجحانات پاکستان میں رہائش پذیر ہونے کے دوران پیدا ہوئے۔ اب دنیا کا میڈیا جنوبی پنجاب کو مرکز توجہ بنا رہا ہے کیونکہ مفروضہ یہ ہے کہ یہ علاقہ دہشت گرد پیدا کرنے کی فیکٹری ہے۔

میاں بیوی کے جوڑے تاشفین ملک اور سید فاروق نے کیلیفورنیا ریاست کے چھوٹے سے شہر برنیڈرون میں دہشت گردی کی اس واردات کا ارتکاب کیا۔ یہ حملہ اس دفتر کی کرسمس پارٹی پر کیا گیا جس میں سید فاروق ماحولیات کے ماہر کے طور پر کام کرتا تھا۔ سید فاروق امریکہ میں ہی پیدا ہوا اس کی تعلیم و تربیت بھی امریکہ میں ہی ہوئی۔ تاشفین ملک پاکستان میں پیدا ہوئی اور چھوٹی عمر میں ہی اپنے خاندان کے ساتھ سعودی عرب چلی گئی۔
 پھر وہ ملتان میں بہاء الدین زکریا یونیورسٹی سے فارمیسی کی تعلیم کے لئے کئی سال تک مقیم رہی اور کہا جارہا ہے کہ اسی دوران اس میں انتہا پسندی کے رجحانات نے جنم لیا۔ واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق وہ فارمیسی کے ساتھ ساتھ ایک مقامی مدرسے سے بھی تعلیم حاصل کرتی رہی۔ کہاجارہا ہے کہ اس مدرسے کا تعلق ایک بنیاد پرست فرقے کے ساتھ ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے تاشفین ملک کی سہیلیوں اور اس کے کچھ اساتذہ سے بھی بات چیت کی ہے جس میں یہ تاثر ملتا ہے کہ اس میں ملتان میں رہائش کے دوران نمایاں تبدیلیاں آئیں۔

امریکہ کے تحقیقی سیکورٹی اداروں کے لئے سب سے بڑا عقدہ یہ ہے کہ ان کو وہ محرکات نہیں مل رہے جن کے تحت ایک اچھے خاصے کھاتے پیتے جوڑے میں دہشت گردی کا رجحان پیدا ہوا۔ امریکی میڈیا میں گردش کرنے والے اسکرپٹ کے مطابق تاشفین ملک دہشت گردی کی واردات میں بنیادی محرک تھیں۔ اس اسکرپٹ کے مطابق سید فاروق سعودی عرب سے ایک دلہن امریکہ لائے۔ اس جوڑے کی ایک چھ ماہ کی بچی بھی ہے جس کو واردات کے وقت دادی کے پاس چھوڑا گیا تھا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر تاشفین ملک دہشت گردی کی غرض سے ہی شادی رچا کر امریکہ آئی تھیں تو انہیں بچی پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ 

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مارے جانے کے وقت میاں بیوی کے پاس دو بڑی رائفلیں ، دو پستول اور ان گنت گولیاں تھیں۔ ان کے گھر سے کئی ہزار گولیاں اور درجنوں بم برآمد ہوئے ہیں۔ ان سب حقائق سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ یہ جوڑا کسی بڑی دہشت گردی کی واردات کی تیاری کر رہا تھا۔

امریکی میڈیا اس واقعہ کو نو گیارہ کے بعد ہونے والی سب سے بڑی دہشت گردی کی واردات قرار دے رہا ہے۔ اس واقعہ سے چند روز پیشتر پیرس میں بڑی دہشت گردی کی واردات ہوئی تھی جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔ ان دونوں واقعات سے پیشتر ہی مسلمانوں کے بارے میں بالعموم اور پاکستانیوں کے بارے میں بالخصوص شک و شبہات پائے جاتے تھے۔امریکی ریپبلکن پارٹی کے سب سے آگے رہنے والے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ تو دروغ گوئی کی حد تک مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے رہے تھے۔ 

مثلاً انہوں نے اپنی ایک تقریر میں یہ من گھڑت دعویٰ کیا کہ جب نو گیارہ کو نیویارک میں تباہی ہو رہی تھی تو نیو جرسی (نیویارک کی پڑوسی ریاست) میں ہزاروں مسلمان اس پر جشن منا رہے تھے۔ وہ میڈیا کے بار بار پوچھنے پر بھی یہ ثابت نہیں کر سکے کہ نیویارک میں ہونے والی بربادی پر مسلمان جشن منا رہے تھے۔ لیکن وہ اپنے بیان پر ڈٹے ہوئے ہیں اور ان کو پسند کرنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ غرضیکہ امریکیوں کا ایک قدامت پرست حلقہ ہر قسم کا مسلمان مخالف پروپیگنڈہ سننے کے لئے تیار ہے۔

کچھ قدامت پرست حلقوں اورامریکی میڈیا میں ایسے اشارے سامنے آ رہے ہیں کہ امریکہ کو مسلمانوں کے ساتھ اب ویسا ہی سلوک کرنا چاہئے جو اس نے جاپانی امریکیوں کے ساتھ جنگ عظیم دوئم میں کیا تھا: جنگ عظیم دوئم کے دوران لاکھوں جاپانی امریکیوں کو کیمپوں میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔ صدر آئزن ہاور نے اٹلی، جرمنی اور جاپان پر امیگریشن کی پابندیاں لگا دی تھیں۔

 بعض حلقوں میںیہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ ان ملکوں پر امیگریشن کی پابندیاں لگا دی جائیں جن سے زیادہ تر دہشت گرد امریکہ یا یورپ میں آکر وارداتیں کرتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پاکستان کا نام سر فہرست ہوگا۔ اگرچہ بہت سے حلقے اس طرح کے اقدامات کو خارج از امکان تسلیم کرتے ہیں لیکن اگر کیلیفورنیاجیسے سانحے ہوتے رہے اور ڈونلڈ ٹرمپ جیسا تنگ نظر صدر کی کرسی پر براجمان ہو جاتا ہے تو ایسا ہونا عین ممکن ہے۔

ابھی تک صدر اوباما اور ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار امریکہ میں اسلحے کی کھلے بندوں فروخت کو ہر طرح کی دہشت گردی کا سبب گردانتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سال دہشت گردی کے ساڑھے تین سو واقعات ہوئے جن میں زیادہ تر کا تعلق غیر مذہبی افراد کے ساتھ تھا۔ امریکہ میں اسلحے کی خرید و فروخت پر کوئی پابندی نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ تاشفین ملک اور سید فاروق کے پاس اسلحے کا ہونا کوئی جرم نہیں تھا ۔

 امریکہ کے آزاد خیال حلقے اسلحے کی خرید و فروخت پر کچھ پابندیاں لگانا چاہتے ہیں جس کی رپبلکن پارٹی شدید مخالف ہے کیونکہ اس کا دعویٰ ہے کہ اسلحہ رکھنا ہر امریکی کا آئینی حق ہے۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی اسلحے پر پابندیاں لگوانے میں ناکام رہے گی اور رپبلکن پارٹی کیلیفورنیا جیسے واقعات کی آڑ میں مسلمانوں کو دہشت گردی کا ذمہ دار ٹھہراتی رہے گی۔

 بشکریہ روزنامہ  جنگ 
ڈاکٹر منظور اعجاز

Post a Comment

0 Comments