Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

دشمن کے بچے

قیامت کو گزرے چار سال گزر چکے ہیں لیکن فیصل آباد کے 34 خاندانوں کے زخموں سے آج بھی خون ٹپک رہا ہے، یہ خاندان بدنصیب تھے، ان کے بچے ملت گرائمر اسکول کے طالب علم تھے، اسکول کا ٹور اسلام آباد آیا، کل 110 طالب علم تھے، عمریں دس گیارہ برس تھیں، یہ لوگ اسلام آباد سے واپس فیصل آباد جا رہے تھے، کلر کہار کے قریب بس کی بریکس فیل ہوئیں، بس کھائی میں گری اور 34 معصوم بچے دنیا سے رخصت ہو گئے، اسکول کا وائس پرنسپل، بس کا ڈرائیور اور کنڈیکٹر بھی جان کی بازی ہار گیا، یہ 26 ستمبر 2011ء کا واقعہ تھا، یہ اس نوعیت کا واحد واقعہ نہیں تھا۔
 
مئی 2013ء کو گجرات میں بچوں کی اسکول وین میں آگ لگ گئی، اس حادثے میں 16 بچے زندہ جل گئے، ان بچوں کی عمریں بھی 6 سے 10 کے درمیان تھیں، والدین کو اطلاع ملی تو وہ دیوانہ وار جلتی ہوئی وین سے لپٹ گئے، مائیں سلگتی ہوئی ہڈیوں اور چٹختی ہوئی کھوپڑیوں کو نام لے لے کر پکار رہی تھیں، تھر میں 2014ء میں 607 اور 2015ء میں 200 بچے غذائی قلت کے ہاتھوں قتل ہو گئے، 2012ء میں سروسز اسپتال کی نرسری وارڈ میں آگ لگ گئی، 22 بچے جل کر مر گئے، ان میں سات بچے شیر خوار تھے اور 15 نومولود۔ ان بچوں نے ابھی پوری طرح آنکھیں بھی نہیں کھولی تھیں، 2015ء میں لاہور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال میں چوہا نومولود بچے کو کاٹ کر کھا گیا۔
 اگست 2015ء کو ہارون آباد میں ٹرک نے رکشے کو ٹکر مار دی، اسکول جاتے پانچ بچے پانچ منٹ میں قیمہ بن گئے اور 16جنوری 2014ء کو نواب شاہ میں ڈمپر نے اسکول وین اڑا دی، 21 بچے صفحہ ہستی سے مٹ گئے، یہ چند واقعات ہیں، آپ اگر ملک کا دس سال کا ڈیٹا نکالیں تو آپ کو ملک کے مختلف شہروں، قصبوں اور دیہات میں روزانہ چار پانچ بچے اس طرح سڑکوں، گلیوں، ویگنوں اور رکشوں میں مرتے نظر آئیں گے، آپ کسی دن ریلوے کے کھلے پھاٹکوں میں مرنے والے بچوں کا ڈیٹا بھی نکال لیجیے، آپ کی آنکھوں میں خون کے آنسو آ جائیں گے مگر یہ تصویر کا ایک پہلو ہے، آپ اب دوسرا پہلو بھی ملاحظہ کیجیے۔

پاکستان افغانستان کے بعد دنیا کا دوسرا ملک ہے جس کے بچے آج بھی پولیو کا شکار ہیں، جس میں آج بھی بچوں کو ویکسین دینے والے ورکرز کو گولی مار دی جاتی ہے، جس میں نومولود بچے سردیوں میں سردی اور گرمیوں میں گرمی سے مر جاتے ہیں، جس کے 30 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں، جس کے اڑھائی کروڑ بچے آج بھی تعلیم کی نعمت سے محروم ہیں، جس کے 67 لاکھ بچے اسکول میں داخل ہی نہیں ہوتے، جس میں پنجاب کے 61، سندھ کے 53، خیبر پختونخواہ کے 51 اور بلوچستان کے صرف 47 فیصد بچے پرائمری اسکولوں میں داخل ہو
پاتے ہیں۔
جس کے 65 فیصد اسکولوں میں پینے کے پانی، 62 فیصد میں واش روم، 61 فیصد میں چاردیواری اور 39 فیصد میں بجلی نہیں، سندھ کے 35 فیصد اسکولوں کی عمارتیں ہی موجود نہیں ہیں اور جو دنیا کے ان پانچ ملکوں میں شمار ہوتا ہے جن کے بچے خطرناک حد تک ’’انڈرویٹ‘‘ ہیں، ہمارے 43 فیصد بچوں کا قد اور وزن عمر سے مطابقت نہیں رکھتا، یونیسکو کے دعوے کے مطابق پاکستان نائیجیریا کے بعد شدید تعلیمی بحران کا شکار دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے، ہمارے بعد ایتھوپیا اور بھارت کا نمبر آتا ہے اور پاکستان افریقہ کے تین ممالک کے بعد دنیا کا پہلا ملک ہے جو اساتذہ کی شدید کمی کا شکار ہے۔

یہ تصویر کا دوسرا پہلو تھا، تصویر کا ایک تیسرا پہلو بھی موجود ہے، ہمارے کالج، ہماری یونیورسٹیاں اور ہمارے تکنیکی ادارے معیار میں دنیا کے تیسرے درجے کے تعلیمی اداروں کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتے، میں چند دن قبل ٹیلی ویژن پر سندھ کے ایک اسکول کی رپورٹ دیکھ رہا تھا، اسکول کی آٹھویں جماعت کے بچوں کو اردو لکھنا نہیں آتی تھی، آپ ملک کی دس بڑی یونیورسٹیوں کا سروے کرا لیں، آپ کو اگر وہاں ایک فیصد طالب علم بھی کتاب، اخبار اور میگزین پڑھتے مل جائیں تو آپ نظام تعلیم کو 21 توپوں کی سلامی دے دیجیے گا، ہم لوگ تو ہیلتھ اور انجینئرنگ تک میں جہالت کی فیکٹری ہیں۔
اللہ نہ کرے آپ کبھی علیل ہوں اور آپ کو کسی اسپتال میں داخل ہونا پڑ جائے کیونکہ سرکاری اسپتال تو رہے ایک طرف ملک کے مہنگے ترین پرائیویٹ اسپتال بھی آپ کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ دیں گے اور آپ باقی زندگی اپنی پیپ صاف کرتے گزاریں گے، آپ تعلیمی اداروں کا سروے کرائیں، آپ کو ان میں گراؤنڈ، لائبریریاں اور لیبارٹریاں نہیں ملیں گی، آپ باقی ملک کو چھوڑ دیجیے، آپ اسلام آباد کے سرکاری اسکولوں کا جائزہ لے لیں۔

آپ کو وفاقی دارالحکومت کے مضافات اور دیہی علاقوں کے اسکول دیکھ کر شرم آ جائے گی، وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز اسلام آباد کے اسکولوں اور کالجوں پر توجہ دے رہی ہیں، اللہ تعالیٰ انھیں کامیاب کرے لیکن میں زیادہ پر امید نہیں ہوں، کیوں؟ کیونکہ میرا تجربہ ہے، حکومت کا جو بھی منصوبہ پبلسٹی سے شروع ہوتا ہے، وہ کبھی مکمل نہیں ہوتا، وہ ہمیشہ اشتہاروں، نعروں اور دعوؤں تک رہتا ہے تاہم میں مریم نواز کی کامیابی کے لیے دعا گو ہوں، یہ ان کی سیاسی زندگی کا دوسرا منصوبہ ہے، یہ کم از کم ضرور کامیاب ہونا چاہیے۔

آپ تصویر کے ان تینوں پہلوؤں کو دیکھیں اور اس کے بعد فیصلہ کریں، کیا وزیراعظم، وزراء اعلیٰ، حکومت اور ریاست ملک کے بچوں کو واقعی اپنے بچے سمجھتی ہے؟ کیا یہ لوگ ان لاکھوں کروڑوں بچوں کو بھی اے پی ایس کے شہید بچوں جتنی اہمیت دیتے ہیں، کیا ان کے دل سڑکوں، گلیوں، موٹروے، ریلوے کراسنگ اور جی ٹی روڈ پر مرنے، جلنے اور تڑپنے والے بچوں کے لیے بھی اتنے ہی دھڑکتے ہیں جتنے آرمی پبلک اسکول کے شہید بچوں کے لیے تڑپے اور کیا یہ اسکول نہ پہنچ پانے، صاف پانی نہ پی پانے اور استاد، عمارت اور واش روم سے محروم بچوں کے لیے بھی اپنے دلوں میں اتنی ہی ہمدردی محسوس کرتے ہیں جتنی یہ 16 دسمبر کو پشاور میں اے پی ایس اسکول میں محسوس کر رہے تھے؟

مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے، نہیں، ہماری ریاست، ہماری حکومت اور ہمارے حکمرانوں نے ملک کی طرح بچے بھی تقسیم کر دیے ہیں، ایک وہ بچے ہیں جن کی برسی پر وزیراعظم، چاروں وزراء اعلیٰ، گورنرز، وفاقی وزراء، سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور فوجی سپہ سالار اپنی تمام سرکاری اور غیر سرکاری مصروفیات ترک کر دیتے ہیں اور دوسری طرف ریلوے کراسنگ، وینوں، بسوں اور رکشوں میں مرنے والے وہ بچے ہیں

 جن کے لیے آج تک ریاست کے منہ سے افسوس کا ایک لفظ تک نہیں نکلا، ہمارے ملک میں ہر سال سیکڑوں بچے اسکولوں کی یونیفارم میں سڑکوں پر مارے جاتے ہیں لیکن آج تک ملک کی کسی اسمبلی، کسی ایوان میں ان بچوں کے لیے دعائے مغفرت تک نہیں ہوئی، ریاست کو آج تک وہ ریلوے پھاٹک بند کرنے کی توفیق نہیں ہوئی جو ہر مہینے دس پندرہ پچاس معصوم بچوں کا خون پی جاتے ہیں۔

ملک کے چاروں وزراء اعلیٰ اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر جواب دیں، کیا انھوں نے زندگی میں کبھی ٹریفک حادثوں میں مرنے والے بچوں کے لیے کوئی میٹنگ کی؟ کیا انھوں نے کبھی کوئی ایسا فیصلہ کیا جس سے ملک کے تمام بچے اسپتالوں میں پیدا ہو سکیں، انھیں مناسب خوراک مل سکے اور یہ عزت اور اعتماد کے ساتھ سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کر سکیں؟ اور وزیراعظم بھی اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر جواب دیں، کیا میاں نواز شریف نے کبھی ان بچوں کی حفاظت، صحت اور تعلیم کے لیے وقت نکالا جن کے بارے میں کہا جاتا ہے، دنیا میں پیدا ہونے والا ہر بچہ اعلان کرتا ہے۔

اللہ ابھی انسان سے مایوس نہیں ہوا، نہیں، یقیناً نہیں! آپ قوم کاحوصلہ دیکھئے، جس نے کل ان قائم علی شاہ، شہباز شریف، پرویز خٹک اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو اے پی ایس کی تقریب میں آنسو بہاتے اور شہید بچوں کے والدین کو ایوارڈ دیتے دیکھا، جن کے اپنے صوبوں میں ہر سال سیکڑوں بچے بھوک، بیماری، حادثوں اور گندے پانی کی وجہ سے مر جاتے ہیں اور قوم نے اس وزیراعظم کو بھی بچوں کو اپنا مستقبل قرار دیتے سنا جس کے پندرہ کلومیٹر کے اسلام آباد میں ایک بھی ایسا سرکاری اسکول موجود نہیں جس میں یہ اپنے کسی پوتے پوتی یا نواسے نواسی کو داخل کرا سکیں، قوم نے آزاد کشمیر کے اس وزیراعظم کو بھی شہید بچوں کے والدین کو سلام پیش کرتے دیکھا جو زلزلے کے دس سال گزرنے کے بعد بھی آزاد کشمیر میں اسکول نہیں بنا سکا اور جس کے آزاد کشمیر میں آج بھی ڈیڑھ لاکھ بچے ننگی زمین پر کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ہمارے ملک میں آج بھی 30 ہزار اسکول صرف کاغذوں میں پائے جاتے ہیں۔

یہ سرے سے زمین پر موجود ہی نہیں ہیں، آج بھی چاروں وزراء اعلیٰ کے اپنے حلقوں کے سرکاری اسکولوں میں استاد پورے نہیں ہیں، یہ بھی کیا کمال لوگ ہیں، یہ بھی فوج کو اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے لیے پشاور پہنچ جاتے ہیں لیکن اپنے حلقے میں نہیں جاتے، میں اس دن مانوں گا جس دن میاں شہباز شریف، قائم علی شاہ، ڈاکٹر عبدالمالک اور پرویز خٹک اپنے اپنے حلقوں کے اسکولوں کو اتنا محفوظ، اتنا مضبوط اور اتنا شاندار بنا لیں گے کہ ان کے پوتے اور پوتیاں ان اسکولوں میں تعلیم حاصل کر سکیں یا پھر یہ لوگ ان اسکولوں کو اتنی سہولتیں دے دیں گے جتنی ملک بھر کے آرمی پبلک اسکولوں کو حاصل ہیں اور وزیراعظم صرف اسلام آباد کے اسکولوں کالجوں کا معیار فوجی تعلیمی اداروں کے برابر کر دیں گے، وہ دن ملکی تاریخ کا سنہری دن ہو گا۔

آج ریاست سے پھاٹکوں، سڑکوں اور بسوں میں مرنے والے بچے، غذائی قلت کے شکار بچے، متعدی امراض کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے بچے اور اسکولوں، کتابوں، استادوں، صاف پانی، واش روم اور لیبارٹریوں کو ترسنے والے بچے یہ سوال کر رہے ہیں، ہمارا پاکستان کب بنے گا، ہمارا وزیراعظم، ہمارے گورنرز، ہمارے وزراء اعلیٰ اور ہمارے لیڈر کب آئیں گے، ہمارے حصے کی حکومتیں کب بنیں گی اور ہماری ریاست کا ظہور کب ہو گا؟

ان کا میاں نواز شریف اور ان کا میاں شہباز شریف کب آئے گا اور ان کے سر پر کون ہاتھ رکھے گا؟ آپ کوئی توپ نہ چلائیں، آپ بس ان بچوں کو دشمن کا بچہ سمجھ کر پڑھا دیں، آپ ان بچوں کو اس دشمن کے بچے سمجھ کر جان، عزت اور تعلیم دے دیں جن کو ہم دس دن سے یہ پیغام دے رہے ہیں ’’ہم نے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے‘‘ آپ جن بچوں کو آج تک اپنا بچہ نہیں بنا سکے، آپ انھیں دشمن کا بچہ ہی سمجھ لیں، شاید اس سے ان بچوں کا مقدر بدل جائے۔

جاوید چوہدری

Post a Comment

0 Comments