Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

نو کروڑ عوام کو مرنے کیلئے جگہ نہیں

میرے سامنے دو خبریں پڑی ہیں پہلی اقوام متحدہ کی وہ رپورٹ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ملک میں قریباََ 9کروڑ افراد غربت کا شکار ہیں۔ جبکہ دوسری خبر یہ ہے کہ پنجاب کے شہر چشتیاں میں ایک شادی ہوئی جس میں دولہا اور باراتیوں پر نوٹ نہیں ڈالر نچھاور کیے گئے۔ بارات کے مہمانوں کو لانے لے جانے کیلئے دبئی سے خصوصی گاڑیاں منگوائی گئیں۔

 معروف فنکار راحت فتح علی خان اور عارف لوہار سمیت متعدد فنکاروں نے فن کا مظاہرہ بھی کیا۔ محتاط اندازے کے مطابق اس شادی پر ایک ارب روپے سے زائد کے اخراجات کیے گئے۔ اب بندہ سٹپٹائے نہ تو کیا کرے! کیا چھوٹے بڑے میاں کی نظر اس طرف نہیں جاتی کہ ایک طرف اربوں روپے شادیوں پر خرچ ہو رہے ہیں اور دوسری طرف ملک میں ہزاروں خواتین ایسی بھی ہیں جو صرف جہیز نہ ہونے کی صورت میں اپنی شادی کی عمر کھو رہی ہیں، خیر چھوڑئیے میاں صاحب کے اپنے جاتی عمرہ میں آج کل شادی کی تیاریاں ہو رہی ہیں اور میرے مخبر نے خبر دی ہے کہ اس شادی میں کروڑوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں، سینکڑوں سپیشل برانچ کے آفیسرز کو صوبہ بھر سے لا کر تین تین اوقات میں ڈیوٹیاں لگائی جارہی ہیں یہی نہیں بلکہ پورا خاندان ایک جیسا پروٹوکول لے رہا ہے۔ کیا جہاز، کیا ہیلی کاپٹر، کیا لگژری گاڑیاں و بنگلے۔
تو بات ہو رہی تھی پاکستان میں 9کروڑ غریبوں کی، حکمران تو چاہتے ہیں یہ 9کروڑ مر ہی جائیں کیوں کہ وہ انہیں دھرتی پر بوجھ سمجھتے ہیں حالانکہ انہیں یہ علم نہیں کہ وہ خود اس دھرتی پر بوجھ بن گئے ہیں۔ کیا کریں پاکستان کا نظام ہی ایسا ہے جو سرمایہ داروں کو تحفظ دیتا اور غریبوں کیلئے زمین بھی تنگ کر دیتا ہے۔ اس نا انصافی کی وجہ سے دنیا کے 188 ملکوں میں سے پاکستان کا انسانی ترقی کے حوالے سے 147 واں نمبر ہے، پاکستان میں اقتصادی ترقی صرف امیر لوگوں کے گرد گھومتی ہے، سرمایہ کاری کے بہتر مواقع بھی مال دار طبقہ کیلئے ہی ہیں، پاکستان میں بے روز گاری کی شرح 48 فیصد کے قریب ہے، سب سے بڑی بات یہ کہ پاکستان کی یہ غربت قدرتی نہیں۔ نہ ہی آفاتِ آسمانی اور حوادث اس کا اصل سبب ہیں۔ 1964ء میں بھی پاکستان کے ایک تہائی لوگ غربت اور افلاس کا شکار تھے۔ آج بھی یہ تناسب تقریباً اتنا ہی ہے۔

یہ بات تو ماننا پڑیگی کہ یہاں غربت کے اصل اسباب سیاسی ہیں۔ حکمرانوں کی غلط پالیسیاں اسکی اصل وجہ ہیں۔ ہمارے بالادست طبقے نے جدت پسندی اور ترقی کا فرق نظرانداز کردیا ہے۔ اگر ملک میں کچھ نئی چیزیں شروع کردی جائیں تو یہ انکے خیال میں ترقی ہے۔ اگر ائیرپورٹس شاندار بنادیے جائیں اور لاہور کی شاندار سڑکیں بنا دی جائیں، گرین و اورنج لائن ٹرین شروع کردی جائے تو انکے نزدیک ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوچکا، حالانکہ جہاں اکثر شہریوں کو بنیادی ضروریات فراہم نہ ہورہی ہوں، اس ملک کو ترقی یافتہ کیسے کہا جاسکتا ہے؟ ہمارے حکمرانوں کی ایک بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ زراعت، صنعت و تجارت میں انقلاب لائے بغیر ملک کو شاندار بنانا چاہتے ہیں۔
 خوشحالی کا معجزہ غیرملکی سرمایہ کاری کے زور پر دکھانے کے خواہش مند ہیں۔ غیرملکی سرمایہ کاری اپنی جگہ بجا، مگر اس سے کہیں زیادہ ضرورت ملک کی اپنی زمین اور وسائل کو استعمال کرنے کی ہے۔ ملک کا 50 فیصد طبقہ زراعت سے وابستہ ہے۔ اس زراعت پر چند زمین داروں اور جاگیرداروں کی اجارہ داری ہے۔ 

ان چند خاندانوں کو چھوڑ کر ملک کے کروڑوں غریب زمینوں کو اپنے خون پسینے سے سینچتے ہیں اور بدلے میں بمشکل دو وقت کی روٹی حاصل کرپاتے ہیں۔ ہمیں زرعی نظام میں انقلابی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ ملک کا لاکھوں ایکڑ رقبہ بنجر پڑا ہے۔ دریا سوکھ رہے ہیں۔ نہریں خشک ہیں۔ نئے ڈیم سیاست کی نذر کیے جارہے ہیں۔ آب پاشی کا نظام بہتر بنا کر لاکھوں ایکڑ بے کار زمینیں اگر محنت کشوں میں ان کی ہمت اور استطاعت کے مطابق تقسیم کردی جائیں تو بے شمار بے روزگار لوگ برسرِ روزگار ہوجائینگے۔ انہیں غیرملکی سرمایہ کاروں کی غلامی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

یہاں کا نظام مکڑی کا ایک ایسا جالا ہے جس میں حشرات پھنستے ہیں مگر بڑے جانور اسے پھاڑ کر نکل جاتے ہیں، غریب کا بچہ سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹرز کی غفلت سے دم توڑ دے اور وہ غم زدہ ہوکر احتجاج شروع کردے بھلے اس احتجاج میں ایک گملا تک نہ ٹوٹے، ایک شیشہ تک ٹوٹے مگر پھر بھی اس غریب پر تو مقدمہ درج ہوجاتا ہے مگر جنکی غفلت کی وجہ سے بچہ مرجائے انکو بچانے کی خاطر وہی عوامی نمائندے میدان میں اتر آتے ہیں جنہوں نے اس غریب سے ووٹ لیکر یہ وعدہ کیا ہوتا ہے کہ تمہارے حقوق کی جنگ لڑیں گے۔

 اس غریب پر پاکستان کے قانون کے تحت مقدمہ درج کیا جاتا ہے جو مزدوری کی خاطر کئی میل دور چنے کی فصل کاٹنے گیا ہوتا ہے اور وہاں سے ایک ہزار روپیہ ادھار لیکر پہنچتا ہے کہ اسکے بچے کا علاج معالجہ ہوجائیگا مگر اسے کسی سے پھر ایک ہزار ادھار پکڑ کر پرائیویٹ ایمبولینس میں بچے کی لاش سمیت گھر جانا پڑتا ہے۔

یہ ہے اس ملک کا قانون جس میں بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا رہی ہے۔ کوئی بھی تو یہاں غریب کی نہیں سوچتا غریب بی اے، بی ایڈ کرکے چاول چھولوں کی ریڑھیاں لگا کر کھڑے ہیں اور جنہیں اپنا نام تک لکھنا نہیں آتا وہ انکے اوپر حکمرانی کررہے ہیں۔ کبھی تبدیلی کے نام پر لوگوں کو بے وقوف بنایا جاتا ہے تو کبھی روٹی، کپڑا اور مکان کا جھانسہ دیکر غلام بنالیا جاتا ہے۔ اِس ملک میں اگر کوئی اچھا کام کرلے تو وہ اچھا کام اسکی جان کا دشمن بن جاتا ہے۔

ویسے اس بات میں حقیقت ہے کہ اب تو میاں نوازشریف ڈھائی سالوں بعدخود بھی کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ میٹروبس اور ٹرین منصوبے ناکافی ہیں جبکہ عوام کے بنیادی مسائل صاف پینے کا پانی اور صحت وتعلیم کی سہولتیں فراہم کرنے کو ترجیح بنایا جائے ورنہ انتخابات کے دوران عوام کے پاس ہم لوگ نہیں جاسکیں گے۔ حقیقت میں نوازشریف نے خود ہی اعتراف کیا ہے کہ انکی ترجیحات انسانی ترقی کے زمرے میں نہیں آتیں اسی لیے انہوں نے اپنی کابینہ کو انتباہ کیا ہے کہ عام عوامی مسائل پر توجہ دی جائے۔

بس آخر میں یہی دعا بھی ہے اور خواہش بھی، کہ کوئی ایسا لیڈر ہمیں میسر آجائے تو وطن عزیز کو جو آج کل مسائلستان بن چکا ہے، ان مسائل سے جلد از جلد نکالے اور پاکستان کو جلد ترقی کے سفر پر گامزن ہوسکے۔

   محمد اکرم چوہدری


Post a Comment

0 Comments